فداک ابی و امی

سورۃ الحجرات میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ

  “اے لوگو جو ایمان لائے ہو,اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کروجس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو.کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا سب کیا کرایا غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو.
(الحجرات -آیت ۴)
سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں رسول خدا محمدﷺ سے گفتگو کے آداب اور انکی مجلس میں شرکت کاسلیقہ جس خوبی سے بیان کیا گیا ہے اس سے عظمت اور تکریمِ رسول ﷺکی اہمیت واضح ہوتی ہے.
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اپنے بزرگوں ,اساتذہ کرام اور علماء کرام وغیرہ کو خاص عزت و احترام دیتے ہیں ان سے گفتگو کے دوران بھی انکی تعظیم کا خیال رکھتے ہیں.لیکن اللہ کے رسول ص کی عزت و تکریم کا معاملہ ان سب کے احترام سے بہت بلند ہے.دنیا کی دوسری ہستیوں کا احترام نہ کرنے کی صورت میں کسی شخص کا عمل ناپسندیدہ تو کہلایا جاسکتا ہے مگر اسےدائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا.مگر انبیاء کرام کا احترام اور تعظیم نہ کرنیوالے کو کسی طور اہل ایمان میں شمار نہیں کیا جاسکتا.ان کی تعظیم تو ہمارے ایمان کا ایک لازمی جز ہے.اللہ کے آخری نبی محمد ﷺ کی تعظیم و تکریم میں احترام کے ساتھ ساتھ محبت اور وارفتگی کا عنصر بھی انتہائ اہمیت رکھتا ہے.
انبیاء کرام سے گستاخانہ رویّہ ,کثرتِ سوال,احکامات الٰہیہ سے روگردانی اور بحث ومباحثہ ہی بنی اسرائیل کی تنزّلی اور رب العزت کی نظر میں بے وقعتی کی بنیادی وجہ تھی.یہ طرز عمل ماضی,حال اور مستقبل کے تمام اعمال کے ضیاع کا موجب بن جاتا ہے.اس لیئے نبی کے احترام کے یہ احکامات آج بھی اسی طرح نافذ العمل ہیں جتنا کہ پیارے نبی ص کی حیات طیبہ میں قابل عمل تھے.آج بھی ان ص کی کسی بات یا عمل پر کوئ ناقدانہ گفتگو یا بحث نہیں کی جاسکتی.اللہ اور اسکے رسول کی تعلیمات اور احکامات پر کوئ مباحثہ اور سوال اٹھانے کا کوئ حق اللہ کی طرف سے میسر نہیں کیا گیا.حضرت محمد ص پر نازل شدہ شریعت مطّہرہ کے کسی بھی پہلو پر ناگواری کا شائبہ بھی کسی مسلمان کہلانے والے پر جائز نہیں.
میرے نبی کی ذات کا ہر پہلو قابل احترام گردانا  گیا ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر آخر الزمان کے بعد اب وحی الٰہی کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے.تاقیامت آنیوالے ہر ذی نفس کیلیئے اب ہدایت و سلامتی کا واحد راستہ صرف حضرت محمدﷺ کی ذات اور ان پر اللہ کی طرف سے  نازل کردہ تعلیمات ہیں.اگر آپ ﷺکی عزت و تکریم میں کج روی اختیار کی گئ اور آپ ﷺ کی ذات اقدس اور شریعت کو مشتبہ بنا دیا گیا تو انسانیت گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں میں ہی بھٹکتی رہ جائے گی.اپنے حقیقی رب کو ڈھونڈنے کی جستجو کرنیوالوں کیلیئے یہ آخری روشنی بھی ماند پڑجائیگی.کیونکہ اللہ سے ملانے کا واحد راستہ اب صرف رسول اکرم محمدﷺ ہیں.یہی وجہ ہے کہ دشمنان حق کی طرف سے آج ان ص کی ذات پر وار ہورہے ہیں.اسلام کی روشن تعلیمات اور احادیث نبوی ﷺ کو متنازع بنایا جارہا ہے.مسلمانوں سے انکے ایمان کا اہم جزو “حبّ رسول ” کو چھیننے کی بھرپور کوششیں ہورہی ہیں.جھوٹے داعیان نبوت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں.یہاں تک کہ توہین رسالت جیسے بنیادی قانون کو بھی اسلامی جمہوریہ میں اعتراض کا نشانہ بنایا جارہا ہے.
آج کے مسلمان کو سوچنا ہے کہ اگر حبّ رسول اور عظمت رسول کی دولت چھن گئ تو پھر ہمارے دعوہء ایمان کی کیا حیثیت???
دین اسلام پر بیرونی طاغوتی حملوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے.کبھی قادیانیت کا فتنہ اور اندرونی سازشیں ہیں تو کبھی گستاخان رسول کی سزا معافی اور رہائ کا فیصلہ امت کے زخموں پر نمک پاشی کا باعث ہے.کبھی سیکولرزم کے نام پر لادینیت اور اباحیت کا پرچار ہے تو کبھی حقوق اور آزادی کے نام پر فرائض سے فرار اختیار کیا جارہا ہے.مغربی دجالی تہذیب کو مساوات کا نام دے کر مسلم معاشروں پر مسلط کیا جارہا ہے.ان حالات میں ایک اللہ اور رسول ﷺکی محبت ہی اہل ایمان کو سیسہ پلائ دیوار کی طرح ان فتنوں کی راہ میں حائل رکھتی ہے.اسوہ رسول ﷺہی ان اندھیروں میں روشن چراغ کی مانند راستہ دکھاتا ہے.یہی وہ اسوہ ہے جو ہر غم کا مداوہ ہے اور ہمارے اطراف میں سسکتی انسانیت کے زخموں کا مرہم ہے.
قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ

“اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیئے اور ایمان لائے اس (تعلیم پر) جو محمدﷺ پر نازل ہوئ ہے اور وہ سراسر حق ہے انکے رب کی طرف سے -اللہ نے انکی برائیاں ان سے دور کردیں اور انکا حال درست کردیا .”
(سورۃ محمد-آیت ۲)
ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ ہی وہ عظیم اور معزز ترین ہستی ہیں جو مجھے اور آپ کو ان حسین باغات کی خوشخبری دیتے ہیں کہ جہاں کوئ خوف ہوگا اور نہ کوئ غم.ان شاء اللہ.

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں