تیس سال پہلے والے کراچی کیلیے 30سال پراناماحول بھی چاہیے

کراچی دنیا کے بڑے شہروں میں شمارہونے والا ایک شہر ہے جس کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 2کروڑ یا اس سے زیادہ شمار کی جاتی ہے۔کلاچی سے کراچی بنتے بنتے اس شہر نے کئی نشیب وفراز دیکھے۔ لیکن اس شہر کی بدقسمتی ہی رہی ہے کہ آج بھی اسے ان گنت مسائل کا سامنا ہے ‘عوام کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانے کے لیے پہلے زمانے میں ٹراما اور بیل گاڑیوں کا استعمال کیاجاتا تھا ‘لیکن آج جدید دورمیں آنے کے باوجود بھی کراچی کو ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام میسر نہیں۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر سلسلہجوں کا توں ہی ہے جیسا کہ آج سے پہلے چل رہا تھا۔ 2کروڑ آبادی والے اس شہرکو پرائیوٹ کوچ مالکان کے رحم وکرم پر چھوڑا ہوا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ صبح گھر سے دفتر کے لیے نکلنے والا شخص روزانہ کم از کم 4سے 6گھنٹے اس پرائیوٹ کوچز میں گزارتا ہے ۔اس شہر میں نہ تو ہرشخص کے پاس موٹر سائیکل ہے اور نہ موٹر کار‘ اور جن کے پاس موٹر سائیکل یا موٹر کار ہے وہ بھی بدترین ٹریفک میں کم از کم روزانہ 2سے 4گھنٹے سڑکوں پر گزارتے ہیں۔پرائیوٹ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے ہر روز بدتمیز ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کے ہاتھوں الگ ذلیل ہورہے ہیں۔ لیکن انہیں پوچھنے والا بھی اس شہر میں کوئی نہیں۔ نہ ہی ہماری ٹریفک پولیس میں اتنی جرات ہے کہ وہ ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرسکے۔ یہ لوگ اتنے طاقت ور ہیں کہ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ کرائیوں میں اضافہ بھی ان کی مرضی کا ہی ہوتا ہے اور جس میں ان کی مرضی شامل نہ ہو تو وہ زبردستی عوام سے من مانی کرکے اپنا ڈبل منافع وصول کرلیتے ہیں۔ بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والے ان ڈرائیوروں کو معلوم ہے کہ روزانہ 200روپے ان ٹریفک پولیس والوں کو دے کر اپنا کام چلایا جاسکتا ہے اور جن کے پاس لائسنس ہے انہیں بھی معلوم ہے کہ کسی بھی غلطی کاازالہ صرف 200روپے میں کیاجاسکتا ہے۔


کراچی کو ایک بااختیار میئر کی ضرورت ہے مگر شاید اس کی قسمت میں ایسا کبھی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس شہر میں کوئی بھی کام سیدھے طریقے سے نہیں ہوا۔ ہر کام میں رکاوٹ ‘ہرکام میں بدانتظامی ‘ہر کام میں رشوت خوری جیسے عوامل شامل ہی رہتے ہیں۔ مفاہمت کی سیاست نے جہاں ملک کو اورقوم کو نقصان پہنچایاہے وہیں کراچی کو بھی بدترین مسائل کی آماجگاہ بنادیاگیا ہے۔ سیاست میں کراچی سمیت پورے سندھ کو ٹرپ کے پتے کے طورپر دیکھاجاتا ہے۔ جو ادارے شہری حکومت کے پاس ہونے چاہیں وہ صوبائی حکومت نے اپنی بگل میں دبائے ہوئے ہیں۔ اور صوبائی ارکان جنہیں صرف اپنی سیکورٹی کی پرواہ رہتی ہے انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ شہر میں کیا ہورہاہے اور شہری کن کن مسائل کاسامنا کررہے ہیں۔
کراچی کے بڑے مسائل میں جہاں ٹرانسپورٹ ‘پانی ،گندگی،تجاوزات شامل ہے وہیں سب سے بڑا مسئلہ آلودگی بھی ہے جس پر ماہرین چیخ چیخ کر ہلکان ہورہے ہیں مگر متعلقہ ادارے تاحال سکون کی بانسری بجا رہے ہیں۔13نومبر 2018کو عالمی انڈیکس اے کیو آئی نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں اس وقت کراچی کی فضا ئی آلودگی کوانتہائی خطرناک درجے پرپایاگیا،رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی کی فضا میں آلودگی 331 درجے تک پہنچ چکی ہے جو انتہائی خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔درجہ بندی کے مطابق 151 سے 200 درجے تک آلودگی مضرِ صحت ہوتی ہے جب کہ 201 سے 300 درجے تک انتہائی مضر صحت اور 301 سے زائد درجہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ انڈیکس کے مطابق اس وقت کراچی میں یہ 331 درجے ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ کراچی میں فضائی آلودگی خطرناک زون میں داخل ہوچکی ہے۔


گرین کراچی کے نام پر ہمیشہ کروڑوں روپے ہڑپ کیے گئے ،مگر اس پر کہیں بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی،اور اگر کہیں آواز اٹھائی بھی گئی تو اس پر نہ تو کوئی ایکشن لیاگیا اور نہ ہی کوئی کارروائی کی گئی۔ شجرکاری مہم ہر سال بڑے زور وشور سے شروع کی جاتی ہے لیکن آج تک اس کاکوئی سر پیر نظر نہیں آیااور نہ یہ نظرآیا کہ جہاں شجر کاری مہم شروع کی گئی تھی وہاں ایک سال بعد پودوں اور درختوں کی کیا صورت حال ہے، اور نہ اس پر اب تک کوئی رپورٹ پیش کی گئی ۔ 2017میں گرین لائن بس سروس روٹ پر آنے والے درختوں کی کٹائی پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انتہائی برہمی کا اظہار کیا تھااورایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں متعلقہ حکام سے اس پر فوری رپورٹ طلب کرکے ہدایت جاری کی کہ جتنے درخت کاٹے گئے ہیں اس سے 200گنادرخت اضافی لگائے جائیں ،جو کم وبیش 2کروڑ درخت بنتے تھے۔لیکن اس رپورٹ اور ہدایت کا بھی کسی پر کوئی اثر نہیں ہوااور آج وہاں درخت تو درکنار کہیں ایک پودا بھی نہیں لگایاگیا۔

فضائی آلودگی کے معاملے پر جو ہوا سو ہوا،لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آبی آلودگی پر بھی اب تک کوئی کام نہیں کیاگیا،جہاں منافع خوروں نے درختوں کو کاٹ کر عیش وعشرت کا ساماں بنا کر شہر کو آلودہ کردیا وہیں ساحلوں پر آباد ماہی گیروں نے مینگروز کو کاٹ کر آبی حیات کے خاتمیکے ساتھ ساتھ زلزلوں اور طوفانوں کا ساماں پیدا کردیا۔ جس طرح درخت ہمارے لیے ایک نعمت سے کم نہیں وہیں آبی حیات کی بقا کے لیے مینگروز بھی کسی رحمت سے کم نہیں۔
بوٹ بیسن بے نظیر بھٹو شہید پارک کی تعمیر کے بعد وہاں پر سمندری راستے کو بند کرکے آبی حیات پر پہلا بے رحمانہ اقدام کیاگیا جس کے بعد آج پارک تومحض چند سو فٹ پر ہی رہ گیا ہے باقی چائنا فیسٹیول اور دیگر پارٹیز کے نام منسوب کرکے پارک کے آدھے سے زائد حصے کوآمدن کا حصہ بنالیاگیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ پارک کے ساتھ سمندرکے راستے کو بند کرنے کے بعد اب وہاں پر صفائی کا کام جاری ہے جس کے بعد اس حصے کو مٹی سے بھر کر زمین ہموار کردی جائے گی۔ بینظیر بھٹوشہید پارک کے سامنے روڈ پارہجرت کالونی کے پیچھے والا حصہ ہے جہاں ہجرت کالونی سمیت آس پاس کی دیگر آبادیوں کا سیوریج کا پانی بنا کسی روک ٹوک کے سمندر کی نظر کرکے آبی حیات کو مکمل ختم کردیاگیا ہے۔


چیف جسٹس آف پاکستان نے جہاں تجاوزات کے خلاف ایکشن لیا ہے وہیں اس شہر کی ایک فریاد یہ بھی ہے کہ اگر 30سال پہلے والا کراچی چاہیے تو 30سال پہلے والا ماحول بھی اس شہر کو دیاجائے، ورنہ 30سال پہلے والے کراچی کو واپس لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں