سننا سیکھو !بولنا تو سب کو آتا ہے

گزشتہ سے پیوستہ(دوسری قسط)

اچھے سامع کی خصوصیات
ایک اچھاسامع ہمیشہ حصول علم کے لئے کوشاں رہتا ہے۔اگر اساتذہ طلبہ کی بے پناہ سمعی طاقت و قوتوں کے سرچشموں کا صحیح ادراک کر تے ہوئے ان پر اپنی توجہ مرکوز کردیں تو وہ طلبہ کو صرف ایک کامیاب سامع ہی نہیں بلکہ ایک بہتر مکتسب (Learner) بنانے میں بھی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ذیل میں چند ایسی خصوصیات کو بیان کیا جارہا ہے جو معیاری سماعت کے فروغ میں اہم تصور کی جاتی ہیں۔
(1) مخاطب کی باتوں کو ہمیشہ مثبت تعمیری انداز اور صحیح تناظر میں سننا چاہئے۔ بات کون کر رہا ہے اہم نہیں ہے بلکہ کیا بات کررہا ہے یہ بہت اہم ہے جس پر دوران سماعت توجہ دی جانی چاہئے۔ بات کو صبر و تحمل اور غور سے سنیں چاہے آپ اس سے متفقہوں یا نہیں۔ جب اپنی ذاتی رائے عود کر آتی ہے یا پھر ذہن کسی رائے کے زیر اثر ہوتا ہے تب مخاطب کے پیغام اور گفتگو سے کارآمد نکات نکالنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
(2)مخاطب کو دلچسپی سے دیکھنا ،بامقصد سننا پیغام کو کثیر حسی (Multi Sensory)انداز میں یاد رکھنے میں بہت مددگار ہوتا ہے۔پیش کش و گفتگو کے دوران جسمانی حرکات و سکنات،چہرے کے تاثرات سمعی اور بصری محرکات پر توجہ مرکوز کرنے سے سماعت کی اثر پذیر ی میں قابل قدر اضافہ ہوتا ہے۔
(3)ذہن کو ہمیشہ سماعت کے لئے آمادہ و تیار رکھنا چاہئے۔ ذاتی طور پر خود کو باور کرائیں کہ شعوری سماعت کارآمد ہوتی ہے اور جواخذ و اکتساب کے کئی مواقعفراہم کرتی ہے۔یہ خود کار ذہنی محرکہ سننے کی صلاحیت کو بہتربنانے میں نہایت کارگر اور معاون ہوتاہے۔
(4)مخاطب کے پیش کردہ افکار و نظریات کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں اور منفرد سمجھیں ۔ گفتگو کے آغاز سے قبل یا دوران گفتگو کبھی بھی رائے قائم نہ کریں اورنہ ہی گفتگو میں غیرضروری رکاوٹیں پیدا کریں۔
(5)مخاطب پر اپنی دلچسپی اورانہماک کا اظہار کریں۔سننے میں دلچسپی اور انہماک کے اظہار سے مخاطب اپنی بات آرام دہ اندازہ، بہتر طریقے اور آزادانہ طور پر پیش کرتاہے۔
(6) گفتگوکے اختتام پر ذہنی استحسان ،تعین و تجزیہ سامع(طلبہ) کوتفہیم و تعبیر اور اخذ و اکتساب کے لائق بناتا ہے۔
(7) بات کو صبر و تحمل سے سننے ، جذبات پر قابو رکھنے اور فوری طور پر مخاطب کی بات پر کوئی ردعمل پیش کرنے سے باز رہنے سے ذہن گفتگو کی عاقلانہ سماعت کے قابل بنتا ہے۔
(8)مخاطب کو صبرو تحملسے سنیں چاہے آپ اس سے اتفاق رکھتے ہوں یا اختلاف ۔دورانِ سماعت مثبت انداز میں سر ہلاکر،اچھا،ٹھیک ہے وغیرہ کہتے ہوئے مخاطب کو بہتر تاثر دینے کی کوشش کریں۔
(9)ہمیشہ دوران سماعت ذہن کو فضول خیالات کی دراندازی سے پاک رکھیں ۔ ذہن میں غیر حقیقی خیالات و رویوں کے درآنے سے مخاطب کے خیالات سمجھنے میں یکسوئی اور تسلسل باقی نہیں رہتا ۔
(10) مخاطب کے پیغام کو جب سامع خود سمجھنے سے عاجز پائے یا اسے کوئی خاص وضاحت یاتفہیم درکار ہو تب وہ پرجوش اندازا ورعمدہ طریقے سے استفسار کرے۔
(11)مخاطب کی بات پر اگراپنی کوئی رائے (Feedback) پیش کرنا ہوتب مخاطب کے پیغام کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہوئے رائے زنی کریں اور خیال رہے کہ بازافزائش (رائے زنی) ،مثبت،صحت مند حوصلہ افزا ،واضح اور غیر مبہم ہونی چاہئے۔
(12)ایک اچھا سامع سنی گئی تمام باتوں پر غور و خوض،تخمین و ظن اور قدر پیمائی (Evaluation)کے ذریعے پیغام کے خلاصے(Gist)کو مختلف اوقات پربازیافت کے لئے اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتا ہے۔
(13)ایک اچھا سامع مشکلات و مسائل کا سامنا کرتے ہوئے بھی مایوسی و محرومی سے بچتے ہوئے ہمیشہ مثبت انداز میں سوچتا ہے۔
(14) ایک اچھا سامع اپنے قابو سے باہر خراب حالات، ترقی میں مانع رکاوٹوں اور پسپائی کو نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے بلکہ انہیں وقتی، غیر مستقل اور وقت کے ساتھ گزرجانے والے تصور کرتا ہے۔
(15) ایک اچھا سامع اپنی سماعت پر حسد،کینہ،بغض،نفرت اور کدورت جیسے جذبات کو کبھی غلبہ پانے نہیں دیتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے غصے اور جذبات پرقابو رکھتا ہے۔ دوران سماعت اپنے دل و دماغ کو ٹھنڈا اور پرسکون رکھتا ہے۔
(16)اچھا سامع بولنے کے لیے نہ صرف اپنی باری کا انتظار کرتا ہے بلکہ مخاطب کی بات کو درمیان سے کبھی نہیں کاٹتا ہے۔
(17)اچھا سامع اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو بھی خندہ پیشانی سے سنتا اور برداشت کرتا ہے۔ جذباتی جملوں کا جواب ہمیشہ غیر جذباتی اندازسے دیتا ہے۔ناخوشگوار بات کو بھی خوشگوارانداز میں سنتا ہے۔
(18)اچھا سامع بولنے سے زیادہ سنتا ہے۔
بہتر سامع بات کو تحمل اورصبر سے اس توقع سے سنتاہے کہ دوران گفتگو ابھی کوئی کام کی بات نکل آئے گی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی کی بات کو اچھی طرح سننے سے اختلاف کی شدت میں بہت زیادہ کمی واقع ہوتی ہے۔قرآن مجید میں سننے کے متعلق نعمتوں کا کئی جگہوں پر ذکر آیا ہے۔’’جنتی لوگ کوئی بے ہودہ بات نہ سنیں گے اور جو کچھ بھی سنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے۔‘‘ (سورہ مریم)،’’جنتی لوگ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے۔‘‘،(سورہ واقعہ)،’’جنتی لوگ کوئی لغو اور جھوٹی بات نہ سنیں گے۔‘‘(سورہ النبا)۔مذکورہ آیات سے یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ جنت میں بے ہودگی، یاوہ گوئی، جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، گالی، لاف و گذ اف، طنزوتمسخر اور طعن و تشنیع جیسی باتیں نہیں ہوں گی۔اساتذہ خود کو اور اپنے طلبہ کو سمعی قباحتوں سے محفوظ رکھتے ہوئے کئی ایک مصیبتوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اساتذہ بچوں میں بہتر سماعت کی عادت کے فروغ کے ذریعے نہ صرف طلبہ کو اچھے سامع بنا سکتے ہیں بلکہ اپنی رہبری ، رہنمائی اور ذیل میں بیان کردہ چند اقدامات پر عمل پیرائی کے ذریعے بچوں میں مثبت و موثر سماعت کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔
(1)طلبہ اس وقت بہتر طور پر بات سماعت کرتے ہیں جب انھیں پیشگی طورپر مطلع یا باخبر کردیا جاتا ہے کہ مقرر (مخاطب) کے خیالات پر انہیں اظہار خیال کرنا اور اپنا ردعمل پیش کرنا ہے۔طلبہ کو سماعت کردہ تقریر پر اپنے خیالات کے اظہار،غووو خوض اور خود احتسابی کا موقع فراہم کرتے ہوئے عمدہ سماعت کی عادت کو راسخ و مضبوط کیا جاسکتا ہے۔
(2)طلبہ کو مقرر کی پیش کشی کے بجاے اس کے پیش کردہ پیغام پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی تلقین کی جانی چاہئے مزید براں انہیں مقرر کی اغلاط اور پیش کش میں پائی جانے والی خرابیوں اور اغلاط پر توجہ دینے کے بجائے مقرر کے پیغام کی اہمیت و افادیت پر توجہ مرکوز کرنے کی تلقین سے نہ صرف سماعت بہتر ہوتی ہے بلکہ ان کے اکتساب کی شرح میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔
(3)عموماً طلبہ غیر اہم اور تفریحی مواد سننے میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔طلبہ کو تفریحی مواد کے ساتھ ساتھ معلومات و علم سے آراستہ فائدہ مند مواد سننے کی بھی لگاتار تلقین کرنا چاہئے۔
(4) بچوں کو مسلسل اس بات کی تلقین کی جائے کہ کسی بھی بات کو سننے سے قبل وہ اپنی کوئی رائے یا فیصلہ قائم نہ کرلیں اور نہ ہی اسیقبل از سماعت بور یابے کیف گردانیں۔بات کی سماعت کے دوران اس سے معنی ،مفہوم او ر کوئی کارآمد بات اخذ کرنے کی کوشش کریں۔
(5)طلبہ مقرر کے اختیارکردہ اندازتخاطب اور گفتگو کے اسلوب کے تعین سے نہ صرف گفتگو کے مقاصد سے آگہی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں بلکہ اس کو یاد رکھنے میں بھی یہ امر بہت معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
(6)سنی گئی باتوں سے طلبہ کو معنی و مفاہیم اور اخذو اکتساب کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ سنی گئی باتیں وہ فراموش نہ کریں اور وہ ان کے ذہنوں میں پختہ ہوجائیں۔عدم دلچسپی سے بات سننے سے باتیں یاد نہیں رہتیں اور وہ بہت جلد حافظے سے اتر بھی جاتی ہیں۔
(7)طلبہ کو پڑھائے جانے والے سبق کو غور سے سننے اور دوران سماعت سبق و لکچر کے اہم نکات کو قلم بند کرنے کا عادی بنائیں تاکہ ان میں بات کو غورو دلچسپی سے سننے کا مادہ پروان پڑھے اور دوران سبق سنے اور تحریرکردہ نکات سے سبق کی بازیافت اور دہرائی میں انھیں مددمل سکے۔درس کو غور سے سننے اور درس کے دوران سبق کے نکات کو تحریر کرنے سے معلومات حافظے میں طویل مدت کے لئے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
(8)طلبہ کو تاکید کریں کہ وہ کمرۂ جماعت میں داخل ہونے سے قبل اپنے سبھی تفکرات پریشانیوں اور الجھنوں کو باہر چھوڑدیں۔ وہ کمرۂ جماعت میں غیر ضروری طورپر الجھن کا شکار نہ ہوں اور یکسوئی ودلجمعی سے سماعت اور اخذو اکتساب کے فرائض انجام دیں۔ذہنی الجھنیں اور تفکرات عمدہ وموثر سماعت میں ہمیشہ مانع ہوتی ہیں۔
(9)طلبہ سے ایسے سوالات کریں جو فکر کو مہمیز کرتے ہوں۔طلبہ کی سماعت کو پروان چڑھانے میں معاون و مددگار وسائل کو بروئے کار لائیں تاکہ بچے بہتر وفعال سامع بنیں اور ان کی اکتسابی صلاحیتیں بھی پروان چڑھ سکیں۔
(10)دوران گفتگو بعض طلبہ خواب و خیال میں محو ہوجاتے ہیں جب کہ چند مخاطب پر کوئی فقر یا بھپتی کسنے کے ارادے سے بات سنتے ہیں۔طلبہ کو ان خرافات سے باز رہنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ مثبت و موثر سماعت سے اپنے آپ کو بہرور کرسکیں۔
(11)طلبہ کو ہر دم ذخیرہ الفاظ میں اضافے کیفکر ہونی چاہئے تاکہ جب کبھی وہ کسی کو سنے تب اس گفتگو سے اخذو اکتساب اور بہتر فہم حاصل کرنے میں ذخیرہ الفاظ بہت مددفراہم کرتے ہیں۔مخاطب و مقرر کی باتوں کو واضح ،صاف اور بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ذخیرہ الفاظ کا پایا جانا بہت ضروری ہے۔اسی لئے طلبہ جب کوئی نیا لفظ سنے اسے فوری طور پر نوٹ کرلیں اور ذہن میں محفوظ کرلیں۔
(12) ابراہم لنکن کے قول ’’انھیں سب کچھ سننا سکھاؤ،لیکن سنی ہوئی تمام باتوں کو سچ کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے اچھی باتوں کو قبول کرنا بھی سکھلاؤ‘‘۔(Teach them to listen to all sources, but also teach them to filter all hears on a screen of truth, and take only the good that comes through.Abraham Lincoln)کی روشنی میں اساتذہ طلبہ کو سنی گئی بہتر باتوں کو منتخب کرنے اور یاداشت میں انھیں محفوظ کرنے کی مہارت بھیسکھائیں تاکہ ان میں بہترسماعت اور موثر اکتساب پروان چڑھ سکے۔
(13)اساتذہ کمرۂ جماعت میں مختلف سماجی افراد کو مذاکرہ کے لئے مدعو کریں تاکہ وہ اخذو اکتساب اور سماعت سے متعلق اپنی معلومات وتجربات کو سادہ اورپر اثر انداز میں طلبہ کے سامنے پیش کرسکیں۔مذاکرہ ،بحث و مباحثے جہاں سنجیدگی کے فروغ کے لئے ضروری ہے وہیںیہ سماعت کے معیار، تفہیم وتشریح اور اخذو اکتساب کی اثر پذیری کا بھی غماز ہوتا ہے۔
وقتاً فوقتاً طلبہ کا محاسبہ کرتے رہیں تاکہ ان کی سمعی مہارتوں اور اکتسابی صلاحیتوں کی تعمیر و ترقی ممکن ہو۔وہ بہتر سننے اور سمجھنے کے لائق بنیں۔ سماعت کوبامقصد اور موثربنانے کی عادت و مہارت طلبہ میں خوداعتمادی کو پروان چڑھانے اور عزم و حوصلوں کو زندگی عطا کرنے میں اہم کام کرتی ہے۔
گفتگو میں سماعت کا کردار
ہم خاموش رہتے ہوئے بھی گفتگو اور خیالات کے تبادلے میں ایک اہم اور فعال کردار انجام دیتے ہیں۔خاموش سامع اپنے لفظی و غیر لفظی (Verbal and Non verbal)پیغامات کے ذریعے متکلم (مقرر ،بات کرنے والے)کو خوش گوار طریقے سے اپنی بات جاری وساری رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ایک خاموش سامع کے طور پر گفتگو میں اہم اور فعال کردار انجام دینے کے متمنی کے لئے ضروری ہے کہ وہ سلسلہ گفتگو کی برقراری کے لئے غیر لفظی تاثرات کے اظہار میں غایت درجہ احتیاط سے کام لے۔ہمیشہ چہرے کے حوصلہ افزاء تاثرات،پرسکون رسائی ،معنی خیز توجہ بات کرنے والے پر اچھا تاثر ڈالتی ہے اور وہ خوشی محسوس کرتا ہے کہ سامع اس کی بات دلچسپی اور انہماک سے سن رہا ہے اور اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سننے والے کا انہماک توجہ اور دلچسپی بات کرنے والیمیں جذبہ،جوش و ولولہ بھرتے ہوئے بات کو موثر کن انداز میں پیش کرنے پر مائل کرتی ہے۔ سامعین کا امید افزا برتاؤ گفتگو و تبادلہ خیال کے لئے سازگار ماحول تیار کرتا ہے۔کامیاب و موثر گفتگو میں جس قدر اچھی گفتگو اہم تصور کی جاتی ہے اسی طرح مثبت و موثر سماعت بھی کامیاب و موثر گفتگو کی روح تصور کی جاتی ہے۔گفتگو اور ا خذواکتساب کے عمل میں سماعت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے بغیر عمدہ سماعت کے اخذو اکتساب اور کامیاب تبادلہ خیال کا تصور بھی محال ہے اساتذہ بچپن کے ابتدائی سالوں ہی میں بہتر سماعت کی عادت کے فروغ کو ممکن بنائیں تاکہبچے اخذو اکتساب اور گفتگو کے ہنر میں مہارت حاصل کرتے ہوئے فقید المثال کامیابیوں کو گلے لگائیں۔
گفتگو کے اسلامی آداب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بات غور سے سنیں،بات کرنے والے کو بولنے کاموقع دیں،درمیان میں اس کی بات نہ کاٹیں اور ادھر ادھر توجہ کرنے کے بجائے بات کرنے والے کی جانب مکمل توجہ رکھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابو ذرؓ سے ارشاد فرمایا’’اے ابو ذر!کیا تمہیں ایسی دو باتیں نہ بتاؤں جو پیٹھ پربہت ہلکی اورمیزان (نامہ ٗاعمال) میں بہت بھاری ہو‘‘حضرت ابوذرؓ نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا(1)زیادہ خاموش رہنا(2)اور عمدہ اخلاق(مشکوۃالمصابیح)۔اچھی گفتگو کرنے والاانسان اچھا سامع (سننے والا)بھی ہوتا ہے۔اساتذہ طلبہ کو بولنے کے وصف سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اچھا سننے والا بھی بنائیں۔ بہت سے لوگ جن افراد سے پہلی بار ملتے ہیں تو وہ ان پر اچھاتاثر قائم کرنے میں اس لئے ناکام رہتے ہیں کہ وہ ان کی بات کو توجہ سے نہیں سنتے ہیں۔یہ بات سچ ہے کہ لوگ اچھا سننے والے کو اچھا بولنے والے شخص پر ترجیح دیتے ہیں۔سننا مربوط گفتگو کا ضرور عنصر ہے جس سے خیالات کی لڑی بھی نہیں ٹوٹتی ہے اور لوگ بیزار بھی نہیں ہوتے ہیں۔اساتذہ بچوں کواچھے طریقے سے سننا اسی طرح سیکھائیں جس طرح اچھے انداز سے بولناسکھاتے ہیں۔اچھا سننے کا مطلب یہ ہے کہ متکلم (بات کرنے والے) کواپنی بات پوری کرنے کاموقع دیا جائے،اسی طرح جواب دینے کی طرف توجہ کم دینااور اس کی طرف منہ نہ کرنااور اس کی طرف گھور کردیکھناوغیرہ غیر مناسب باتیں ہیں۔کہی گئی بات کو یاد رکھنا بھی اچھا سننے میں شامل ہوتا ہے۔جنہیں لوگوں کی بات سننے کا سلیقہ نہیں آتا انہیں بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا ہے۔ سکون اور اچھی طرح سے بات کو سننے سے آدمی معاشرے میں ہر دلعزیز ہوجاتا ہے۔ حقیقی ادراک کے لئے بات کو ہمہ تن گوش سنا جائے۔سننا محض جواب دینے یا اپنا مقصدحاصل کرنے کی غرض سے نہ ہوبلکہ سننا سمجھنے کے لئے ہومتکلم کے نکتہ نظر سے آگہی کے حصول کے لئے ہو۔تعصب اور فریب نظر کی وجہ سے بات کو غلط رخ سے سن کرہم اس کی تہہ تک نہیں پہنچپاتے ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ’’اے اللہ ہمیں چیزوں کواسی طرح دیکھنے کی توفیق عطا فرما،جیسی وہ ہیں۔اور باطل کو باطل کے روپ میں دیکھنے اور اس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطافرما۔ہمیں حق کو حق کی صورت میں دیکھنے اور پھر اس کی پیروی کی توفیق عطا فرما‘‘سے ہمیں رہنمائی و رہبری ملتی کہ بات کو اسی طرح سنے جس طر ح وہ کہی گئی ہے۔سماعت کے آداب و تقاضوں کے ضمن میں سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اگر جائزہ لیا جائے توہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ عادت اتنی خوبصورتی سے جلو گر ہے کہ جس کی مثال ہمیں کہیں نہیں ملتی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم حسن سماعت کاشاندار نمونہ تھے۔آپ ﷺاپنے مخاطب کی بات کو اچھی طرح سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہوجایا کرتے تھے۔دوسروں کی باتوں کو بہت صبر و تحمل اور اطمینان سے سنتے تھے۔ساری زندگی آپ ﷺ نے کبھی کسی بات کرنے والے کی بات کو نہیں کاٹا۔روایتی انداز سماعت کے بجائے حقیقی سماعت ایک طاقتور عمل ہے جو آدمی کو دوسروں کے خیالات ،جذبات اور احساسات سے حقیقی معنوں میںآشنائی کا موقع فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے ہم کئی مسائل کا حل آسانی سے ڈھونڈ لیتے ہیں۔
مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد ،اعلیٰ افسران،علمائے اکرام،اساتذہ اکرام،سیاسی زعما اور قیادت کے منصب پر فائز بیشتررہنماوں پر نظر ڈالی جائے تو اکثر موثر سماعت کی صلاحیت سے تہی دست نظرآتے ہیں۔ روز مرہ کی تلخیاں،شکر رنجیاں،کشیدگیاں اور جھگڑے اکثر بات کو سننے کے اصول وضوابط کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اگر مخاطب کی تلخ و ترش باتوں کو صبروتحمل کے ساتھ صحیح تناظر میں سن لیا جائے تو بیشتر رنجشوں اور تلخیوں کاازالہممکن ہے۔کسی ادارے،کمپنی یا تنظیم میں کام کرتے ہوئے،دوستوں سے بات چیت کرتے ہوئے،کھیل کے میدان میں،میاں بیوی،والدین اور رشتے داروں سے گفتگو کرتے ہوئے،اپنے اعلیٰ عہدیداروں یا ماتحتین کو قائل کرتے ہوئے،درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے،لیکچر یا تقریر سماعت کرتے ہوئے،الغرض زندگی کے ہر میدان میں موثر سماعت کی صلاحیت انسان کو کامیابی وکامرانی سے ہم کنار کرنے کے لیے ضروری ہے۔اس لیے سماعت کی اہمیت کا صحیح تصو،احساس اورادراک ذہنوں مرتسم کرناضروری ہے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں