آج اور کل کی بیٹی

آج سے چودہ سو سال قبل تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ اسلام کے پودے کی آبیاری کے لئے اسلام کی بیٹی نے بھی اہم کردار اد اکیاہے۔ ہر محاذ پر مردوں کو حوصلہ دینے والی اور ان کو دین کی ترغیب دینے والی ذات عورت کی ہی ہے۔

اسلام کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی معرکہ حق و باطل برپا ہوا تومردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے والی ہستی بھی عورت ہی تھی۔جب بھی اسلام کے لئے قربانی دینے کی ضرورت آئی تو ان جرّی مجاہدات (صحابیات ) نے سب کچھ نچھاور کردیا۔ اسلام کی تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے مکہ جب بھی جوان بیٹوں اور بھائیوں کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کا وقت آیا تو اس میں بھی صحابیات نے بے دریغ سبھی کچھ قربان کیا۔ اور اگر جان دینی کی باری آئی تو اپنا جسم چھلنی کروا لیالیکن اسلام اور نبی ﷺکی آن پہ آنچ آنا گوارہ نہ کی۔

اسلام نے عورت کو جو قدرومنزلت قائم کی ہے وہ بلحاظ دیگر اقوام و مذاہب بالکل منفرد ہے۔ اسلام نے جن پردہ نشین کو اپنے کنار عاطفت میں جگہ دی انہوں نے دنیا میں عظیم الشان کارنامے سر انجام دئیے کہ جب بھی میدان سجائے گئے اور جب بھی حق و باطل کے درمیان معرکہ و آرائی ہوئی تو سب سے اہم کردار ادا کرنے والی ہستی بھی اسی عورت کی تھی۔ کبھی وہ ماں کے روپ میں اپنے لخت جگرکو دربار نبوی میں لے کر حاضر ہوتی ہے … کبھی وہ بہن کے روپ میں اپنی پیارے بھیا کو اپنے ہاتھوں سے شمشیر تھما کر محاذ پہ بھیجتی نظر آتی ہے …اور وہ بیٹی کے روپ میں باپ کے دل میں جذبہ جہاد ابھارتی نظر آتی ہے … اور کبھی اپنے خاوند کو میدان کارزار کا اہی بناتی نظر آتی ہے… تو پھر چاروں عظیم رشتوں کو جب اللہ کی رضا کے لئے قربان کرتی دیتی تھی… تو عرش والے رحمان نے ان بچھڑنے والے کو ایسی زندگی عطا کرتے ہیں جو ہمیشہ والی ہوگی اور کبھی ختم نہیں ہوگی۔ وہ ابدی زندگی پا کر اللہ کی جنتوں کے مہمان بن گئے۔

ان عظیم دختران اسلام کی بے لوث قربانیوں کا اتنا تذکرہ ملتا ہے کہ جنہوں نے اللہ کے دین کی خاطر، اسلام کا علم بلند کرنے کی خاطر، اور اسلام کا بول بالا کرنے کی خاطر،قال اللہ وقال الرسول کی خاطر، اسلام کی آن، کفارکے معبودوں کو پاش پاش کرنے کی خاطر،جآء الحق وزھق الباطل کی آواز بلند کرنے کی خاطر، غفلت میں سوئے ہوئے مسلمانوں کو کتب علیکم القتال کا سبق یادکروانے کی خاطر، اپنے بھائیوں، اپنے جگر گوشوں، اور اپنے سرتاجوںکے ساتھ میدان جنگ میں کود یں۔ عالم کفر سے جنگیں لڑیں۔ عدواللہ کو جہنم واصل کیا۔ خود شہید ہوئیں…یا پھر غازی بن کر لوٹیں۔

ذرا اسلامی تاریخ کے سنہرے اوراق کو دہرائیے …!حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ احد کی جنگ کے موقعہ پر جب مجاہدین کے قدم اکھڑ گئے تو میں نے جضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت ام سلیمؓ کو دیکھا کہ وہ دونوں اپنی پیٹھ پر مشکیزے لاد لاد مرلاتی تھیں اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں ۔

ام عطیہؓ نے سات جنگوں میں شرکت کرتی ہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ سات جنگوں میں شرکت کی ۔ میں کیمپ کی حفاظت کرتی تھی، مجاہدین کے لئے کھانا پکاتی تھی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی، اور بیماروں کی تیمارداری کرتی تھی۔  ام عمارہؓ پیارے نبی ﷺ کا دفاع کرتی ہیں۔ اور کافروں کی یلغار پر اور رسول اللہﷺ پر حملہ آور ہونے کی صورت میں ام عمارہؓ سینہ سپر ہو گئیں۔حضرت صفیہ ؓ جو نبی مکرم کی پھوپھی تھیں انہوں نے ایک یہودی کو جہنم واصل کیا۔ حضرت خنساءؓ  اپنی چاروں بیٹوں کو بلا کر نہایت خوش دلی سے تقوی کا دامن تھامے ان کو جہاد کے لئے روانہ کرتی ہیں۔

لیکن آج اگر ہم اپنے آپ پر نظر دورائیں تو ہم مسلمان ہونے کا دعوی کرتی ہیں اوراپنے آپ کو اسلام کی بیٹی کہلانے پر فخر کرتی ہیں۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہیں… اس نبی کی امتی ہیں جس نبی کی امت کو تمام امتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ لیکن افسوس…! ہمیں حال کو چھوڑ کو زرا ماضی کے اوراق کو پلٹ کر دیکھنا ہے کہ کیا ماضی میں اسلام کی بیٹی کا کردار ہمارے کردار جیسا تھا۔ کیا لباس ہمارے لباس جیسا تھا؟ کیا اس کی خواہشات اور روز مرہ میں کیے جانے والے اکثر کام ان جیسے تھے ۔ نہیں… نہیں…بالکل بھی نہیں۔ ماضی کی بہن ‘ ماں اور بیوی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔چودہ سو سال قبل اسلام کی بیٹی کی ہر خواہش دین کے تابع تھی لیکن آج ہم نے دین کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔آج ہمارا دل نہیں بالکل بھی نہیں چاہتا کہ ہمارا بھائی جری مجاہد ہو اور کفار کے لئے کوہ گراں ہو ۔ اس کے نعرئہ تکبیر سے کفر دہل جائے۔ بلکہ ہماری دلی تمنا یہ ہوتی ہے کہ ’’ وہ بڑا ہو کر یہودو نصاری کی طرح فیشن ایبل زندگی گزارے اور گھر میں کبھی بھی دین کی تبلیغ نہ کرے۔ آج ہر ماں کی یہی چاہت ہے کہ اس کا بیٹا بڑا ہو کر امریکہ جائے اور وہاں سے اتنا کمائے کہ ہمیں دنیا کی کوئی مشکل پیش نہ آئے اور خوشگوار زندگی گزاریں۔

اگر ہم پیچھے پلٹ کر دیکھیں یہ اٹل حقیقت ہی ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی،محمد بن قاسم اور طارق بن زید ان سبھی بہادر لوگوں نے تیری آغوش میں ہی آنکھ کھولی۔ وہ تو ہی تو تھی جس نے خود ان کو میدان جہاد کے لئے روانہ کیا۔ کیا تو بھول گئی ہے یہ پھیلی ہوئی زمین‘ یہ برجوں والا آسمان یہ روشن ستارے‘ یہ سر بکف پہاڑ‘ یہ بہتے دریا‘وہ بدر کا میدان‘وہ احد کی پہاڑیاں‘ حنین کی سختیاں‘ غزوہ خندق کی سختیاں‘ قادسیہ کی تلواروں کی جھنکار‘ سب اس بات کی گواہ ہیں انہوں نے بارہا مرتبہ دیکھا ہے کہ تو اپنے باپ ‘ بیٹے‘ بھائی اور خاوند کو جہاد کی ترغیب دلاتی تھی ۔ تیری یہ جہاد سے محبت‘ تیرا یہ والہانہ انداز یہی تو سب کچھ تو تھا کہ اسلام کے ان سپوتوں کے نعرئہ تکبیر سے سمندر رستہ چھوڑ دیتے‘ صحرا سمٹ جاتے تھے۔ ان تلواروں میں بجلی سی کڑک اور بادلوں سی گر ج تھی۔ یہ جری مجاہد دشمن کی ثروت وطاقت‘ جاہ وجلال اور اس کی سپاہ و لشکر کو پائوں کی ٹھوکر سے روندنے والے تھے۔  لیکن یہ کب کی بات ہے جب ہمار اوڑھنا بچھونا دین تھا۔ لیکن آج دین کو پس پشت کیاڈالا اور سب کچھ ہی پس پشت چلا گیا…!

آج تو ٹی وی ڈراموں اور عریاں تصاویر سے مزین رسائل سے اپنا دل بہلاتی ہے۔ کبھی ہمارے گھر سے ترانوں کی آواز گونجا کرتی تھی لیکن آج ہمارے گھر گانوں کا راج ہے۔ کبھی تیری گود سے شمشیرو سناں سے کھیلنے والے پرورش پاتے تھے…اور آج طائوس و رباب سے کھیلنے والے جوان… وہ راہ حق کے راہی…یہ آج حق کے لئے تباہی… وہ موت سے کھیلنے والے اور یہ موت سے خوفزدہ … وہ اسلام کے داعی…اور یہ اسلام کے باغی… !!!

دیکھئے پیاری بہنو! کفر پھر سر اٹھا رہا ہے۔ مسلمان دشمنان اسلام کے شکنجے میں پس رہے ہیں‘ تڑپ رہے ہیں‘ بلک اور سلگ رہے ہیں۔ تو کیا ہمارے دل اپنے ان مسلمان بہن بھائیوں کی حالت پر تڑپتے نہیں …!!

سوآج ہمیں ان جری مجاہدات صحابیات کی زندگی کو اپنانا ہوگا ان کی پیروی کرنی ہوگی جنہوں  نے دین کی پیروی کرتے ہوئے اسلام کی بلندی کے لئے اور اللہ کے رسول کی محبت میں اپنا سب کچھ نچھاور کردیا۔ اور اپنے اللہ کے ہاں بلند مقام پا گئیں۔

ہم بھی ماں کے روپ میں اپنے لخت جگر اور بہن کی حیثیت سے اپنے پیارے بھائیوں کو (جن سے ہم بہت سی دنیاوی جواہشات کو وابستہ کیے ہوئے ہیں )، اور بیوی کے روپ میں اپنے شوہروں کی محبت کو اللہ کی خوشنودی کے لئے قربان کرنا ہوگا۔ اپنے ہاتھو ں سے ان کے سروں پر سہرے سجا کر اور کاندھوں پر کفن رکھ کر الوداع کرنا ہوگا۔ تا کہ اس سے کشمیرو فلسطین کے مسلمانوں کی آزادی پر بندھی آس پایہ تکمیل تک پہنچ سکے … وہاں لگی ظلم و ستم کی آگ بجھ پائے۔ اور ان مائوں کے جگر گوشوں کے لئے دعا کرنی ہوگی جو بہت پہلے اپنے لئے اس پر کیف رستے کو منتخب کرچکے ہیں…

کیا  ان کا ہمارے ساتھ دین کا کوئی تعلق نہیں ہے جو تمام رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ ان کے لئے ہمارا سب کچھ قربان کرنا فرض ہے تاکہ وہ بھی آزادی کی کرن دیکھ سکیں۔

معزز بہنو! ہم نے اپنی زندگی اسلام کے طور طریقے کے مطابق اور قرآن و حدیث کے مطابق ڈھالنی ہے۔ یہ زندگی تو ختم ہو کر رہنے والی ہے اور بہتر نہیں ہے کہ ہم اس زندگی کو اللہ کی رضا اور اس کے دین کے لئے وقف کردیں۔ کیونکہ اسی میں ہماری فلاح ہے اور اللہ کی رضا ہے … اللہ ہم سب کو دین کی سمجھ عطا کرے اور ایسے عمل کرنے کی توفیق دے جس سے عرش والا رحمان راضی اور خوش ہوجائے اور ہم جنتوں کے وارث بن جائیں۔اللہ سب بہنوں کو اس پر عمل کی توفیق عطا کرے۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں