مثالی طالب علم کے اوصاف ،مطالعہ اسلام کی روشنی میں

اللہ رب العزت نے انسان کو دیگر مخلوقات سے علم اور سمجھ بوجھ کی بناء عظمت و برتری عطافرمائی ہے۔انسانی زندگی کا اہم مقصداپنے آپ کو علم یعنی سمجھ بوجھ سے آراستہ کرنا ہے ۔علم اورسمجھ بوجھ کے حصول کے لئے کی جانے والی انسانی جد وجہد کو تعلیم کہا جاتا ہے۔تعلیم کی وجہ سے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کی دستار فضیلت سے سرفراز کیا گیا ہے۔ایک طالب علم جب اپنے طالب علمی کے زمانے(دس تا پندرہ سال) کو شرائط و آداب کے مطابق گزارتا ہے تب وہ اللہ کے رحم و کرم کی بدولت علم و ایقان ،دانشوری و ہوش مندی،اور تربیت و اخلاق کی وجہ سے معاشرے میں اہم مقام پر فائز ہوتا ہے۔جب طلبہ اپنے طالب علمی کے دور کو اصولوں اور آداب کے مطابق گزارتے ہیں تب اللہ رب العزت ان سے دوسروں کی ہدایت و رہبری اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے کام لیتا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصول و آداب کی اگر پابندی نہ کی جائے تب بڑے سے بڑے کام بھی مفید نتائج فراہم نہیں کر پاتے ہیں۔دوا کے ساتھ ہمیشہ پرہیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔مریض معالج کی تجویز کردہ بہتر سے بہتر دواؤں کو استعمال کرتا رہے اور معالج کی ہدایات سے سرموئے انحراف یعنی بد پرہیزی میں ملوث ہو تب مریض کو علاج کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔کسی بھی کام میں کمال اور مہارت حا صل کرنے کے لئے دو چیزوں کو نہایت اہم گردانا گیا ہے۔ (1)تحقق شرائط کرنے والے کام( Dos) سے مراد، کسی بھی کام کی انجام دہی میں ان تمام شرائط کو بروئے کار لانا جو کام کی احسن طریقے سے تکمیل کے لئے ضروری ہوں۔ (2)ارتفاع موانع نہ کرنے کے کام Donts)) سے مراد کسی بھی کام کی انجام دہی میں رکاوٹ پیدا کرنے والے امور و عناصر سے پرہیز و اجتناب ۔ طلبہ قوم و ملت کے نگہبان و پاسبان ہوتے ہیں اورمستقبل کے معاشرے کی تشکیل میں یہ کلیدی کردار انجام دیتے ہیں اسی لئے ایک کامیاب طالب علم اور انسان کے لئے اپنے کام اور امور کی احسن تکمیل کے لئے تحقق شرائط اور ارتفاع موانع کا لازمی طور پر خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر طالب علم ان دو باتوں کا خیال رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تب ناکامی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ طلبہ ہوں یا دیگر افراد، جب ان دو امور پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں تب وہ اپنے علم و مہارت میں کمال و عروج حاصل کرلیتے ہیں۔طلبہ کی سب سے اہم ذمہ داری اپنے ایمان اور فکر کی اصلاح کے ذریعہ پاگیزگی کا حصول ہے۔طلباء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خالق ،رازق اور پاسبان کے حقوق کی ادائیگی کے علاوہ تخلیق کے پوشیدہ اسرار کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ابدی زندگی میں رحمت خداوندی کے حقدار ٹھہریں۔اس مضمون میں طوالت سے احتراز کو مد نظر رکھتے ہوئے طلبہ کے لئے تحصیل علم میں پسندیدہ شرائط و مفید عناصر (Dos) کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
تحقق (Dos):معاشرتی زندگی میں تبدیلیوں کا اثر تعلیم پر بھی مرتب ہو ا ہے۔تخصیص (specialisation) کی وجہ سے تعلیمی میدان میں بھی مختلف شعبے وجود میں آئے ہیں۔جدید تعلیمی تحقیق نے جہاں ترقی و تمدن کی نئی راہیں متعین کی ہیں وہیں مقصد تعلیم پر بھی کار ی ضرب لگائی ہے۔جدید تعلیم میں کیرئیر سازی کے رجحان نے مقصد تعلیم کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ حصول علم کا مقصد جہاں زندگی کی رہبری اور شاہراہ زندگی کی سمتوں کو معتین کرناتھا وہیں خود غرضی اور مالی منفعت کے رجحان نے روح تعلیم کو مجروح کردیا ہے۔جو تعلیم انسان کی اصلاح کا مادہ نہیں رکھتی ہے وہ محض ایک بو جھ ہوتی ہے اور وہ جدید علوم جنھیں ہم سائنس سے تعبیر کرتے ہیں اگر وہ انسان کو حقیقی مقاصد کی جانب گامزن نہ کریں تب وہ ایک فریب سے کم نہیں ہے۔حصول علم کے لئے طلبہ ذیل میں بیان کردہ اوصاف سے خود کو متصف کرتے ہوئے نہ صرف ایک مثالی طالب علم بن سکتے ہیں بلکہ ایک کامیاب زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ (1)حصول علم کا مقصد ؛حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ ایک جگہ سے گزر رہے تھے تب ان کی ایک لڑکے پر نظر پڑی جس کے چہرے سے ذہانت مترشح تھی۔آپؒ نے لڑکے سے پوچھا ’’کچھ پڑھا بھی ہے یا یوں ہی اپنا وقت اور عمر برباد کر رہے ہو؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا ’’کچھ زیادہ تو نہیں پڑھا ہے بس چار باتیں سیکھی ہیں۔‘‘ آپ ؒ نے پوچھا ’’کونسی‘‘ کہنے لگا’’سر کا علم،کانوں کا علم،زبان کا علم اور دل کا علم حاصل ہے۔‘‘آپ ؒ نے کہا مجھے بھی کچھ بتاؤ ۔لڑکے نے کہا ’’سر اللہ تعالی کے سامنے جھکانے کے لئے ہے،کان اللہ کا کلام سننے کے لئے ہیں،زبان اس کے ذکر کے لئے ہے اور دل اللہ کی یاد بسانے کے لئے۔‘‘حضرت عبداللہ ابن مبارک ؒ لڑکے کے حکمت آمیز کلام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس سے نصیحت کے لئے کہا۔لڑکے نے آپ ؒ سے کہا آپ مجھے شکل سے عالم معلوم ہوتے ہیں اگر علم اللہ تعالی کے لئے پڑھا ہے تو پھر اللہ تعالی کے علاوہ کسی سے کبھی امید نہ رکھنا۔‘‘ اس واقعہ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ علم کا حصول ایک عبادت ہے اور اس کی قبولیت کا دارو مدار اخلاص و للہیت پر منحصر ہے۔حصول علم کا مقصد خود آگہی اور خدا آگہی ہونا چاہیئے نہ کہ دنیا کے حقیر مقاصد کا حصول۔ دور حاضر کے مادہ پرستانہ ماحول میں طلبہ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ انھیں کیا ،کب اور کسیے سیکھنا ہے۔ علم طلبہ میں اس شعور کو جاگزیں کرے کہ وہ کون ہیں،یہ دنیا کیا ہے،زندگی اور موت ان سے کیا چاہتی ہے،اسے دنیا میں کس نے اور کیوں بھیجا ہے،اور اس دنیاوی سفر میں اس کا ہادی ،رہبر اور رہنما کون ہے۔ (2)علم کی سچی طلب اور شوق؛طالب کے لغوی معنی ہی کا م کے تئیں فکر کے ہے۔جہاں طلب ہو وہاں بے فکر ی کا وجود محال ہے۔طلب اور بے فکری دونوں یکجا نہیں ہوسکتے ہیں۔طالب علم کے دل میں ہمیشہ جذبہ حصول علم کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہو،اور دل ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہے کہ جب تک اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو وہ بیکل اور مضطرب رہے اور اپنے مقصد کے حصول تک مسلسل تگ و دو کرتا رہے۔اس سلسلے میں اما م یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ’’علم ایک ایسی چیز ہے کہ جب تم اپنی ساری زندگی اس کے لئے وقف کردوں گے تب جاکر علم تم کو اپنا بعض حصہ دے گا۔جب اس کا بعض حصہ تم کو مل جائے تو اس پر تکیہ کر کے مت بیٹھ جاؤ،بلکہ مزید حاصل کرنے کی کوشش کرو۔‘‘(3) وقت کی قدر و اہمیت اور انضباط اوقات:نہ صرف طلبا ء کے لئے بلکہ ہر انسان کے لئے وقت ایک عظیم نعمت ہے۔طلباء اپنے وقت کی حفاظت کریں اور اسے بیکار اور فضول کاموں میں برباد نہ کریں۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑدے۔طالب علموں کے لئے فضول اور لایعنی امور سے پرہیز لازمی ہے تاکہ ان کی قابلیت اور لیاقت میں اضافہ ہوسکے۔ (4)مسلسل محنت و جد وجہد؛دنیا دارالاسباب ہے اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لئے انسان کو اسباب اختیار کرناپڑتا ہے۔اسی لئے اسباب کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ مسبب الاسباب ہے اور ہر چیز اللہ کے قبضے قدرت میں ہے اسی لئے صرف اسباب کو اختیار کرتے ہوئے دنیا کی کامیابی تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن آخرت کی کامیابی کا انحصار ایمان والی زندگی پر منحصر ہے۔اللہ تعالی انسان کو اسی محنت اور لگن کے بقدر عطا فرماتے ہیں۔ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین(اللہ اخلاص کے ساتھ محنت کرنے والوں کی محنت ضائع نہیں کرتے )اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں محسنین کا لفظ استعمال کیا ہے ۔محسن کا لفظ احسان سے مشتق ہے اور احسان کے معنی ہے خوب اچھا کرنا۔کسی کام کو خوب اچھا کرنے کے لئے جد و جہد ،سعی عمل،شغل تمام ضروری ہوتے ہیں۔شرعی اصلاح میں احسان اخلاص اور للہیت کو کہتے ہیں۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کبھی محسنین کی محنت کو اکارت نہیں کرتے ہیں بلکہ انسان کو اس کی سعی و کاوش کے مطابق عطاکرتے ہیں۔جو طلباء جتنی محنت کریں گے اللہ تعالی ان کو اتنا ہی علم کی دولت سے مالا مال کردیں گے۔ لیکن طلبا جد و جہد اور سعی و جستجو صرف رضا الہی کے لئے کریں کیونکہ حصول علم کا مقصد و مطلوب خود آگہی اور خد�آگہی ہے اور ان صفات کی بدولت ہی علم کو نعمت قرار دیا گیا ہے ۔طلبہ میں اخلاص اور للہیت کا فقدان علم نافع کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔محنت کے ساتھ طلباء کے لئے مطلوبہ صفات اخلاص ،تواضع ،ادب ،حسن اخلاق ،معصیت سے دوری حصول علم کے لئے ضروری گردانے گئے ہیں۔طلبہ میں جب تک محنت کا جویا نہیں پیدا ہوگا ان میں تحصیل علم کا جذبہ بھی نہیں پیدا ہوگا۔محنت کے بل پر ہی حصول علم کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ حصول علم کے معاملے میں ہمارے اسلاف کی محنت ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ حضرت سعدی شیرازی ؒ کے احوال میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی اہلیہ نے بے مزہ کھانا بنانے کی شکایت پر آپ کی کم علمی کا طعنہ دیتے ہوئے ان کے سر پر چمچہ دے مارا اور سر کو زخمی کردیا۔آپ اس تذلیل پر بڑے دلگیر ہوئے اور تحصیل علم کے لئے نکل پڑے ۔اس وقت آپ کی عمر چالیس سال سے متجاوز تھی۔کبر سنی کی وجہ سے حصول علم میں تلفظ کی ادائیگی میں بڑی تکلیف اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔زبان سے مشکل الفاظ کی ادائیگی میں بہت زیادہ دقت ہوتی اور ساتھیوں کے مذاق کی وجہ سے سبکی محسوس کرتے۔ایک مرتبہ حصول علمکے دوران پیش آنے والی سبکی اور طعن و تشنہ سے رنجیدہ خاطر ہوکر خودکشی کی ٹھانی اور کنویں پر جا پہنچے تاکہ زندگی کا خاتمہ کرلیں۔کنویں میں چھلانگ لگانے سے قبل آپ کی نظر کنویں کی چرخی پر پڑی ۔دیکھا کہ کنویں سے پانی نکلنے کی وجہ سے چرخی رسی سی کھس گئی ہے۔تبھی خیال آیا کہ رسی جیسے نازک چیز لوہے کو کاٹ سکتی ہے تو پھر میرے لئے حصول علم اور مشکل الفاظ کی ادائیگی بھلا کیسے مشکل اور ناممکن ہوسکتے ہے۔اس خیال کے آتے ہی آپ نے حصول علم کا ازسر نو عزم باندھا اور تمام لگن اور محنتکے ساتھ تحصیل علم میں مصروف ہوگئے ۔ اللہ تعالی نے آپ کو آپ کی محنت کا بہترین صلہ عطا فرمایا۔ کیونکہ اللہ تعالی کام کرنے والوں کی محنت کو ضائع نہیں کرتا(ان اللہ لا یضیع اجر العاملین)۔صدیاں گزرنے کے باوجو د آج بھی حضرت سعدی شیرازی ؒ کی حکمت اور دانائی کی دنیا معترف ہے۔آپ کی محنت نے بڑی عمر کے باوجود آپ کو اقلیم علم و ادب کا سردار بنادیا۔حصول علم کے لئے سخت محنت درکار ہوتی ہے۔محض آرزؤں اور تمناؤں سے اس کا حصول ممکن نہیں ہے۔محنت کے بل پر ایک ادنی طالب علم،بلند درجات حاصل کر لیتا ہے۔ شیخ یحی جنھیں اما م النحو کہاجاتا ہے ایک ملاح تھے لیکن علم سے بہت زیادہ شغف رکھتے تھے ۔عمر عزیز جب چالیس سال سے زیادہ ہوئی تب حصول علم کا عزم کیا لیکن اپنی عمر کی وجہ سے پس و پیش کرنے لگے۔ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنے منہ میں کھجور کی گٹھلی لے کر بلندی کی طر ف بڑھ رہی ہے اور بارہا ناکامی کے باوجو د اپنی سعی و کوشش جاری رکھے ہوئے ہے اور آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے۔اس منظر کو دیکھتے ہی شیخ یحیی تحصیل علم کا عزم کر لیتے ہیں اور اپنی کشتی کو بیج کر علم کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اپنی شبانہ روز محنت اور کوشش کے ذریعہ زبان ،بیان،نحو،لغت اور منطق کا علم حاصل کرنے میں نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ ان علوم پر آپ کی دسترس کی آج بھی دنیا معترف ہے اسی لئے آپ کو امام النحو کہاجاتا ہے۔ایک مثالی طالب علم کی پوری زندگی جدو جہد سے عبارت ہوتی ہے۔تساہل،کاہلی ،بزدلی جیسے منفی صفات جب ایک مثالی طالب علم کے آگے سر اٹھاتے ہیں تب وہ اپنی اولوالعزمی سے ان تمام منفی جذبوں کو کچل دیتا ہے۔ طالب علم حرکت اور تحریک کا ایک مثالی نمونہ ہوتا ہے۔یاوہ گوئی ،فضول اور لایعنی کاموں سے ایک مثالی طالب علم ہمیشہ خو د کو دور رکھتا ہے۔(5)اولعزمی،بلند ہمتی؛ اعلی نصب العین ایک اعلی کردار کو پیدا کرتا ہے جب کہ ایک ادنی نصب العین ایک گٹھیا کردار کو جنم دیتا ہے۔حو صلہ ،امنگیں،امید اور خو داعتمادی ایک مثالی طالب علم کے ہتھیار ہوتے ہیں۔مذکورہ صفات کی کمی طلبہ میں احساس کمتری کا باعث ہوتی ہے۔ ایک مثالی طالب علم کے لئے مسلسل جدو جہداور محنت کے ساتھ بلند ہمتی (اولعزمی) نہایت ضروری ہے۔اگر طالب علم خو ب محنت کرے لیکن اس میں بلند ہمتی نہ ہو ،تب بھی وہ زیادہ علم حاصل نہیں کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ طالب علم میں ہمت اور بلند حوصلگی ہواور محنت کا فقدان پایا جائے تب بھی وہ علم حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔علم ایک قیمتی شئے ہے اور ہر قیمتی شئے کے حصول میں محنت اور بلند ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ مسلسل محنت ،راحتوں اور لذتوں کو چھوڑنے سے ہی علم حاصل ہوتا ہے۔ (6)کتب بینی اور مطالعہ کی عادت:مثالی طالب علم ہمیشہ اپنا تعلق کتابوں سے استوار رکھتا ہے۔روزآنہ ایک مقررہ وقت پر باقاعدہ مطالعہ کرتا ہے۔روزآنہ باقاعدہ مطالعہ کی عادت سے علم میں اضافہ کے ساتھ پختگی پیدا ہوتی ہے۔ جماعت میں سبق کی تدریس سے قبل سبق کے مطالعہ سے نہایت فائدہ ہوتا ہے۔روزآنہ اسباق کے مطالعہ کابلاناغہ اہتمام کرنے سے سبق اچھی طرح ذہن نشین اور محفوظ ہوجائے۔ جماعت میں سبق کی تشریح و تفہیم(استاد کے درس ) کو ایک مثالی طالب علم نہایت انہماک اور دلجمعی سے سماعت کرتا ہے کیونکہ سبق کا اعادہ اور تکرار نفس مضمون کو سمجھنے اور مضمون میں مہارت پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔حصول علم میں یکسوئی اور انہماک کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔مشہور مقولہ ہے کہ’’علم اس وقت تک اپنا تھوڑا سا حصہ بھی نہیں دیتا ہے جب تک کہ طالب علم اپنے آپ کو پورے کا پورا علم کے حوالہ نہ کردے۔‘‘ کتابوں کے انتخاب اور مطالعہ میں سلیقہ مندی اور ترتیب پیدا کرنے کے لئے طلباء اساتذہ سے رہنمائی حاصل کریں۔تن آسانی، سہل پسندی،اور آرام طلبی نہ صرف زمانہ طالب علمی بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر نقصاندہ ثابت ہوتی ہے۔جب یہ عادتیں طلبہ پر حاوی ہونے لگیں تب ان کو مطالعے میں خوب وقت لگانے کی ضرورت ہوتی ہے خواہ انھیں اپنی عادت سے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔نفس پرستی یا نفس سے مصلحت کا طریقہ شخصیت کے ارتقاء اور ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک مثالی طالب علم کے لئے فکری عمل (تطبیق) اور تنقیدی فکر بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ ہر بات کو آنکھ اور کان بند کر کے قبول نہ کرسکے ۔(7)ادب و احترام؛مثالی طالب علم کے لئے استاد اور علم سے متعلق تما م اشیاء کا ادب و احترام لازم ہوتا ہے۔تحصیل علم میں جب تک تین آداب (a)استاذ کا ادب (b)درس گاہ اور مسجد کا ادب (c)کتاب کے ادب کو ملحوظ نہ رکھا جائے تب تک طالب علم کی نہ صلاحیتیں نکھرتی ہیں،نہ استعداد جلا پاتی ہے اور نہ ہی اس کو روحانی ترقی حاصل ہوتی ہے۔ طلبہ استاذ سے مقابلہ مناظرہ ،مکابرہ اور مجادلہ سے ہروقت بچیں۔استاد کے سامنے آنکھیں نہ چڑھائیں،گفتگو میں تیزی نہ برتیں،پیشانی پر بل نہ ڈالیں،کیونکہ یہ باتیں نہ صرف استاذ بلکہ بڑوں کے مقابلے میں بے ادبی تصور کی جاتی ہیں۔طالب علم سے اگر کوئی خطا ،بے ادبی اور غلطی واقع ہوجائے تب وہ فوری استاذ سے عاجزی ،انکساری ندامت اور لجاجت سے معافی چاہے۔(8)کردار کی بلندی؛طالب علم محنتی ہو خوب مطالعہ کرنے والا ہو ،اس کے پاس معلومات کا انبار ہو،لیکن جب اس کے اخلاق و کردار خراب ہوں تب یہ تمام اوصاف بے سود ثابت ہوتے ہیں۔ایک مثالی طالب علم پڑھائی میں دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرہ اور اپنے ساتھیوں کے مسائل کی یکسوئی میں سرگرداں و سنجیدہ رہتا ہے۔یہ گرم جوش ،زندہ دل،وسیع النظر ،کشادہ دل،مثبت نظریات کا حامل،ملنسار اور سب کا بھلا چاہنے والا ہوتا ہے۔ایک مثالی طالب علم ہمیشہ ستاروں پر کمند ڈالنے والا خود اعتماد اور اپنا جہاں آپ پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔
مثالی طالب علم کا روز آنہ کا معمول:(1)ایک مثالی طالب علم نماز پنچگانہ کا پابند ہوتا ہے کیونکہ نماز مومن کا ہتھیار ہے ۔ نماز اور وضو طالب علم کو ہر پل تازہ دم رکھتے ہیں۔(2)اکثر طلباء رات دیر تک پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مغائر ہے۔طلبہ رات دس بجے تک سوجائیں۔چھ گھنٹے کی نیند لینے کے بعدعلی الصبح چار ساڑھے چار بجے بیدار ہوجائیں کیونکہ سحر خیز ی فطرت کے عین مطابق ہے۔اور اس کی اہمیت سے آج تک کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد پڑھائی کریں۔فجر کی نماز کے بعد اسکول جانے کے وقت سے پہلے تک مطالعہ کریں۔صبح کا وقت مطالعہ کے لئے بہت ہی بہتر ہوتا ہے۔(3)اسکول اور کالج سے واپسی کے بعد دوپہر کا کھانا کھانے اور ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد قیلولہ کی عادت ڈالیں۔تاکہ صحت کے اصولوں کے مطابق آٹھ گھنٹے کی نیند پوری ہوجائے اور طالب علم ترو تازہ ہوجائے۔(4)عصر تا مغرب کوئی آوٹ ڈور کھیل یا چہل قدمی صحت ،ذہن و دل کے لئے مفید ہوتی ہے۔لغو تفریحات سے گریز لازمی ہے۔مثالی طالب علم کی تفریح بھی مثبت ،تعمیر ی اور با مقصد ہوتی ہے۔خاص طور پر ایک مسلم طالب علم کی زندگی میں فضول چیزوں کے لئے کوئی وقت نہیں ہوتا ہے۔(5)مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد یا پھر عشاء کی نماز کی ادائیگی سے پہلے کھانے کھا لیں۔مغر ب تا عشاء اہل خانہ کے ساتھ وقت گزاریں۔اندرون خانہ تفریح (Indoor Entertainment) جیسے ٹی وی دیکھنا ، انٹرنیٹ کے استعمال و دیگر اندرون خانہ مصروفیات کی انجام دہی کے لئے مغرب تا عشاء کا وقت مناسب ہوتا ہے۔(6)عشاء کی نماز کے بعد دو تا ڈھائی گھنٹے پڑھائی میں لگائیں۔رات میں جلد سونا صحت کے لئے بہتر ہوتا ہے۔(7)طلبہ اپنے معمولات کو میکانکی انداز سے انجا م دینے کے بجائے انسانی فطرت کے مطابق بنائیں۔باجماعت نماز کا اہتمام کریں۔کوئی ایسی سرگرمی اور عادت سے گریز کریں جو کہ صحت کے لئے مضر ہو۔
مذکورہ بالا اوصاف کے علاوہ ایک مثالی طالب علم میں خوف خدا ،نبی اکرم ﷺ سے غایت درجہ محبت،اطاعت اور عظمت کا جذبہ،دین شریعت کے احکام کی پابندی ،انسانیت کی خدمت کا جذبہ ،پاکی اور صفائی،اساتذہ کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کی احسن طریقہ سے انجام دہی جیسے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ ا یک مثالی طالب علم بلااجازت جماعت اور درس گا ہ میں داخل ہوتا ہے نہ باہرجاتا ہے۔اپنے خاندان ماں باپ ، اساتذہ، اپنے کردار اور تعلیمی ادارے کی نیک نامی کو ہر حال میں برقرار رکھناایک مثالی طالب علم کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ایک مثالی طالب علم کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ تحصیل علم کے سفر کو پرکیف بنانے کے لئے اچھے ساتھیوں کا انتخاب کر ے تاکہ اس کے اساتذہ ،والدین اور خاندان کے افراد کی امید و ں،آرزؤں اور ارمانو ں کا خون نہ ہو نے پائے۔ مذکورہ بالا صفات کو اپنے آپ میں پیدا کرتے ہوئے ایک طالب علم خود کو نہ صرف مثالی بنا دیتا ہے بلکہ دنیا و آخرت میں عزت اور رضائے الہی کا حقدار ہوجاتا ہے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں