ہندوستاں والو

27 فروری 2002 کو احمد آباد جنکشن سے وارنسائی جنکشن تک جانے والی سامبر پتی ایکسپریس اُن ہندوؤں پر مشتمل قافلے کو لے کر واپس احمد آباد کی طرف رواں دواں تھی،  جو ایک مذہبی تقریب سے واپس آرہے تھے۔ راستے میں گودھرا سٹیشن پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ لگ بھگ ایک ہزار لوگوں پر مشتمل ہجوم نمودار ہوا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین کو آگ لگا دی اس اچانک آگ لگنے کی وجہ سے 26 عورتیں 12بچے اور 20 مرد موقع پر ہی جل کر خاکستر ہوگئے۔ جبکہ 48 لوگ بری طرح جھلس گئے۔ یہ واقعہ ہندوستانی وقت کے مطابق صبح 7:43 پر پیش آیا۔

 نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ ان ہزار لوگوں نے پولیس اور گجرات انتظامیہ کی ناک کے نیچے اپنا کام کیا اور اگلے دن کا کام پکا کرکے روانہ ہو گئے۔ لیکن کسی ایک پولیس والے نے ان کے بارے میں معلوم کرنا تک گوارا نہیں کیا کیونکہ ان کا آنا اور جانا پولیس اور انتظامیہ کو “اچھی طرح” سے معلوم تھا۔

 اور پھر اس سب کی آڑ میں وہی ہوا جو منصوبے میں طے تھا۔ 28 فروری 2002 کی صبح 9 سے 10 بجے کے درمیان انھی کئی ہزار لوگوں پر مشتمل ہاتھوں میں تلواریں، گاڑیوں میں آگ لگانے والا کیمیکل اور آگ بھڑکانے والے پاؤڈر سمیت رائفلیں لیے انسانیت اور ضمیر سے عاری ہجوم مسلمانوں کے گھروں کی طرف بڑھا اور اس دن حیوانیت کو لرزا اور شرما دینے والے وہ وہ مناظر فلک نے دیکھے کہ ذراسی بھی انسانیت رکھنے والے کا دل پھٹ جائے اور جگر چھلنی ہو جائے۔

شکیلہ بانو صبح  اپنے باورچی خانے میں کھانے کا انتظام کر رہی تھی۔ ہنڈیا چولہے پر چڑھی ہوئی تھی کہ اس کی ساس کی آواز آئی شکیلہ بھاگو! ساس بچوں کو لے کر ایک طرف بھاگی۔ شکیلہ اپنے دو بھائیوں اور تین مہینے کے بچے کے ساتھ دوسری طرف بھاگی لیکن ان ہزاروں  حیوانوں پر مشتمل  قافلے سے بھاگ کر بھلا جا بھی کہاں سکتے تھے۔ ان بلوائیوں نے تین مہینے کے معصوم بچے کو ماں کے سامنے بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا۔ ایک بھائی کا سر کاٹ کر شکیلہ کے پاوؤں میں ڈال دیا جبکہ دو سرے کے سر پر پہلے تلوار ماری اور پھر اسے بھی آگ میں پھینک دیا۔ تھوڑی دیر میں وہیں تڑپ تڑپ کر اس نوجوان کا بھی دم نکل گیا۔ شکیلہ کی بارہ سالہ بھتیجی بھی موجود تھی اس کو زندہ آگ میں دھکیل دیا گیا، اسی جھلسی ہوئی حالت میں اس معصوم نے جب پانی مانگتی تو ظالم ہر دفعہ مزید پیٹرول اس کے منہ میں ڈال دیتے۔

 بلقیس بانو کا حال بھی کچھ کم نہیں تھا۔اس کی ساڑھے تین سال کی کمزور، نازک و نحیف  بچی کو ظالموں نے اس کی گود سے لے کر زمین پر پٹخ دیا۔ وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مر گئی، جبکہ دو سال کی دوسری بچی کو بھڑکتے ہوئے شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔ دونوں بچیوں  کو  بلقیس نے اپنی آنکھوں سے تڑپتے، جلتے، سسکتے اور مرتے دیکھا۔ اس دن بلقیس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاندان کے 17 لوگوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جبکہ بارہ آدمیوں نے مل کر بلقیس کی عزت کو  تار تارکر دیا۔ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک یہ انسانیت سوز تماشہ چلتا رہا۔جو لوگ بعد میں کسی وجہ سے گرفتار ہو بھی گئے تو مودی جی نے بذات خود جاکر انھیں چھڑوایا۔

صرف 28فروری کو دو ہزار سے زیادہ مسلمان قتل ہوئے، 223 لا پتہ ہو گئے جبکہ سینکڑوں عورتوں کی عزتیں اور عصمتیں پامال ہو گئیں۔ عزتوں کو پامال کرنے میں وہ ہندو بھی برابر کے شریک تھے جن کو مسلمان خواتین خود اپنے ہاتھ سے راکھی بندھا کرتی تھیں۔ پچیس سو سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔احمد آباد میں مسلمانوں کی املاک جل کر خاکستر ہوگئیں۔ان “عنایات” کا نتیجہ یہ نکلا کہ گجرات کی عوام نے 14 سال تک نریندر مودی کو وزیر اعلی بنا کر سر پر بٹھائے رکھا اور پھر بالآخر اپنا وزیر اعظم تک بنالیا۔

 انتہائی کم عمری یعنی صرف چودہ سال کی عمر میں شیو سینا  کی  دہشت گرد تنظیم میں شامل ہونے،سینکڑوں دنگے فساد اور مسلمانوں کے قتل اور عزت تار تار کرنے کے اعزاز میں 2002 میں ہی ایل-کے ایڈوانی کی جگہ نریندر مودی وزیراعلی بنے اور انہوں نے واقعی وہ کام کر دکھایا جس کے لیے وزارت اعلیٰ کا تاج ان کے سر پر سجایا گیا تھا۔ بی جے پی اور نریندر مودی کی حکومت میں آنے کے بعد ہر دن نہ صرف مسلمانوں بلکہ دوسری اقلیتوں تک کے لئے عذاب کی نوید بن کر آرہا ہے۔

 مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا “پاکستان بننے کے بعد پاکستان چلے جانے والے مسلمان اب ابد تک ہندوستان میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمانوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے” جتنی انتہاپسندی اور دہشت گردی ہندوستان میں ہندوؤں نے مچا رکھی ہے، ساری دنیا کے لوگ مل کر بھی اتنی دہشت گردی نہیں کرسکتے ہیں۔ 14.2 فیصد ہونے کے باوجود ہر لمحہ خوف، ہر لمحہ بے یقینی اور ہر لمحہ عدم تحفظ کا احساس مسلمانوں کو بے چین کیے رکھتا ہے۔ ذاکر نائیک جیسے علم دوست اور امن پسند انسان تک پر دہشت گردی کا الزام لگا کر، صرف اس لئے ان کا داخلہ ہندوستان میں بند کردیا گیا کیونکہ وہ اسلام کی بات کرتے ہیں۔ اس وقت پوری ہندوستانی فلم انڈسٹری پر تین “خانوں” کا راج ہے لیکن پھر بھی ان بیچاروں کو ہر وقت “پاکستان جاؤ” اور “پاکستانی”  کی گالی سننے کو ملتی رہتی ہے۔سلمان خان کی والدہ نے بتایا کہ سلمان خان عید، بقرعید پر سوتا رہتا ہے لیکن ہندوؤں کی تمام مذہبی تقریبات میں بروقت شریک ہوتا ہے کہ کہیں “پاکستانی” کا طعنہ نہ مل جائے۔ساری دنیا میں مسلمانوں کا” گروتھ ریٹ” بڑھ رہا ہے لیکن ہندوستان میں گھٹ کر صرف پانچ فیصد رہ گیا ہے۔جس طرح برما میں مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے ٹھیک اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں اور ان کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔ بی- جے – پی کی حکومت ہو تو آفیشل  ورنہ ان آفیشلی مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

بی بی سی انڈیا کی اپنی فلمائی گئی ایک ڈاکومنٹری میں ہندوستان کی ایک بڑی یونیورسٹی کے ماڈرن مسلمان طلبہ و طالبات افسردگی سے بتا رہے ہیں کہ ہمیں بار بار “پاکستانی” اور “پاکستان جاؤ” کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ یہ خود ہندوستان میں موجود مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ وہاں اقلیت ہونے اور عدم تحفظ کا شکار ہونے کے باوجود،فرقہ واریت کی لعنت میں مبتلا ہیں۔پچھلے دنوں ایک گاؤں میں بریلوی عالم دین نے ان تمام لوگوں کے نکاحوں کو فاسق  قرار دے دیا جو  ایک ایسے نکاح میں شریک تھے جسے ایک دیوبندی عالم نے پڑھایا تھا۔ اقبال نے کہا تھا:

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

 بزدلی اورخوف کا یہ عالم ہے کہ مہیش بھٹ مسلمانوں کو یہ بتا رہا ہے کہ “مسلمان اور بزدلی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے”۔ اپنی جان کے خوف سے مدارس تک نے   الیکشن میں مودی کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا اور ابھی سے یہ حال نہیں ہے بلکہ دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریب میں دارالعلوم کے ممبر پر اندرا گاندھی نے بیٹھ کر “خطبہ” دیا جسے علماء کی اکثریت نے بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ سنا۔

 ہندوستانی حکومت نے میڈیا اور سوشل میڈیا سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔اس عیدالضحی  پر بھی  پولیس نے مساجد میں باقاعدہ یہ اعلان کروایا کہ ” مسلمان امن و امان  کی فضا کو قائم رکھنے کے لئے گائے ذبح نہ کریں”۔ ایک پانچ سالہ بچہ جو دہلی کےمدرسہ فریدیہ میں حفظ قرآن کا طالبعلم تھا اس کو قتل کر کے پھینک دیا  گیا پہلے اسے زمین پر پٹخا، پھر موٹر سائیکل پر دے مارا، ایک چلتے رکشے کے سامنے پھینک دیا اور اس پر بھی بس نہیں چلا تو اس معصوم کو اپنے پیروں تلے  کچل دیا، اُن قاتلوں کی ماں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو اور ایسی کاروائیاں میں خود کرونگی یہ کوئی 2002 کا نہیں 2018 کا واقعہ ہے۔ اقبال نے پہلےہی کہہ دیا تھا:

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

 ہند و بلوائیوں کے ڈر سے مسلمانوں نے اپنی ڈاڑھیاں صاف کروانا شروع کیں تو حیدرآباد دکن کے بڑے عالم دین حسام الدین عاقل صاحب نے کہا “ہندوؤں کے ڈر سے ڈاڑھی مت منڈھواؤ ورنہ وہ تمھاری شلواریں اتار کر پھر تمھیں  ماریں گے”۔ پورے عالم اسلام کو بھی اس معاملے کو اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر اٹھانے کی ضرورت ہے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی اتحاد اور اتفاق کرکے خود کو تنکوں کی طرح  بے وقعت کرنے کے بجائے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ:

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو!

تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں