ایک کہانی کی کہانی

مملکت خداداد میں گزشتہ دنوں اہم فیصلے کی سنوائی تھی۔ اہل وطن کی منتظر نگاہیں اسی جانب اٹھی تھیں۔ دو ہی ممکن صورتیں تھیں ؛ فیصلہ حق یا مخالفت میں۔ ہر ایک کے الگ مضمرات ہیں۔ کچھ لوگ فیصلے کو انتقامی سیاست کے غلاف میں لپیٹتے رہے، تو کچھ کے دلوں میں ٹھنڈ پڑ گئی، کہ ان کے نزدیک ملکی مسائل کا حل سزا میں ہی تھا۔ قید کی سزا سنائی گئی۔ سیانے کہتے ہیں سیاستدانوں کو جیل ہمیشہ راس آتی ہے۔ قد کاٹھ بڑھ جاتا ہے۔ ہمدردیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ایک آوازہ یہ بھی گونجتا رہا کہ تاریخ کا سفر ہے جو دہرایا جا رہا ہے۔ سب کو ایک نئی کہانی کا انتظار تھا۔ خیر! چلتی کہانی ہے دیکھیے کہاں رکتی ہے۔

میں تو ایک اور کہانی کی بات کر رہا تھا۔ جس وقت سب کی نظریں ٹی وی کی متحرک پٹی پر تھیں؛ میں دھواں گاڑی (مشرقی ہند کی پہلی ریل گاڑی 3 فروری 1855 ء کو چلی تھی۔ اس وقت اسے دھواں گاڑی کہتے تھے ) میں رواں دواں تھا لیکن سست روی سے، ڈر تھا کہ کہانی ختم نہ ہو جائے۔ کوئٹہ سے چلا کلکتہ پہنچا۔ ریل کی بھپا بھک، چھکا چھک، شاں شاں شوں شوں کے شور غوغا میں ”چائے لے لو، چائے، چائے والا“ کی آوازیں کان سے ٹکراتی رہیں اور ریل کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ میں ریل کہانی چلتی رہی۔ راستہ میں بھانت بھانت کے لوگوں سے ملا۔ ریلوے کے معمولی ملازموں سے اعلی افسروں تک، مسافروں، قلیوں سمیت ریل کے ڈرائیور، گارڈ اور اس وقت ریل کے باورچی، بیروں سے بھی ملا۔

مجھے اس روز خبر ہوئی کہ مال گاڑی کے چالیسویں ڈبے میں بیٹھے گارڈ پر کیا گزرتی تھی جب وہ یخ ٹھنڈی اور اندھیری رات میں تن تنہا بیٹھا رہتا تھا۔ اور اس ڈرائیور کی کیا حالت ہوتی تھی جب کوئلے کے ذرات اڑ اڑ اس کی آنکھوں کا رخ کرتے۔ ان مزدوروں کی حالت کا اندازہ ہوا جو تپتی دھوپ، بڑھکتی دوپہر میں ریل کی پٹڑیوں کی دیکھ بھال کر رہے ہوتے یا لوہے کے بڑے گزوں کے نیچے پتھر توڑ رہے ہوتے۔ داستان گو نے بتایا ”آج جو درۂ خیبر سے راس کماری تک ریلوے کی گھن گرج ہے اس میں ہانپتے ہوئے غریب محنت کشوں کی تھکی تھکی سانسوں کا شور بھی شامل ہے، ہمیں سنائی نہ دے تو قصور ہمارے کانوں کا نہیں ؛ شعور کا ہے۔ “

ریل کہانی محترم رضا علی عابدی کی تصنیف ہے۔ رضا علی عابدی براڈ کاسٹر، صحافی اور ادیب ہیں۔ اہل علم و فن کی دنیا میں بڑا نام و مقام۔ پہلی مرتبہ جن کے نام سے میں اس وقت متعارف ہوا جب دوران لیکچر میرے محترم استاد نے مطالعہ کی اہمیت بتاتے ہوئے ان کا ذکر کیا اور بتایا کیسے انہوں نے کراچی سے پشاور تک دریائے سندھ کنارے سفر کیا اور کتب کی کتب پی گئے۔ مختصر ترین سامان کے ساتھ زاد راہ میں کتابیں تھیں جب وہ ختم ہو جاتیں تو اور منگوا لیتے۔

دریا میں پانی بہتا رہا جب کہ علم کا دریا، سندھ کنارے مشعل تھامے آگے چلے جا رہا تھا۔ فرمایا کرتے ہیں کہ مجھے نئی نسل اپنے باپ دادا کے حوالے سے جانتی ہے اور کہتی ہے کہ ہمارے آباء ریڈیو پر آپ کا پروگرام سنا کرتے تھے۔ بدبختی کا گمان ہوتا ہے کہ میرے باپ دادا نے مجھے ان کے بارے میں کیوں نہیں بتایا، نہ سنا ہو گا۔

دوسرے لمحے خوشی کی انتہا ہوتی ہے کہ میں ان سے بات کر سکتا ہوں۔ ان کی کتابوں کے طفیل ہی سہی ان سے مل سکتا ہوں۔ خوش بختی ہی تو ہے کہ ہم ان کو دیکھ، سن، اور سب سے بڑھ کر پڑھ رہے ہیں۔ خدا ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم دائم رکھے۔ ان کا یہ سفرنامہ جسے کہنے کو ہم ریل کی کہانی تو کہہ سکتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں انسان کی داستان ہے، جذبات کے قصے اور احساسات کی حکایتیں ہیں۔ 1996 کے اوائل میں کیا گیا سفر، بی بی سی پر نشر ہونے والا دستاویزی پروگرام؛ غالباً سفر کی تیسری داستان جو کتابی شکل میں شائع ہوئی۔ یہ دستاویز ریلوے کے ہنستے بستے خوشگوار دنوں کی یاد ہے۔ بقول شخصے برصغیر کی ہتھیلی پر زندگی کی لکیر کی طرح دوڑنے والی ریلوے لائن کی کہانی کلکتہ سے کوئٹہ تک انگریز کے فہم کا بچھایا ہوا جال جو آج اپنوں کی بے حسی اور ناقدری کی یاد دلاتا ہے۔

کوئٹہ تک ریل کیسے چلی گئی؟ بلوچستان کے پہاڑوں، سندھ کے ریگ زاروں میں بل کھاتی ریلوے لائن جو 1886 میں ڈالی گئی۔ صاحب کتاب اپنے دوست کے حوالے سے لکھتے ہیں جو کہا کرتا تھا۔ ”ہادی رسوا نہ ہوتے تو ایک شریف گھرانے کی لڑکی کوٹھے تک اور ہندوستان کے میدانوں کی ریل گاڑی کوئٹے تک نہ جاتی۔ “ مرزا ہادی رسوا کو تو سب ہی جانتے ہیں جنہوں نے ”امراؤ جان ادا“ جیسی یادگار کتاب لکھی۔ لیکن کون جانتا ہے کہ جب یہ ریلوے لائن بچھائی جا رہی تھی تو مرزا صاحب کوئٹہ میں ملازمت کرتے تھے۔ اور اس ریلوے لائن کے سروے میں شریک تھے۔ ایک عجیب معاملہ ہے، بتاتے ہیں کہ ریلوے کا پورا محکمہ غریب ہے۔ بددیانت افسروں، ٹھیکیداروں کو چھوڑ کر جو شخص بھی اس محکمہ سے وابستہ ہوا وہ دولت مندی کے خواب ہی دیکھتا رہا۔ ریلوے کے تنخواہ یافتہ ملازموں میں ایک بات مشترک ہے کہ سب قناعت پسند ہیں۔

ریل کا سفر میں نے کئی بار کیا لیکن ذہن کی تختی پر کچھ سوال ابھرے تھے جن کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ ”ریل کہانی“ سے ابھرے سوالوں کے کچھ جواب ملے۔ انگریز کے ہاتھ سے جب ریل ہندوستانیوں کے ہاتھ آئی تو کیسی تھی، کیسی ہے؟ ریلوے اسٹیشن پر لٹکتی بالٹی کا پیندا گول کیوں ہے؟ آج خبر ہوئی۔ ریلوے کے معمولی ملازمین کے مسائل کا ادراک ہوا۔ پتا چلا کہ کیسے گٹھ جوڑ سے افسران توندیں بڑھاتے ہیں۔ ملازمین کی فائلوں پر چڑھ بیٹھتے ہیں اور وہ بیچارہ بس کراہ ہی سکتا ہے۔

آگے چلتے ہیں۔ دنیا کی پہلی ریل گاڑی سنہ 1825 ء میں برطانیہ میں چلی۔ ہندوستان میں پہلی گاڑی سنہ 1853 ء میں چلی۔ جب پہلی ریل گاڑی انگریزی دھنوں میں چار سو مسافروں کو لے کر چلی تو ہر رنگ، نسل کے لوگوں نے تالیاں بجائیں اور اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ اس میں 14 ڈبے لگائے گئے اور سندھ، سلطان اور صاحب نام کے تین انجن اسے کھینچ رہے تھے۔

آپ نے کبھی ریل گاڑی کا سفر کیا؟ نہیں ؛ تو محروم رہے۔ ریل کے پیچھے ایک دنیا آباد ہے۔ اس میں لاکھوں لوگ کام کرتے رہے۔ کہتے ہیں ریل گاڑی کی الگ ایک دنیا ہے۔ ریل کے ڈبے میں قدم رکھتے ہی نہ صرف احساس بدلتا ہے بلکہ احساس کا مالک بھی بدل جاتا ہے۔ ریل کے ڈبے میں گھبرا کا داخل ہونے والے اشخاص کی علیک سلیک بعض اوقات گہرے مراسم میں بدل جاتی ہے۔ سو انسان کو پہنچاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے ریل کا سفر کیجیے۔ بقول رضا علی عابدی ”یہ کتاب خراج عقیدت ہے۔ لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو جنہوں نے برصغیر کے طول و عرض میں لائینیں بچھائیں۔ کڑاکے کی دھوپ، برستی بارش، ناقص خوراک، ہولناک بیماریوں کی تباہ کاری کو جھیلتے ہوئی سروں پر مٹی ڈھو کر اپنی سرزمین کا سر بلند کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ”ہم بڑے احسان فراموش ہیں۔ کیسے آرام دہ ریل گاڑی میں بیٹھ کر ہنستے کھیلتے چلے جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے بھی ان کا خیال نہیں آتا جن کی ہتھیلیوں کی لکیریں کوئی دست شناس پڑھ لیتا تو کہتا تم صدیوں تک کروڑوں لوگوں کو چین عطا کرو گے مگر خود مفلسی کی بے چین زندگی کا شکار رہو گے۔ “ ریل کہانی کی چھوٹی سی کتاب میں ریل کا عہد قید کر دیا گیا ہے۔ ایک ایسا شاہکار جس میں پرت در پرت کہانیاں ہیں۔ اچھی کتاب آدمی کے ذہنی سفر کو ایک قدم آگے لے جاتی ہے۔ اور باشعور زندگی میں کوئی مقام ایسا نہیں آتا کہ انسان یہ محسوس کرنے لگے کہ اب مجھے کچھ نیا پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ”مجھے سب معلوم ہے“ کا بورڈ اگر لٹکا دیا تو سمجھ لیجیے کہ علم و دانش کے دروازے بند ہو گئے۔ چلیے اب ریل کا سفر کیجیے، کہانی پڑھیے، لیکن پہلے خرید تو لیجیے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں