عادات! تعمیر و تخریب کا ساماں

عادتیں انسانی شخصیت کی عکاس ہوتی ہیں۔عادتیں اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی۔ اچھی عادتیں جس قدرفائدہ بخش ثابت ہوئی ہیں بالکل اسی طرح بری عادتیں بھی اتنی ہی نقصان رساں ثابت ہوتی ہیں۔اچھی عادتوں کو اپنانامشکل ضرور ہے لیکن ان سے زندگی سہل اور آسان ہوجاتی ہے۔اس کے برخلاف بری عادتوں کو اپنانا بہت ہی آسان ہوتا ہے لیکن اس سے زندگی مشکل اور ابتر ہوجاتی ہے۔ ارسطوکے مطابق’’ زندگی میں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ہماری عادات ہی کا نتیجہ ہوتا ہے‘‘۔ عادت کے بارے میں کہا گیاہے کہ یہ ابتدا میں مکڑی کے جالے کی طرح کمزور ہوتیہے مگر ہر گزرتے لمحے فولاد کی طرح سخت اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے جسے ترک کرنا بہت ہی دشوار ہوجاتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ بری عادتیں قبر تک ساتھ جاتی ہیں۔عادتوں کی تشکیل اور فروغ میں والدین ،گھر ،سماج ،اسکول کے ماحول کے علاوہ اساتذہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔طلبہ تو طلبہ والدین اور اساتذہ تک اپنی نظروں کے سامنے موجود چیزوں کو غیر اہمجان کر بے خبر اور غافل رہتے ہیں جس کی وجہ سے بچے’’خشت اول چوں نہد معمار کج،تاثریامی رود دیوار کج(معمار اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھے تب دیوار اگر ثریا(بلندی) تک بھی پہنچ جائے ٹیڑھی ہی ہوگی)‘‘ کے مصداق غیر پسندیدہ عادتوں کا شکار ہو کر زندگی بھربری عادتوں کے غلام ہوجاتے ہیں۔ ہر آدمی کوبہت ہی سوچ سمجھکر عادتیں اپنانا چاہئے ۔اکثر ماہرین تعلیم و نفسیات کا اس بات پراجماع ہے کہ بچے زندگی بھر اپنی ابتدائی تعلیم کے زیر اثر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ساری زندگی ان کی شخصیت پران کی ابتدائی زندگی، علم، عادتوں، رحجانات، تجربات اور نظریات کے اثرات نمایاں طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ کسی بھی بری عادت کو چھوڑنا بہت ہی مشکلہوتا ہے۔بری عادت سردی کے موسم میں ایک گرم بسترکی مانند ہوتی ہے جس میں گھسنا تو آسان ہے لیکن باہر نکلنا بہت ہی مشکل ۔
عادتوں کی تشکیل اور فروغ میں تعلیمی نصاب و معیار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔معیاری تعلیم اور اعلی کردار سازی کے زیر اثر ہی طلبہ اپنی ذہنی و تحقیقی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں پیش کرسکتے ہیں۔طلبہ میں مثبت اور صحت مند عادتوں کی تشکیل و فروغ کے لئے معیار تعلیم کو بہتر بنانے میں حکومت، والدین اور اساتذہ کے علاوہ ملک و ملت کی تعمیر سے وابستہ ہرفرد کو اپنا کردار ادا کرناضروری ہے۔تعلیم کا تربیت سے وہی رشتہ ہے جو جسم اور روح کے درمیان پایا جاتا ہے اور یہ ایک دوسرے کے بغیر ادھورے اور نامکمل ہیں۔ تعلیم کے ساتھ تربیت کی اصطلاح رواج پانے کی یہ ایک معقول وجہ معلوم ہوتی ہے۔تعلیم کا تعلق جہاں معلومات کی فراہمی و فروانی سے ہے وہیں تربیت کا شعبہ سیرت و کردار کی تشکیل و تعمیر سے تعلق رکھتا ہے۔تربیت تعلیم کے زیر اثرپرورش پاتی ہے۔ تربیت کا تعلیم پر اور تعلیم کا تصور علم(World View)پر انحصار ہوتا ہے۔مختصراًتعلیم جیسی ہوگی تربیت بھی ویسی ہی ہوگی اور جیسا تصور علم ہوگا ویسی ہی تعلیم بھی ۔ ہر تصور علم ایک مخصوص تعلیمی نظام اور اس کی مطلوب شخصیت و معاشرے کو جنم دیتاہے۔ وہ معاشرہ یا افراد جواللہ کی ہدایت اورنبی کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنے کے متحمل نہ ہوں،آخرت پر یقین نہ رکھتے ہوں،دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوں،اللہ کو وحدہ و لاشریک نہ مانتے ہوں، ہدایت خداوندی کے مطابق معاملات زندگی گزارنے کے قائل نہ ہوں تب اس ورلڈ ویو سے ایک خاص قسم کا تصور علم اوراس تصور علم سے نکلنے والے مخصوص قسم کے علوم کے زیر سایہ ایسا نظام تعلیم و تربیت وجودمیں آئے گاجس کے نتیجے میں ایسے افراد و ہستیاں تیارہوں گی جوہمیشہ اس باطل معاشرے کی ضروریات کی تکمیل کے لئے سرگرم عمل رہیں گی۔ ایسے تصور علم کے سائے میں تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہوئے مسلمان اگر کسی فکری انقلاب کے متمنی ہے تو ان کی عقل و دانش پر سوائے افسوس کے کچھ اور نہیں کیا جاسکتا۔ایسامعاشر ہ جو اللہ کو ایک مانے، اس کاآخرت پرایقان ہو،دنیوی معاملات میں اللہ کی کتاب و رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روشنی حاصل کرے تب اس ورلڈ ویو سے ایک ایسا تصور علم اور اس تصور علم سے دیگر خاص علوم اور نظام تعلیم و منہج تربیت ابھریں گے جس سے مسلم معاشرے کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہے۔مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ تربیت کا انحصار ،تعلیم پر اور تعلیم کا انحصار تصور علم پرواقع ہے۔جس تعلیمی نظام کے زیر اثر ہمارے نونہال پروان چڑھ رہیں ہیں اس سے ہمارے مطلوب معاشرے کی تعمیر ،تشکیل اور تکمیل ناممکن ہے ۔اسی لئے ضروری ہے کہ تزکیہ اعمال سے قبل تزکیہ تعلیم وتزکیہ تصور علم (ورلڈ ویو)کی سخت ضرورت ہے۔تزکیہ سے مراد اچھی عادات کو اپنانا اور بری عادات سے بچنا ہے۔اچھے اور برے کا تعین تصورعلم سے ہوتا ہے ۔جیسا علم ہوگا ویسے ہی انسان کے خیالات و عقائد ہوں گے اور انسان کے جیسے خیالات ہوں گے ویسے ہی اعمال و عادتیں ہوں گی اور جیسی عادتیں ہوں گی ویسی ہی شخصیتوں کا وجود عمل میں آئے گا۔
معاشرتی زندگی میں پھیلی ہوئی اخلاقی گراوٹ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف یعنی معکوس ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں اساتذہ،ذمہ داران مدارس اور والدین کے درمیان اشتراک عمل کا فقدان پایا جاتا ہے۔والدین بچوں کی اخلاقی پستی ،بری عادتوں اور بے راہ روی کے لئے اساتذہ اور مدارس اور اہل مدارس کو ذمہ دار گردانتے ہیں جب کہ بچوں کو نیک یا بد بنانے اور مدارس میں فراہم کردہ تعلیم اور اخلاق وعادات کو پختہ کرنے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بچے روازنہ چوبیس گھنٹوں میں سے تقریباً اٹھارہ گھنٹے اپنے گھر میں گزارتے ہیں۔بچے جو کچھاپنے بچپن اور ایام طالب علمی میں سیکھتے ہیں و ہ زندگی بھران کے ذہنوں میں محفوظ رہتا ہے۔ مو بائل فون،کیبل ٹی وی اور انٹرنیٹ جیسی فضول سہولیا ت تفریح کے نام پر مہیا کرتے ہوئے والدین بچوں کو کچی عمر میں تباہی کے پختہ سامان فراہم کررہے ہیں۔ گھر میں بچوں کے اوقات اور مشاغل سے غفلت برتنے والے والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی کوئی توقع نہ رکھیں۔ والدین کی غفلت کی وجہ سے بری عادات کاشکار بچوں کی ذہنی افتاد اسکول کی اعلیٰ سے اعلیٰ معیاری تعلیم بھی دور نہیں کر سکتی ۔ معاشرے کی زبوں حالی اور اخلا قی گراوٹ کا ایک بڑا سبب والدین کی اپنی اولاد کی تربیت سے غفلت ہے۔معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے ۔اگر فرد کی تربیت صحیح خطوط پرانجام نہ دی جائے تب ایسے افراد کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں حالی سے کسی بھی طور محفوظ نہیں رہ سکتا۔گھر کے ماحول کا بچوں کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر گھر والے نیک سیرت اورخوش اخلاق‘ بچوں سے محبت و شفقت سے پیش آنے والے‘ آپس میں اتفاق و محبت سے رہنے والے ہوں تب ان کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچے بھی حسن و اخلاق کے پیکر اور کردار کے غازی ہوں گے۔ اس کے برعکس عیاش‘ لڑائی جھگڑا‘ گالی گلوچ کرنے والوں گھرانوں میں پرورش پانے والے بچے ان مسموم و ناپاک اثرات سے ہرگز محفوظ نہیں رہ سکتے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو اولاد کی تربیت کی طرف خصوصی طور پر متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ’’کوئی باپ اپنے بچے کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم و تربیت دے‘ انسان کا اپنی اولاد کو ادب کی ایک بات سکھانا ایک صاع (ساڑھے تین سیر) غلہ خیرات کرنے سے بہتر ہے۔
اس مضمون میں صحت مند عادتوں کی تشکیل و فروغ کے بنیادی اور عمومی رہنمایانہ (General Guidance)نکات کا جائزہ لینے کے علاوہ تربیت کے اہم ترین اصولوں کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ایام بچپن و دورنوجوانی میں بچے خود کو ہر لمحہ یکسر مخالف سمتوں میں جانے والے راستوں پر کھڑے پاتے ہیں۔ ہر راستہ انھیں اپنی جانب کھینچنے لگتا ہے۔ایک طرف خوبیاں اور اچھائیاں دعوت دیتی ہیں تو دوسری جانب نفسانی خواہشات،نفس امارہ اور شیطانی وسوسوں کی جلوآرائیاں بھی انھیں اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔عقل و خواہشات ،خیر و شر ،پاکیزگی اور غلاظت کے درمیان جاری اس کشاکش میں وہی سرخرو ہوسکتا ہے جس نے ابتدائی عمر سے ہی خود سازی اور جہاد بالنفس کا اہتمام کیا ہو۔والدین،اساتذہ اور منتظمین مدارس کا فرض اولین ہے کہ وہ بچوں کو ان کی اوائل عمر سے ہی خوف خدا اور تقویٰ کے احساس سے ممیز کردیں۔جوشخص اللہ کے خوف اور تقویٰ سے آراستہ ہوجاتا ہے وہ زندگی کے ہر امتحان میں کامران و سرفراز ہوجاتا ہے۔بچوں کی تربیت صرف پڑھانے پر موقوف نہیں ہے بلکہ مختلف رویوں‘ باتوں اور باہمی تعلقات کی تعلیم و تربیت سے اس کی تکمیل انجام پاتی ہے۔ بچوں کو اللہ سے محبت کرنا اور اس کی کبریائی بیان کرنا ،اس کی حمد و ثنا اور عبادت کرنے کی عادتیں سکھانے کے ساتھ بات کرنے سے پہلے سلام کرنا‘ بڑوں کا ادب‘چھوٹوں سے شفقت، گفتگو کے آداب‘ والدین کی فرمانبرداری‘ ضروری عقائد‘ کھانے پینے کے آداب‘ حسن اخلاق‘ پاکیزگی‘ مختلف دعائیں‘ خوف خدا‘ شکر اور صبر کرنا‘ خود اعتمادی‘ سچ بولنا جیسی عادتیں سکھانی بے حد ضروری ہے۔طالب علمی کا دور تربیت اور تعمیر ذات کا بہترین زمانہ ہوتا ہے ۔ اس عمر میں برائیاں اور خراب عادتیں بچوں پر اپنا مکمل رنگ جمانے میں کامیاب نہیں ہوتی ہیں کیونکہ خرابیاں اور بری عادتیں اس عمر میں ابھی پختہ نہیں ہوئی ہوتیں ہیں جس کی وجہ سے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔آدمی کی عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے خراب عادتوں سے چھٹکارا پانااس کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوجاتا ہے۔مولانا روم اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے راستے میں ایک خاردار درخت بویا۔راستہ چلنے والوں کو اس سے تکلیف پہنچنے لگی۔راہ گیروں نے جب اس شخص سے درخت کاٹنے کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ وہ آئندہ برس اسے کاٹ دے گااور آئندہ برس اس نے درخت کی کٹائی کو مزید ایک اور سال تک موخر کردیا۔یہ سلسلہ کئی سالوں تک یوں ہی چلتا رہاجس کے نتیجے میں درخت ہرسال بڑھتا رہا اور اس کی جڑیں مزید مضبوط اور گہری ہوتی گئی جب کہ لگانے والا آدمی ہر سال کمزور اور ضعیف ہوتا گیا۔ہماری حالت بھی اسی خاردار درخت بونے والے شخص کی مانند ہے کیونکہ انسان میں عادات وصفات روز بہ روز پختہ تر ہوتے جاتے ہیں اور اس کے ارادے اور حوصلے وقت کے ساتھ کمزور ہوتے رہتے ہیں۔
خار بن در قوت و برخاستن
خارکن درسستی و درکاستن
خار دار درخت قوی اور بلند ہوتا رہتا ہے۔جبکہ کانٹے اکھاڑنے والا کمزور ی اور ضعف کی طرف مائل ہوتا ہے(مثنوی مولانا روم)۔‘‘اصلاح نفس یعنی عادت گیری کے لئے بوڑھاپے سے جوانی اور جوانی سے بچپن بہتر ہے۔ طلبہ اپنی ابتدائی عمر میں ہی بری عادتوں کو ترک کردیں۔بری صحبتوں اور بری عادات سے ہمیشہ پرہیز کریں۔بہت سارے طلبہ عزم و ارادے کی کمزوری اور قوت فیصلہ کے فقدان کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔بارہا کوشش و عزم کے باوجود مذموم و ناپسندیدہ عادات سے چھٹکارا پانے سے وہ خو د کو عاجز پاتے ہیں۔طلبہ ہمیشہ ایک بات ذہن میں رکھیں کہ خصائل رذیلہ سے چھٹکارا پانا ناممکن نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ سورہ عنکبوت میں فرماتے ہیں’’اور جنہوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم انہیں ضروراپنی راہیں سمجھا دیں گے،اور بے شک اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘(سورہ عنکبوت آیت نمبر 69) خراب عادتوں سے نجات پانے کی طلبہ کی یہ کاوشیں ان میں جستجو و جد و جہد کا مادہ پیدا کردیتی ہے اور آگے چل کر وہ سرکش نفس کو قابو پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
شخصیت انسان کے ظاہری وباطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات (Personality Attributes)کے مجموعہ کا نام ہے۔ اگر کوئی ہم سے کسی کے بارے میں دریافت کرے تب ہم فوراً اس انسان میں پائے جانے والے چند صفات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ محنتی،وقت کا پابند ،ذہین ،مخلص ،غصہ وریاجھگڑالو ہے ۔ بچوں کو خراب پہچان اور برے تعارف سے بچانے کے لئے انھیں منفی عادات و اطوار جیسے تکبر ،جھوٹ بولنا، غصہ کرنا،تساہل برتنا،غیبت کرنا ،چوری کرنا،گالی دینا،وعدہ خلافی کرنا ،وقت کی ناقدری کرنا،لعنت کرنا،شکایت کرنا،دوسروں کے عیبوں کی تشہیر کرنا،کسی کا مذاق اڑانااور معمولی معمولی باتوں پر ترک تعلق کرنا سے بچانا بے حد ضروری ہے۔دنیا میں صرف انسان کی اصلاح کے ذریعہ ہی امن و سکون اور محبت کی فضا پیدا کی جاسکتی ہے اور انسان کی اصلاح کا بہترین دور اس کا بچپن اور نوجوانی ہے۔والدین،اساتذہ اور تعلیم و تربیت سے وابستہ افرادوادارے بچوں کو اچھی عادات اپنانے میں مدد کریں ۔بچوں کو نماز کا عادی بنائیں تاکہ اللہ کے ساتھ ان کا اٹوٹ تعلق استوار ہو جائے۔مطالعہ کی عادت کو ایسے پروان چڑھائیں کہمطالعہان کا اوڑھنا بچھونا بن جائے۔ہم سب جانتے ہیں کہ علم میراث میں نہیں ملتا بلکہ اس کے حصول کے لئے کتابوں سے دوستی کرنی پڑتی ہے اور مطالعہ کو حرز جاں بنانا پڑتا ہے عادت ڈالیں کہ جب کبھی کوئی نیا لفظ سامنے آئے تب وہ اسے جاننے اور سیکھنے کی کوشش کریں اور اسے اپنی تحریر و گفتگو میں استعمال کریں تاکہ وہ الفاظ ان کے ذہن میں پیوست ہوجائے۔یہ عادت ذخیرہ الفاظ بڑھانے میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔۔ پاک و صاف رہنے کی عادت صحت و تندرستی کے لئے بہت ہی اہم ہوتی ہے اسی لئے بچوں کو صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں۔ باقاعدگی سے روزانہ تھوڑی دیر ورزش کرنا ایک بہترین عادت ہے۔ بسیاری خوری(خوب کھانے )سے پرہیز کرنا چاہئے اور حسب ضرورت کھانا ایک عمدہ عادت ہے ۔بچوں کو اہل علم کی محفلوں میں لے جائیں اور ان میں اٹھنے بیٹھنے کی تلقین کریں۔ لوگوں سے میل ملاپ ،ملنا جلنا،خوشی اور غم میں شریک ہونا آدھی ذہانت کہلاتا ہے۔ لیکن خیال رہیں کہ میل میلاپ ملنا جلنا توازن میں رہے ۔حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں’’کم بولناحکمت ہے،کم کھانا، کم سونا عبادت اور عوام سے کم ملنا عافیت ہے۔‘‘اللہ کی نعمتوں سے فیض اٹھانا چاہئے لیکن اسراف سے بچنا چاہئے۔بچوں کو فضول خرچی کی عادت میں گرفتار ہونے سے محفوظ رکھیں۔ بچوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھادیں کہ محنت سے کمائی ہوئی حلال روزی بہت بڑی نعمت ہے۔نعمتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔بچوں میں عزت نفس اور بزرگواری کی روح پیدا کی جائے۔عزت نفس انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اللہ رب العزت نے یہ گوہر ہر انسان کی ذات میں ودیعت کیا ہے جس کی حفاظت اور نگہداشت ہر ایک کے لئے لازم ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں جابر و ظالم حکمران عوام کے استحصال اور ان کو اپنا تابعدار بنانے کے لئے سب سے پہلے ان کی عزت نفس کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کی شخصیت کی تحقیر کرتے ہیں اس بارے میں قرآن فرماتا ہے ’’پس اس نے(فرعون) نے اپنی قوم کو احمق بنادیا اور وہ اس کے کہنے میں آگئے کیونکہ وہ بدکار لوگ تھے۔‘‘(سورہ الزخرف54)
’’عادت یا توبہترین خادم ہوتی ہے یا بدترین آقا‘‘اچھی عادتیں اختیار کرتے ہوئے صحت،روزگار اور زندگی کو بہتر اور خوش گوار بنایا جاسکتا ہے۔اچھی عادتوں کے حامل افراد اکثر خوش طبع واقع ہوتے ہیں۔طلبہ بری عادتوں کو اچھی عادات سے بدلتے ہوئے زندگی میں اعلیٰ کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی جو ہدایت انبیاکے ذریعے نازل کی ہیں ان کا بنیادی مقصد ہی انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی ہے جسے ’’تزکیہ نفس‘‘ کہاجاتا ہے۔ ’’وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں ایک رسول انہی میں سے اٹھایا ہے جو اس کی آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور (اس کے لئے) انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘َ (سورہ الجمعہ ) انسان میں مجموعی طور پر دو قسم کی صفات پائی جاتی ہیں (1)غیر اکتسابی یا فطری صفات جیسے رنگ،نسل،شکل و صورت ،جسمانی ساخت و ذہنی صلاحیتیں وغیرہ (2)اکتسابی صفات جو انسان میں ازخود یا پھر ماحول کے زیر اثر پروان چڑھتی ہیں جن میں روزمرہ کی انجان طور پر درآنے والی عادات، انسان کی علمی سطح، اس کا پیشہ، اس کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔ ان دونوں صفات کے فروغ کو تعمیر شخصیت یا شخصیت سازی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اپنی شخصیت کو دلکش بنانے کے لئے ضرور ی ہے کہ ہم قدرتی صفات کو پروان چڑھانے کے ساتھ اکتسابی صفات کی تعمیر بھی جاری رکھیں۔قدرتی صفات کو پروان چڑھانے اور اکتسابی صفات کے فروغ کے لئے بری عادات کی اچھی عادات سے تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔صبح خیزی کیخواہش مند رات کو جلد سوجائیں تاکہ وہ صبح خیزی اور چہل قدمی کی اچھی عادت اپناسکیں۔بری عادتوں کی تبدیلی کے لئے ابتداً چھوٹے چھوٹے مثبت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔اگرآپ کو صبح 5 بجے اٹھنا ہے اور آپ اس کے عادی نہیں ہے تب شاید یہ آپ کے لئے ممکن نہیں ہوگا اس لئے 5بجے کے بجائے بتدریج 7اور اسی طرح 6بجے نیند سے بیدار ہوجائیں تب صبح 5بجے اٹھنا مشکل نہیں ہوگا۔ ایک قدم اٹھائیے اور اس پر ثابت قدمی سے جم جائیے اور بری عادات کو ختم کرتے جایئے بعد میں ایک ایسا وقت آئے گا کہ اچھی عادتیں بغیر کسی دقت و پریشانی کے آپ کی ذات میں جمع ہوتی جائیں گی۔بچوں کی کامیاب زندگی کے لئے والدین اور اساتذہ خراب عادتوں کو ان کی ذات سے نکال کر اس کی جگہ اچھی عادتوں کو جگہ دیں۔ طلبہ دیرتک سونا،دیرتک جاگنا،کام میں تساہل کرنا،جلد فیصلہ نہ کرنا جیسی خراب عادات کوترک کرتے ہوئے اچھی عادات ایمانداری،عاجزی،صبر،ذمہ داری کا احساس،سخاوت کو اپنا کر زندگی میں فقیدالمثال کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے اعلیٰ مقام اور خلیفہ فی الارض کے منصب جلیلہ پر فائزہ کیا ہے تو ضروری ہے کہ انسان اس منصب کا لحاظ رکھے اور خود کو کسی عادت یا سہولت کا غلام نہ بنائے۔والدین ،ذمہ داران مدارس اور خاص طور پر اساتذہ بچوں میں تعلیم و اکتساب میں فروغ کے لئے اعلیٰ و عمدہ عادات جیسے فکرو تدبر کی عادت،مطالعہ کی عادت،بہتر گفت و شنید کی عادات اور منظم خود کار مطالعہ کی عادات کو فروغ دیں۔بچوں میں عمدہ عادت سازی کے لئے والدین،گھر کے دیگر افراد اور اساتذہ کا کردار مثالی ہونا چاہئے۔ والدین اور اساتذہ کی حیثیت ایک رول ماڈل(مثالی اسوہ ) کی ہوتی ہے۔طلبہ کی زندگی کو بلندی اور معنویت عطاکرنے کے لئے ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ کی زندگی مثالی ،اعلیٰ اور معیاری ہو۔بچے اپنے والدین اور اساتذہ کی حرکات و سکنات اور عادات و اطوار کا نہ صرف مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ انہیں اپنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں اس لئے والدین اور اساتذہ ایسے تمام عادتوں اور خصائل سے متصف ہوں جنہیں وہ بچوں کو اپنانے کی ترغیب دیتے ہیں ۔والدین،اساتذہ،ذمہ دارن مدارس ،تعلیم و تربیت اور ملک و ملت کی تعمیر سے وابستہ افراد بچوں کی تربیت ابتدائی عمرسے ہی اس انداز و منہج سے انجام دیں کہ وہ معاشرے کے لئے ایک سرمایہ و اثاثہ بن جائیں ۔ مذکورہ ذمہ داران کی کوتاہی اور تساہل سے اگر بچے بری عادتوں کا شکار ہوجائیں تب وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے ۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں