بے روزگاری کا شکار قلم مزدور۔۔۔اس مرض کی دوا کرے کوئی

ہم مر جانے والوں کے لئے شدید جذباتی ہوکر قلم گھسیٹنے ہیں دو چار لوگ ہمارے لکھے کو سراہتے ہیں تو ہم بھی چوڑے  ہونے لگتے ہیں،چونکہ ہماری بھی واہ واہ ہو جاتی ہے ہم بھی دانشور کہلائے جانے کےزعم میں مبتلا رہتے ہیں، پھر چند دن شاد گزرتے ہیں کہ کچھ زندہ لوگوں کی سسکتی حقیقتیں سامنے آتی ہیں، ہم چونکتے ہیں ہمدردی کے طوطا مینا اکٹھا کر کے کسی کھوٹے سکے کی طرح ان کی طرف اچھال دیتے ہیں اور بس….! ہمارا کام ختم،حالانکہ انہیں اس وقت ہماری منہ زبانی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ انہیں اناج کی ضرورت ہوتی ہے جو اس پیٹ کا منہ بند کر سکے،شدید علالت میں علاج کی ضرورت ہوتی ہے صرف دوا دینے سے مرض کہاں بہلتا ہے صاحب؟
جمیل صاحب فیس بک کے نامور لکھاری ہیں ایک کتاب کے مصنف ہیں۔ ڈان نیوز کی ویب سائٹ پر بھی کام کرتے رہے ہیں ،ایکسیڈنٹ میں زخمی ہوکر کافی عرصہ چلنے پھرنے سے معذور رہے جاب ختم ہو گئی، گھر پر بھائی نے قبضہ کر کے انہیں سڑک پر لا کھڑا کیا ـ سر پر دو جوان بیٹیوں کی ذمہ داری جو ابھی زیر تعلیم بھی ہیں ـ
کرائے کا گھر بھی ہے صاحب! مہینہ ختم ہونے پر مالک مکان دروازے پر صرف دو دن ہی صبر کر سکتا ہے۔کچن چلانے کے لیے ناکافی پیسہ اورخود سر بےروزگاری… یہ وہ معاملات ہیں جو ایک مصنف کو اس سطح تک لے آیا کہ وہ تنگ آ کر لکھتا ہے کہ “اگر میں مر گیا تو اس کے اخراجات بھی بیٹیوں اور اہلیہ کے سر پر ہوں گے”
سوال ہے اس بے حس سماج سے… کہ جس شخص کو ابھی جینا چاہیے اپنے لیے، اپنی بیٹیوں کے لئے وہ سکون سے مر بھی نہیں سکتا؟آخر کیوں؟ اور کب تک؟
کیا یہ ہمارا قومی مشغلہ نہیں بن گیا کہ ہم مر جانے کے بعد محبتیں لے کر نکلتے ہیں، موم بتیاں جلاتے ہیں؟
ہم تو گدھ سے بھی بدتر ہو گئے ہیں وہ بھی اپنے شکار کو مر جانے کے بعد ہی نوچتا ہے۔ہم زندہ انسانوں کے لئے ڈھیروں شمعیں روشن کرنے کی سبیل کیوں نہیں کرتے؟ ہم اسے وہ روشنی کیوں نہیں دیتے جو اس کی زندگی کے اندھیروں کو کم کرسکے؟
ہم کیوں خواہشوں سے خوفزدہ ایک شخص کا خوف دور نہیں کر پا رہے؟
جمیل خان زندہ رہنا چاہتے ہیں اپنے لیے بھی اور اپنی بیوی اور بیٹیوں کے لئے بھی، کیا ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟
قلم مزدور کے لئے کتنی بدبختی ہے کہ جب تک ان کا قلم چلتا ہے تو ان کا دال دلیا بھی چلتا ہے مگر جب یہ کسی حادثے کا شکار ہو کر معذور ہو جائیں تو نہ تو اتنی رائلٹی کتابوں پر ملتی ہے کہ زندگی بسر ہو سکےنہ ہی کوئی سکیورٹی بینیفٹ….
شومئی قسمت اگر ذاتی گھر بھی نہ ہو تو پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ عزت سے بروقت کرایہ دینے کی پریشانی بھی ہلکان کیے جاتی ہیں۔
نوکری سے فارغ کرتے وقت ان اشاعتی اداروں کو یہ خیال نہیں آتا کہ حادثوں کے بعد بھی زندہ رہ جانے والوں کے لئے روٹی ایک سوالیہ نشان کے طور پر سامنے کھڑی ہوجاتی ہے اور اس کی مانگ ہر صورت میں پوری کرنی پڑتی ہے۔
حادثوں میں معذور ہوجانے کے بعد بھی یہ پیٹ روٹی مانگتا ہے ۔صاحب! گھر اگر کرائے کا ہو تو چاہے ایک ادیب کتنا ہی عزت دار کیوں نہ ہو ایک مالک مکان کے سامنے عزت دار تب ہی کہلائے گا جب وقت پر کرایہ دے گا ۔
وہ اپنی بیٹیوں کے لئے اچھا بابا  تب ہی کہلائے گا جب وقت پر ان کی فیس دے گا وہ بیوی کے سامنے سرخرو تب ہی ہو گا جب وہ ان کی کہی ان کہی خواہشات کو پورا کر پائے گا ـ اتنی آنکھوں کے سامنے اس قلم مزدور کو اتنا بےعزت کیسے کر سکتے ہیں؟ اور کب تک کریں گے؟
بڑا بے ادب معاشرہ ہے یہ ـ  ادب والوں کی قدر نہیں کرتا انہیں روند کر ان کی لاشوں کے ساتھ سیلفیاں بنانے پر خوش ہوتا ہے ـ ان کے مرنے کے بعد اسٹیٹس لگا کر کمنٹ اور لائک وصول کرتا ہے ـ مگر زندگی کی خواہش میں پکارنے والوں کا ساتھ نہیں دیتا ـ ان کی مدد نہیں کرتا ـ
وہ اپنی خودداری غیرت کو ایک طرف رکھ کر اپنے خاندان کی بقا میں اپیلیں کرتے ہیں ،ڈھکے چھپے الفاظ میں پوسٹ لگاتے ہیں ـ کبھی کھل کر اپنا مدعا بیان کرتے ہیں مگر ہم ایسے مواقع پر دعائیں دے کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں  کیسے کر لیتے ہو یار تم یہ سب؟
ایسے مواقع پر کیسے کہہ لیتے ہو کہ اللہ آپ کو ہمت دے استقامت دے؟ یہ ہمت استقامت کس مرتبان میں پڑی ملتی ہے تاکہ ہم بھی اسے نکال کر اوڑھ لیں،حالانکہ ان ہمدردیوں سے پیٹ نہیں بھرتا جب تک ہم میں سے ہی کوئی ان کا آگے بڑھ کر ہاتھ نہ تھام لے۔
آج اس اضطراری تسلسل کو منقطع کرنے کا وقت ہے ورنہ یہ بے یقینی اور بے اعتباری بڑھ کر ناامیدی میں بھی بدل سکتی ہے اور اپنے بچاؤ کے لیے ہاتھ پیر مارتے شخص کی یہ کوشش آخری بھی ہو سکتی ہے…. سو اسے مرنے سے بہت پہلے زندگی جینے کے اسباب مہیا کر دیں….

حصہ
سائرہ فاروق ایم ایس سی کی طالب علم ہیں اور مختلف سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں