خود نمائی سے خود آگاہی کی طرف سفر 

 اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے اور معجزات کا انکار کرنے والوں کے لیے یہ کس طرح قابل قبول ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے قائم ہونے کے ساتھ ہی اس کے خلاف سازشوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سازشیں جغرافیائی بھی ہیں اور نظریاتی بھی۔ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظتی صورت حال سے تو ہم آگاہ بھی رہتے ہیں اور اپنے وطن کی دفاعی صلاحیتوں پر فخر کے ساتھ ہم اپنے اندر اس کی آزادی پر قربان ہونے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔ اس حقیقت کو فراموش نہیں ہونے دینا چاہیے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ دو قومی نظریہ پاکستان کی بنیاد ہے۔ اس نظریے کی رو سے ’’ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قوم ہیں اور بحیثیت قوم مسلمانوں کو علیحدہ وطن کی ضرورت ہے جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے اسلامی نظریات پر عمل پیرا ہوسکیں۔ اس نظریے کی بنیاد پر ملک تو حاصل ہوگیا لیکن ملک کی نظریاتی سرحدیں کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہمارے وطن میں اسلامی تشخص کو اُجاگر کرنے کے لیے مختلف دینی جماعتیں اپنے اپنے دائرے میں مصروفِ عمل ہیں۔

قیامِ پاکستان کی ابتدائی چند دہائیوں تک ہمیں سوشلزم اور کمیونزم کے طوفان کا سامنا رہا لیکن نظریاتی محافظوں کی جانب سے نہ صرف یہ کہ اس طوفان پر بند باندھا گیا بلکہ اس کا رخ بھی موڑ دیا گیا۔ یہ اتنا آسان نہ تھا اس راہ میں تکالیف بھی برداشت کی گئیں اور جانوں کے نذرانے بھی دیے گئے اور یوں عوام کی اکثریت سوشلزم اور کمیونزم کے اثرات سے محفوظ رہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ارضِ وطن کو لبرل ازم اور الحاد کی آندھیوں کا سامنا ہے۔ جس سے نوجوان ذہن بڑی تعداد میں متاثر ہورہے ہیں اور ان کے خطرناک نتائج، جرائم کی شرح، بدچلنی کا فروغ، گھروں کا ٹوٹنا، معاشرتی انتشار کی صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے جس سطح کی کوششیں، تدابیر اور صف بندی درکار ہے وہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آرہی۔ نتیجتاً ہماری معاشرتی اقدار بنیادوں سے ہل گئی ہیں۔

مذہب بیزاری پیدا کرنے میں جو عوامل کار فرما نظر آتے ہیں اُن میں نصاب و نظام تعلیم، میڈیا، این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں سرفہرست ہیں۔ جب کہ آئین نظام تعلیم کے ذریعہ اسلامی نظریات کا تحفظ کرتا ہے۔ آئین پاکستان میں حکمتِ عملی کے جو اصول وضع کیے گئے ہیں اس کی شق 31 میں درج ہے کہ ’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ اسی باب میں یہ بھی درج ہے کہ ’’مملکت اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دے گی۔ عصمت فروشی، قمار بازی اور ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشر و اشاعت اور نمائش کی روک تھام کرے گی‘‘۔ یہ اقتباس واضح کرتا ہے کہ آئین میں تعلیمی نظام اور میڈیا کی سمت کا تعین ہوچکا ہے جب کہ عملی میدان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ میڈیا، این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بظاہر ان کا دائرہ الگ محسوس ہوتا ہے لیکن یہ ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ این جی اوزمیڈیا کو کنٹرول کررہی ہیں، ڈرامے ہوں یا ٹاک شوز این جی اوز اسپانسر کرتی ہیں اور اپنا ایجنڈا آگے بڑھاتی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں میوزیکل کنسرٹ، بے ہودہ فیشن شوز، نائٹ شوز، ایوارڈز شوز میں فحاشی کا پرچار کررہی ہیں، تعلیمی میدان میں بھی این جی اوز بہت آگے ہیں اور اب تو حکومتی سطح پر نصاب سازی کا حصہ ہیں، جو تشویشناک بات ہے۔

حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ علمائے کرام کی تضحیک، دینی شائر کا مذاق اڑانا عام بات بن چکی ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی تہوار کا موازنہ غیر اسلامی اور لچر تہواروں سے کیا جارہا ہے۔ شراب کی حمایت میں (چند افراد کے سوا) پورا ایوان کھڑا ہے۔ اسلامی قوانین پر تنقید کی جارہی ہے۔ چوں کہ ان سب کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے لہٰذا قوم کو اس اخلاقی زوال سے بچانے اور عوام کے شعور کی سطح بلند کرنے کے لیے دینی و مذہبی جماعتوں کی طرف ہی نگاہ اُٹھتی ہے لیکن یہ نگاہ نامراد ہی واپس پلٹ آتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے ابتدا میں ذکر کیا کہ اس سیلاب بلاخیز کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ذہانت، حکمت عملی اور صف بندی درکار ہے وہ مفقود ہے۔ یہ درست ہے کہ کہیں انفرادی اور کسی درجہ میں اجتماعی طور پر دینی شعور کی بیداری کا کام جاری ہے لیکن درمیان میں خلیج اتنی بڑی ہے کہ جسے پاٹے بغیر مطلوبہ نتائج کا حصول ناممکن ہے۔ اس تناظر میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس بہت وقت ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھے بغیر بس کانفرنسز، میٹنگز، سیمینار، مذاکرے اور مباحثوں میں اُلجھے رہیں اور سنجیدہ، مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر حالات کے مقابلے کو ترجیح اول نہ بنائیں؟۔

حرمتِ رسول، علما کرام کی تعظیم، دینی شعائر کا احترام، سود اور امّ الخبائث کی روک تھام، فحاشی کی مخالفت پر یک زبان ہو کر آواز بلند کرنا، میڈیا کو آئین پاکستان کے دائرے میں لانا، این جی اوز کی سرگرمیوں کو محدود کرنا، نصاب کی اسلامی بنیادوں پر تشکیل اور تعلیمی اداروں میں اسلامی ماحول کی ترویج یہ وہ امور ہیں جن پر ہنگامی بنیادوں پر کام ہونا چاہیے۔ مربوط اور مضبوط کام اس کے لیے فی زمانہ اولین شرط یہ ہے کہ ہم خود نمائی (Self Projection) سے دوبارہ خود آگاہی (Self actualization) کی طرف سفر کریں اور یہ کام ہم جتنا جلد کرلیں اُتنا اچھا ہے ورنہ نہ ہمیں تاریخ معاف کرے گی اور نہ ہی آنے والی نسلیں!!!۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں