مطبوعہ تفاسیرکی اقسام اوربنیادی تفاسیر

مطبوعہ کتب تفسیرپر گہری نظر رکھنے والے محققین نے ان کتب تفسیرکے اسلوب اور مفسر کے غالب رجحان کو دیکھتے ہوئے ان کو آسانی اورسہولت کے لیے درج ذیل چار اقسام پر تقسیم کیا ہے:
(۱)علما و ائمہ عربیت کی تفاسیر
یہ وہ تفاسیر ہیں جن کے لکھنے والے لغت عرب کے امام اور سند کادرجہ رکھتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں آنے والے کسی بھی لفظ اوراصطلاح کے سمجھنے کے لیے یہ تفایسر انتہائی ممد ومعاون ثابت ہوتی ہیں۔ان تفاسیر میں الکشاف، تفسیر ابی السعود ،اسی طرح کشاف سے اختصار کردہ البیضاوی اور المدارک،امام ابوحیان کی تفسیر البحر المحیط ۔ تفسیر کشاف کے بعد عمدہ ترین تفاسیر میں سرفہرست علامہ ابو سعود ؒ کی تفسیر ارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم ہے۔اسی طرح امام راغب اصفہانی ؒ کی المفرادات فی غریب القرآن بھی اس حوالے سے اہم تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔
(۲)محدثین کرام کی تفاسیر
یہ وہ تفاسیر ہیں جن کے مرتب کرنے والے مفسیرین نے زندگیاں حدیثِ رسول ﷺ کی تعلیم وتدریس میں گزری،یہی وجہ ہے کہ ان تفاسیر پر احادیث کا رنگ غالب ہے۔اس حوالے سے سرفہرست تفسیر ابن جریر،: تفسیر ابن کثیر ،:اور الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ہیں۔ تینوں تفاسیر میں صحیح احادیث کے ساتھ ساتھ ضعیف ،بلکہ موضوع روایات تک درج کی گئی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ حضرات اپنی تفاسیر کو اسرائیلیات سے بھی محفوظ نہ رکھ سکے۔تفسیر ابن جریر،جو تفسیر طبری بھی کہلاتی ہے،اگرچہ مطبوعہ تفاسیرمیں سب سے پہلی تفسیر کا درجہ رکھتی ہے،لیکن اہلِ علم میں اس کے مؤلف علامہ ابن جریرکی شخصیت تفسیری وتاریخی دونوں اعتبار سے شدید متنازع ومختلف فیہ رہی ہے۔تفسیر ابن کثیر کا تعارف آگے آرہا ہے۔الدرالمنثورمیں سند کے ساتھ احادیث کو جمع کیا گیا ہے،لیکن حدیث کی صحت وسقم سے بحث نہیں کی گئی۔
(۳)علمائے منطق وکلام کی تفاسیر
یہ ان علماکی تفاسیر ہیں جن پر عقلیات کا غلبہ رہا،یا ان حضرات نے جس دور میں یہ تفسیری کام کیا،اس دور میں یونانی منطق وفلسلفہ کا غلبہ تھا اور اس کے زور پر دین اسلام کے احکامات کے انکار یا اس پر جرح کی فضا عام تھی۔اس ذہنی ارتداد سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے ان علمائے کرام نے پہلے خود ان علوم وفنون پر مہارت حاصل کی،پھر ان کو استعمال کرتے ہوئے ان شبہات کا ازالہ کیا،جو عقلیت پرستوں کی طرف سے پیش کرکے عام مسلمانوں میں دینی احکام کے حوالے سے تشکیک پھیلائی جارہی تھی۔ان تفاسیرمیں سرفہرست علامہ رازیؒ کی مفاتیح الغیب اور اس کا خلاصہ غرائب الفرقان جو علامہ نیشاپوری کی کاوش ہے، شمار کی جاتی ہیں۔تفسیر رازی کا تعارف آگے آرہا ہے۔اسی طرح برصغیر میں عقل پرستوں کے جواب میں مولانا ابومحمد عبدالحق حقانی ؒ نے تفیسر حقانی لکھی،جس میں نیچریت اور دہریت سمیت تمام عقل پرستوں کے پھیلائے ہوئے شکوک وشبہات کا شافی جواب دیا۔
(۴)فقہی تفاسیر
یہ ان علما کی تفاسیر ہیں جنھوں نے قرآن مجید کی مراد کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ائمہ اربعہ کی مرتب کردہ فقہ کی روشنی میں آیات احکام کی وضاحت کی اور ان سے مسائل کااستنباط فرمایا ہے ۔ان میں علامہ قرطبی کی تفسیر احکام القرآن،جو تفسیر قرطبی کے نام سے معروف ہے( جس میں فقہی ابحاث سمیت لغوی ابحاث کا بھی قدرے اہتمام کیا گیا ہے ) ،علامہ ابوبکر جصاص رازی کی احکام القرآن( جس میں علامہ موصوف نے مسائل فقہیہ کو بیان فرماکر ان کے دلائل کے متعلق خوب شرح وبسط فرمائی ہے)التفسیر المظہری اور ملا احمد جیون صدیقی ؒ کی التفسیرات الاحمدیہ کے نام لیے جاسکتے ہیں،اسی طرح احکام القرآن کے نام سے حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی ؒ کے حکم سے ان کے اجل تلامذہ نے جو مجموعہ جمع کیا ہے ،وہ بھی احکام کی مشہور آیات کی تفسیر کے حوالے سے عدیم النظیر کام ہے۔
امہات التفاسیر
اس تفصیل سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ہرتفسیر کی اپنی ایک امتیازی خصوصیت ہوتی ہے جس میں کوئی دوسری تفسیر اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔اس اعتبار سے کسی بھی تفسیر کا مطالعہ فائدے سے خالی نہیں۔لیکن نہ اتنا وقت کسی کے پاس ہے اور نہ ہی اتنی فرصت،کہ وہ سیکڑوں تفاسیر کا مطالعہ کرکے ان میں سے تفسیری موتی چن سکے۔اس لیے محققین نے عربی کی چار تفسیروں کو امہات التفاسیریعنی جامع وبنیادی تفاسیر قرار دیا ہے،جن کے مطالعے سے کئی تفایسر کے نکات سامنے آسکتے ہیں،جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱)۔۔۔تفسیر ابن کثیرؒ
یہ تفسیر حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر ابن کثیر شافعی دمشقی ( جو علامہ ابن تیمیہؒ کے اجل تلامذہ میں سے ہیں) کی تحریر کردہ تفسیر ہے ،یہ تفسیر ابن جریر سے مستفاد اور گویا اس کا مصفّیٰ ایڈیشن ہے، یعنی اس تفسیر کا زیادہ تر مواد تفسیر ابن جریر سے لیا گیا ہے ،لیکن اس سلسلے میں علامہ ابن کثیرؒ نے ابن جریر کی اندھی تقلید نہیں کی ،بلکہ اس میں جو اسرائیلی روایات اور ضعیف وموضوع روایاتِ حدیث وتفسیر کی بھرمار تھی ،اپنی کتاب کو اس سے پاک رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے ،اگرچہ اس کے باوجود اب بھی تفسیر ابن کثیر میں ایسا مواد موجود ہے ،لیکن بہت کم اور آٹے میں نمک کے بربر۔تفسیر ابن کثیر قرآن مجید کی نہایت اہم تفاسیر میں سے ایک ہے۔مولف پہلے تفسیر القرآن بالقرآن کرتاہے۔پھر بالحدیث اور پھر اقوال سلف کو لاتا ہے۔اس تفسیر کے شروع میں ایک مبسوط مقدمہ ہے۔لیکن بقول محمد حسین الذہبی :اس کا اکثر حصہ انھوں نے ابن تیمیہ ؒ سے بیان کیا ہے۔ اس میں ضعیف وموضوع روایات اس کثرت سے نہیں،جس کثرت سے تفسیر طبری میں ملتی ہیں۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا،کہ محدثین کی تفاسیر میں روایت و درایت کے اعتبار سے کوئی تفسیر اس تفسیر کے مقابل نہیں ۔
امام العصر مولانا انور شاہ کشمیری نےؒ فرمایا: اگر کوئی کتاب کسی دوسری کتاب سے مستغنی کرنے والی ہے تو وہ تفسیر ابن کثیر ہے جو تفسیر ابن جریر سے مستغنی کرنے والی ہے۔
(۲)۔۔۔تفسیرمفاتیح الغیب
یہ تفسیر’’ التفسیرالکبیر‘‘ کے نام سے معروف ہے، جسے امام محقق فخر الدین ابن خطیب الرازی شافعی نے لکھا۔تفسیر مفاتیح الغیب بڑی ضخیم تفسیر ہے۔اس کتاب میں انھوں نے ربط آیات کا خیال رکھا ہے۔علم کلام کے مسائل پر تبصرہ کیا ہے۔وہ فلاسفہ کے اقوال نقل کرکے ان پر تنقید کرتے ہیں۔اس میں معتزلہ کے عقائد پر بھی بحث وتنقید کی گئی ہے۔وہ مخالفین کے اعتراضات بڑی صراحت سے بیان کرتے ہیں۔امام راازیؒ تفسیر کبیر کو مکمل نہ لکھ سکے۔اس کی تکمیل شہاب الدین دمشقیؒ اور نجم الدین احمد بن محمدؒ نے کی۔تفسیر رازی کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ یونانی علوم نے کس طرح مسلمانوں کے عقائد پر اثر ڈالا۔اور مسلمانوں نے کس انداز سے اس کا جواب دیا۔انھوں نے اپنے دور کے عقلی رجحانات سے بھی خوب پردہ اٹھایا ہے۔
امام العصر مولانا انور شاہ کشمیریؒ فرماتے تھے: میں نے مشکلاتِ قرآن میں سے کوئی مشکل ایسی نہ پائی، مگر اس کا حل امام موصوف نے اس تفسیر میں فرما دیا ہے، امام موصوف حل مشکلات کے دریا میں غوطہ زنی کرتے ہیں۔
(۳)۔۔۔تفسیرروح المعانی
یہ تفسیر تیرھویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت مفتیِ بغداد اور اپنے وقت کے بہت بڑے عالم سید محمود آلوسی حنفیؒ کی تحریر کردہ ہے۔اس تفسیر کی گراں مایہ خصوصیات اور بلند پایہ محاسن دلوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔مواد کی کثرت، واضح تعبیرات اور تحریر کی عمدگی میں اپنی مثال آپ ہے۔علامہ آلوسیؒ روایات کا خلاصہ و نچوڑ بیان کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ بلاغت و درایت کے متعلق بھی ابحاث ذکر فرماتے ہیں،چونکہ علامہ موصوف متاخرین میں سے ہیں ،اس وجہ سے عصر حاضر کے مسائل و مشکلات کے متعلق بھی خوب بحث فرمائی ہے۔آپ ؒ نے بعض مقامات میں علامہ رازی شافعی ؒ کے پیش کردہ مسائل کے جوابات پر بھی کچھ نقد و نظر فرمایا ہے۔یہ تفسیر اہل سنت کے مذہب کی ترجما ن ہے،اس میں معتزلہ کی تردید ہے۔اسرائیل روایات اور موضوع روایات پر سخت تنقید ہے۔
(۴)۔۔۔تفسیر ابوسعودؒ
اس کااصل نام ’’ارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم‘‘ہے ،ااس کے مؤلف ابو السعود محمد بن محمد مصطفی عمادی حنفی ؒ ہیں۔یہ بلند پایہ تفسیر ہے جو نظمِ قرآنی کے اغراض و مقاصد کو بہترین پیرائے اور عجیب طرز تصویر سے نہایت خوش اسلوبی سے آشکارا کرتی ہے۔اس تفسیر میں بلاغت کے وہ وہ نقطے بیان کیے گئے ہیں جو اس سے پہلے کسی نے نہ بیان کیے تھے۔مولفِ کتاب الکشاف اور بیضاوی کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ قراآت کا بھی خیال رکھاہے ،اسرائیلی روایات کم بیان کی ہیں۔
یہ چار کتب تفسیرہوئیں، جن میں دو شافعی المسلک علما کی ،جب کہ دو حنفی علما کی تحریر کردہ ہیں۔
( مزید مشہور تفاسیر کاذکر ان شاء اللہ اگلے بلاگ میں،ان شاء اللہ!)

حصہ
mm
مولانا محمد جہا ن یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ کراچی کے سینئر ریسرچ اسکالرہیں اور مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں