عادتیں انسانی شخصیت کی عکاس ہوتی ہیں۔عادتیں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی۔ اچھی عادتیں جس قدرفائدہ بخش ثابت ہوئی ہیں بالکل اسی طرح بری عادتیں بھی اتنی ہی نقصان رساں ثابت ہوتی ہیں۔اچھی عادتوں کو اپنانامشکل ضرور ہے لیکن ان سے زندگی سہل اور آسان ہوجاتی ہے۔اس کے برخلاف بری عادتوں کو اپنانا بہت ہی آسان ہوتا ہے لیکن اس سے زندگی مشکل اور ابتر ہوجاتی ہے۔ ارسطوکے مطابق’’ زندگی میں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ہماری عادات ہی کا نتیجہ ہوتا ہے‘‘۔ عادت کے بارے میں کہا گیاہے کہ یہ ابتدا میں مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہوتیہے مگر ہر گزرتے لمحے فولاد کی طرح سخت اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے جسے ترک کرنا بہت ہی دشوار ہوجاتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ بری عادتیں قبر تک ساتھ جاتی ہیں۔عادتوں کی تشکیل اور فروغ میں والدین ،گھر ،سماج ،اسکول کے ماحول کے علاوہ اساتذہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔طلبہ تو طلبہ والدین اور اساتذہ تک اپنی نظروں کے سامنے موجود چیزوں کو غیر اہمجان کر بے خبر اور غافل رہتے ہیں جس کی وجہ سے بچے’’خشت اول چوں نہد معمار کج،تاثریامی رود دیوار کج(معمار اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے تب دیوار اگر ثریا(بلندی) تک بھی پہنچ جائے ٹیڑھی ہی ہوگی)‘‘ کے مصداق غیر پسندیدہ عادتوں کا شکار ہو کر زندگی بھربری عادتوں کے غلام ہوجاتے ہیں۔ ہر آدمی کوبہت ہی سوچ سمجھکر عادتیں اپنانا چاہئے ۔اکثر ماہرین تعلیم و نفسیات کا اس بات پراجماع ہے کہ بچے زندگی بھر اپنی ابتدائی تعلیم کے زیر اثر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ساری زندگی ان کی شخصیت پران کی ابتدائی زندگی، علم، عادتوں، رحجانات، تجربات اور نظریات کے اثرات نمایاں طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ کسی بھی بری عادت کو چھوڑنا بہت ہی مشکلہوتا ہے۔بری عادت سردی کے موسم میں ایک گرم بسترکی مانند ہوتی ہے جس میں گھسنا تو آسان ہے لیکن باہر نکلنا بہت ہی مشکل ۔
عادتوں کی تشکیل اور فروغ میں تعلیمی نصاب و معیار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔معیاری تعلیم اور اعلی کردار سازی کے زیر اثر ہی طلبہ اپنی ذہنی و تحقیقی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔طلبہ میں مثبت اور صحت مند عادتوں کی تشکیل و فروغ کے لئے معیار تعلیم کو بہتر بنانے میں حکومت، والدین اور اساتذہ کے علاوہ ملک و ملت کی تعمیر سے وابستہ ہرفرد کو اپنا کردار ادا کرناضروری ہے۔تعلیم کا تربیت سے وہی رشتہ ہے جو جسم اور روح کے درمیان پایا جاتا ہے اور یہ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے اور نامکمل ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کی اصطلاح رواج پانے کی یہ ایک معقول وجہ معلوم ہوتی ہے۔تعلیم کا تعلق جہاں معلومات کی فراہمی و فروانی سے ہے وہیں تربیت کا شعبہ سیرت و کردار کی تشکیل و تعمیر سے تعلق رکھتا ہے۔تربیت تعلیم کے زیر اثرپرورش پاتی ہے۔ تربیت کا تعلیم پر اور تعلیم کا تصور علم(World View)پر انحصار ہوتا ہے۔مختصراًتعلیم جیسی ہوگی تربیت بھی ویسی ہی ہوگی اور جیسا تصور علم ہوگا ویسی ہی تعلیم بھی ۔ ہر تصور علم ایک مخصوص تعلیمی نظام اور اس کی مطلوب شخصیت و معاشرے کو جنم دیتاہے۔ وہ معاشرہ یا افراد جواللہ کی ہدایت اورنبی کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنے کے متحمل نہ ہوں،آخرت پر یقین نہ رکھتے ہوں،دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوں،اللہ کو وحدہ و لاشریک نہ مانتے ہوں، ہدایت خداوندی کے مطابق معاملات زندگی گزارنے کے قائل نہ ہوں تب اس ورلڈ ویو سے ایک خاص قسم کا تصور علم اوراس تصور علم سے نکلنے والے مخصوص قسم کے علوم کے زیر سایہ ایسا نظام تعلیم و تربیت وجودمیں آئے گاجس کے نتیجے میں ایسے افراد و ہستیاں تیارہوں گی جوہمیشہ اس باطل معاشرے کی ضروریات کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل رہیں گی۔ ایسے تصور علم کے سائے میں تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہوئے مسلمان اگر کسی فکری انقلاب کے متمنی ہے تو ان کی عقل و دانش پر سوائے افسوس کے کچھ اور نہیں کیا جاسکتا۔ایسامعاشر ہ جو اللہ کو ایک مانے، اس کاآخرت پرایقان ہو،دنیوی معاملات میں اللہ کی کتاب و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روشنی حاصل کرے تب اس ورلڈ ویو سے ایک ایسا تصور علم اور اس تصور علم سے دیگر خاص علوم اور نظام تعلیم و منہج تربیت ابھریں گے جس سے مسلم معاشرے کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہے۔مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ تربیت کا انحصار ،تعلیم پر اور تعلیم کا انحصار تصور علم پرواقع ہے۔جس تعلیمی نظام کے زیر اثر ہمارے نونہال پروان چڑھ رہیں ہیں اس سے ہمارے مطلوب معاشرے کی تعمیر ،تشکیل اور تکمیل ناممکن ہے ۔اسی لئے ضروری ہے کہ تزکیہ اعمال سے قبل تزکیہ تعلیم وتزکیہ تصور علم (ورلڈ ویو)کی سخت ضرورت ہے۔تزکیہ سے مراد اچھی عادات کو اپنانا اور بری عادات سے بچنا ہے۔اچھے اور برے کا تعین تصورعلم سے ہوتا ہے ۔جیسا علم ہوگا ویسے ہی انسان کے خیالات و عقائد ہوں گے اور انسان کے جیسے خیالات ہوں گے ویسے ہی اعمال و عادتیں ہوں گی اور جیسی عادتیں ہوں گی ویسی ہی شخصیتوں کا وجود عمل میں آئے گا۔
معاشرتی زندگی میں پھیلی ہوئی اخلاقی گراوٹ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف یعنی معکوس ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں اساتذہ،ذمہ داران مدارس اور والدین کے درمیان اشتراک عمل کا فقدان پایا جاتا ہے۔والدین بچوں کی اخلاقی پستی ،بری عادتوں اور بے راہ روی کے لئے اساتذہ اور مدارس اور اہل مدارس کو ذمہ دار گردانتے ہیں جب کہ بچوں کو نیک یا بد بنانے اور مدارس میں فراہم کردہ تعلیم اور اخلاق وعادات کو پختہ کرنے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بچے روازنہ چوبیس گھنٹوں میں سے تقریباً اٹھارہ گھنٹے اپنے گھر میں گزارتے ہیں۔بچے جو کچھاپنے بچپن اور ایام طالب علمی میں سیکھتے ہیں و ہ زندگی بھران کے ذہنوں میں محفوظ رہتا ہے۔ مو بائل فون،کیبل ٹی وی اور انٹرنیٹ جیسی فضول سہولیا ت تفریح کے نام پر مہیا کرتے ہوئے والدین بچوں کو کچی عمر میں تباہی کے پختہ سامان فراہم کررہے ہیں۔ گھر میں بچوں کے اوقات اور مشاغل سے غفلت برتنے والے والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ والدین کی غفلت کی وجہ سے بری عادات کاشکار بچوں کی ذہنی افتاد اسکول کی اعلیٰ سے اعلیٰ معیاری تعلیم بھی دور نہیں کر سکتی ۔ معاشرے کی زبوں حالی اور اخلا قی گراوٹ کا ایک بڑا سبب والدین کی اپنی اولاد کی تربیت سے غفلت ہے۔معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے ۔اگر فرد کی تربیت صحیح خطوط پرانجام نہ دی جائے تب ایسے افراد کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں حالی سے کسی بھی طور محفوظ نہیں رہ سکتا۔گھر کے ماحول کا بچوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر گھر والے نیک سیرت اورخوش اخلاق‘ بچوں سے محبت و شفقت سے پیش آنے والے‘ آپس میں اتفاق و محبت سے رہنے والے ہوں تب ان کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچے بھی حسن و اخلاق کے پیکر اور کردار کے غازی ہوں گے۔ اس کے برعکس عیاش‘ لڑائی جھگڑا‘ گالی گلوچ کرنے والوں گھرانوں میں پرورش پانے والے بچے ان مسموم و ناپاک اثرات سے ہرگز محفوظ نہیں رہ سکتے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو اولاد کی تربیت کی طرف خصوصی طور پر متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ’’کوئی باپ اپنے بچے کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم و تربیت دے‘ انسان کا اپنی اولاد کو ادب کی ایک بات سکھانا ایک صاع (ساڑھے تین سیر) غلہ خیرات کرنے سے بہتر ہے۔
اس مضمون میں صحت مند عادتوں کی تشکیل و فروغ کے بنیادی اور عمومی رہنمایانہ (General Guidance)نکات کا جائزہ لینے کے علاوہ تربیت کے اہم ترین اصولوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ایام بچپن و دورنوجوانی میں بچے خود کو ہر لمحہ یکسر مخالف سمتوں میں جانے والے راستوں پر کھڑے پاتے ہیں۔ ہر راستہ انھیں اپنی جانب کھینچنے لگتا ہے۔ایک طرف خوبیاں اور اچھائیاں دعوت دیتی ہیں تو دوسری جانب نفسانی خواہشات،نفس امارہ اور شیطانی وسوسوں کی جلوآرائیاں بھی انھیں اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔عقل و خواہشات ،خیر و شر ،پاکیزگی اور غلاظت کے درمیان جاری اس کشاکش میں وہی سرخرو ہوسکتا ہے جس نے ابتدائی عمر سے ہی خود سازی اور جہاد بالنفس کا اہتمام کیا ہو۔والدین،اساتذہ اور منتظمین مدارس کا فرض اولین ہے کہ وہ بچوں کو ان کی اوائل عمر سے ہی خوف خدا اور تقویٰ کے احساس سے ممیز کردیں۔جوشخص اللہ کے خوف اور تقویٰ سے آراستہ ہوجاتا ہے وہ زندگی کے ہر امتحان میں کامران و سرفراز ہوجاتا ہے۔بچوں کی تربیت صرف پڑھانے پر موقوف نہیں ہے بلکہ مختلف رویوں‘ باتوں اور باہمی تعلقات کی تعلیم و تربیت سے اس کی تکمیل انجام پاتی ہے۔ بچوں کو اللہ سے محبت کرنا اور اس کی کبریائی بیان کرنا ،اس کی حمد و ثنا اور عبادت کرنے کی عادتیں سکھانے کے ساتھ بات کرنے سے پہلے سلام کرنا‘ بڑوں کا ادب‘چھوٹوں سے شفقت، گفتگو کے آداب‘ والدین کی فرمانبرداری‘ ضروری عقائد‘ کھانے پینے کے آداب‘ حسن اخلاق‘ پاکیزگی‘ مختلف دعائیں‘ خوف خدا‘ شکر اور صبر کرنا‘ خود اعتمادی‘ سچ بولنا جیسی عادتیں سکھانی بے حد ضروری ہے۔طالب علمی کا دور تربیت اور تعمیر ذات کا بہترین زمانہ ہوتا ہے ۔ اس عمر میں برائیاں اور خراب عادتیں بچوں پر اپنا مکمل رنگ جمانے میں کامیاب نہیں ہوتی ہیں کیونکہ خرابیاں اور بری عادتیں اس عمر میں ابھی پختہ نہیں ہوئی ہوتیں ہیں جس کی وجہ سے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔آدمی کی عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے خراب عادتوں سے چھٹکارا پانااس کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوجاتا ہے۔مولانا روم اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے راستے میں ایک خاردار درخت بویا۔راستہ چلنے والوں کو اس سے تکلیف پہنچنے لگی۔راہ گیروں نے جب اس شخص سے درخت کاٹنے کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ وہ آئندہ برس اسے کاٹ دے گااور آئندہ برس اس نے درخت کی کٹائی کو مزید ایک اور سال تک موخر کردیا۔یہ سلسلہ کئی سالوں تک یوں ہی چلتا رہاجس کے نتیجے میں درخت ہرسال بڑھتا رہا اور اس کی جڑیں مزید مضبوط اور گہری ہوتی گئی جب کہ لگانے والا آدمی ہر سال کمزور اور ضعیف ہوتا گیا۔ہماری حالت بھی اسی خاردار درخت بونے والے شخص کی مانند ہے کیونکہ انسان میں عادات وصفات روز بہ روز پختہ تر ہوتے جاتے ہیں اور اس کے ارادے اور حوصلے وقت کے ساتھ کمزور ہوتے رہتے ہیں۔
خار بن در قوت و برخاستن
خارکن درسستی و درکاستن
خار دار درخت قوی اور بلند ہوتا رہتا ہے۔جبکہ کانٹے اکھاڑنے والا کمزور ی اور ضعف کی طرف مائل ہوتا ہے(مثنوی مولانا روم)۔‘‘اصلاح نفس یعنی عادت گیری کے لئے بوڑھاپے سے جوانی اور جوانی سے بچپن بہتر ہے۔ طلبہ اپنی ابتدائی عمر میں ہی بری عادتوں کو ترک کردیں۔بری صحبتوں اور بری عادات سے ہمیشہ پرہیز کریں۔بہت سارے طلبہ عزم و ارادے کی کمزوری اور قوت فیصلہ کے فقدان کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔بارہا کوشش و عزم کے باوجود مذموم و ناپسندیدہ عادات سے چھٹکارا پانے سے وہ خو د کو عاجز پاتے ہیں۔طلبہ ہمیشہ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ خصائل رذیلہ سے چھٹکارا پانا ناممکن نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ سورہ عنکبوت میں فرماتے ہیں’’اور جنہوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم انہیں ضروراپنی راہیں سمجھا دیں گے،اور بے شک اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘(سورہ عنکبوت آیت نمبر 69) خراب عادتوں سے نجات پانے کی طلبہ کی یہ کاوشیں ان میں جستجو و جد و جہد کا مادہ پیدا کردیتی ہے اور آگے چل کر وہ سرکش نفس کو قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
شخصیت انسان کے ظاہری وباطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات (Personality Attributes)کے مجموعہ کا نام ہے۔ اگر کوئی ہم سے کسی کے بارے میں دریافت کرے تب ہم فوراً اس انسان میں پائے جانے والے چند صفات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ محنتی،وقت کا پابند ،ذہین ،مخلص ،غصہ وریاجھگڑالو ہے ۔ بچوں کو خراب پہچان اور برے تعارف سے بچانے کے لئے انھیں منفی عادات و اطوار جیسے تکبر ،جھوٹ بولنا، غصہ کرنا،تساہل برتنا،غیبت کرنا ،چوری کرنا،گالی دینا،وعدہ خلافی کرنا ،وقت کی ناقدری کرنا،لعنت کرنا،شکایت کرنا،دوسروں کے عیبوں کی تشہیر کرنا،کسی کا مذاق اڑانااور معمولی معمولی باتوں پر ترک تعلق کرنا سے بچانا بے حد ضروری ہے۔دنیا میں صرف انسان کی اصلاح کے ذریعہ ہی امن و سکون اور محبت کی فضا پیدا کی جاسکتی ہے اور انسان کی اصلاح کا بہترین دور اس کا بچپن اور نوجوانی ہے۔والدین،اساتذہ اور تعلیم و تربیت سے وابستہ افرادوادارے بچوں کو اچھی عادات اپنانے میں مدد کریں ۔بچوں کو نماز کا عادی بنائیں تاکہ اللہ کے ساتھ ان کا اٹوٹ تعلق استوار ہو جائے۔مطالعہ کی عادت کو ایسے پروان چڑھائیں کہمطالعہان کا اوڑھنا بچھونا بن جائے۔ہم سب جانتے ہیں کہ علم میراث میں نہیں ملتا بلکہ اس کے حصول کے لئے کتابوں سے دوستی کرنی پڑتی ہے اور مطالعہ کو حرز جاں بنانا پڑتا ہے عادت ڈالیں کہ جب کبھی کوئی نیا لفظ سامنے آئے تب وہ اسے جاننے اور سیکھنے کی کوشش کریں اور اسے اپنی تحریر و گفتگو میں استعمال کریں تاکہ وہ الفاظ ان کے ذہن میں پیوست ہوجائے۔یہ عادت ذخیرہ الفاظ بڑھانے میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔۔ پاک و صاف رہنے کی عادت صحت و تندرستی کے لئے بہت ہی اہم ہوتی ہے اسی لئے بچوں کو صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں۔ باقاعدگی سے روزانہ تھوڑی دیر ورزش کرنا ایک بہترین عادت ہے۔ بسیاری خوری(خوب کھانے )سے پرہیز کرنا چاہئے اور حسب ضرورت کھانا ایک عمدہ عادت ہے ۔بچوں کو اہل علم کی محفلوں میں لے جائیں اور ان میں اٹھنے بیٹھنے کی تلقین کریں۔ لوگوں سے میل ملاپ ،ملنا جلنا،خوشی اور غم میں شریک ہونا آدھی ذہانت کہلاتا ہے۔ لیکن خیال رہیں کہ میل میلاپ ملنا جلنا توازن میں رہے ۔حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں’’کم بولناحکمت ہے،کم کھانا، کم سونا عبادت اور عوام سے کم ملنا عافیت ہے۔‘‘اللہ کی نعمتوں سے فیض اٹھانا چاہئے لیکن اسراف سے بچنا چاہئے۔بچوں کو فضول خرچی کی عادت میں گرفتار ہونے سے محفوظ رکھیں۔ بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادیں کہ محنت سے کمائی ہوئی حلال روزی بہت بڑی نعمت ہے۔نعمتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔بچوں میں عزت نفس اور بزرگواری کی روح پیدا کی جائے۔عزت نفس انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اللہ رب العزت نے یہ گوہر ہر انسان کی ذات میں ودیعت کیا ہے جس کی حفاظت اور نگہداشت ہر ایک کے لئے لازم ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں جابر و ظالم حکمران عوام کے استحصال اور ان کو اپنا تابعدار بنانے کے لئے سب سے پہلے ان کی عزت نفس کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کی شخصیت کی تحقیر کرتے ہیں اس بارے میں قرآن فرماتا ہے ’’پس اس نے(فرعون) نے اپنی قوم کو احمق بنادیا اور وہ اس کے کہنے میں آگئے کیونکہ وہ بدکار لوگ تھے۔‘‘(سورہ الزخرف54)
’’عادت یا توبہترین خادم ہوتی ہے یا بدترین آقا‘‘اچھی عادتیں اختیار کرتے ہوئے صحت،روزگار اور زندگی کو بہتر اور خوش گوار بنایا جاسکتا ہے۔اچھی عادتوں کے حامل افراد اکثر خوش طبع واقع ہوتے ہیں۔طلبہ بری عادتوں کو اچھی عادات سے بدلتے ہوئے زندگی میں اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی جو ہدایت انبیاکے ذریعے نازل کی ہیں ان کا بنیادی مقصد ہی انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی ہے جسے ’’تزکیہ نفس‘‘ کہاجاتا ہے۔ ’’وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں ایک رسول انہی میں سے اٹھایا ہے جو اس کی آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور (اس کے لئے) انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘َ (سورہ الجمعہ ) انسان میں مجموعی طور پر دو قسم کی صفات پائی جاتی ہیں (1)غیر اکتسابی یا فطری صفات جیسے رنگ،نسل،شکل و صورت ،جسمانی ساخت و ذہنی صلاحیتیں وغیرہ (2)اکتسابی صفات جو انسان میں ازخود یا پھر ماحول کے زیر اثر پروان چڑھتی ہیں جن میں روزمرہ کی انجان طور پر درآنے والی عادات، انسان کی علمی سطح، اس کا پیشہ، اس کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔ ان دونوں صفات کے فروغ کو تعمیر شخصیت یا شخصیت سازی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اپنی شخصیت کو دلکش بنانے کے لئے ضرور ی ہے کہ ہم قدرتی صفات کو پروان چڑھانے کے ساتھ اکتسابی صفات کی تعمیر بھی جاری رکھیں۔قدرتی صفات کو پروان چڑھانے اور اکتسابی صفات کے فروغ کے لئے بری عادات کی اچھی عادات سے تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔صبح خیزی کیخواہش مند رات کو جلد سوجائیں تاکہ وہ صبح خیزی اور چہل قدمی کی اچھی عادت اپناسکیں۔بری عادتوں کی تبدیلی کے لئے ابتداً چھوٹے چھوٹے مثبت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔اگرآپ کو صبح 5 بجے اٹھنا ہے اور آپ اس کے عادی نہیں ہے تب شاید یہ آپ کے لئے ممکن نہیں ہوگا اس لئے 5بجے کے بجائے بتدریج 7اور اسی طرح 6بجے نیند سے بیدار ہوجائیں تب صبح 5بجے اٹھنا مشکل نہیں ہوگا۔ ایک قدم اٹھائیے اور اس پر ثابت قدمی سے جم جائیے اور بری عادات کو ختم کرتے جایئے بعد میں ایک ایسا وقت آئے گا کہ اچھی عادتیں بغیر کسی دقت و پریشانی کے آپ کی ذات میں جمع ہوتی جائیں گی۔بچوں کی کامیاب زندگی کے لئے والدین اور اساتذہ خراب عادتوں کو ان کی ذات سے نکال کر اس کی جگہ اچھی عادتوں کو جگہ دیں۔ طلبہ دیرتک سونا،دیرتک جاگنا،کام میں تساہل کرنا،جلد فیصلہ نہ کرنا جیسی خراب عادات کوترک کرتے ہوئے اچھی عادات ایمانداری،عاجزی،صبر،ذمہ داری کا احساس،سخاوت کو اپنا کر زندگی میں فقیدالمثال کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے اعلیٰ مقام اور خلیفہ فی الارض کے منصب جلیلہ پر فائزہ کیا ہے تو ضروری ہے کہ انسان اس منصب کا لحاظ رکھے اور خود کو کسی عادت یا سہولت کا غلام نہ بنائے۔والدین ،ذمہ داران مدارس اور خاص طور پر اساتذہ بچوں میں تعلیم و اکتساب میں فروغ کے لئے اعلیٰ و عمدہ عادات جیسے فکرو تدبر کی عادت،مطالعہ کی عادت،بہتر گفت و شنید کی عادات اور منظم خود کار مطالعہ کی عادات کو فروغ دیں۔بچوں میں عمدہ عادت سازی کے لئے والدین،گھر کے دیگر افراد اور اساتذہ کا کردار مثالی ہونا چاہئے۔ والدین اور اساتذہ کی حیثیت ایک رول ماڈل(مثالی اسوہ ) کی ہوتی ہے۔طلبہ کی زندگی کو بلندی اور معنویت عطاکرنے کے لئے ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ کی زندگی مثالی ،اعلیٰ اور معیاری ہو۔بچے اپنے والدین اور اساتذہ کی حرکات و سکنات اور عادات و اطوار کا نہ صرف مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ انہیں اپنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں اس لئے والدین اور اساتذہ ایسے تمام عادتوں اور خصائل سے متصف ہوں جنہیں وہ بچوں کو اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں ۔والدین،اساتذہ،ذمہ دارن مدارس ،تعلیم و تربیت اور ملک و ملت کی تعمیر سے وابستہ افراد بچوں کی تربیت ابتدائی عمرسے ہی اس انداز و منہج سے انجام دیں کہ وہ معاشرے کے لئے ایک سرمایہ و اثاثہ بن جائیں ۔ مذکورہ ذمہ داران کی کوتاہی اور تساہل سے اگر بچے بری عادتوں کا شکار ہوجائیں تب وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے ۔
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...