اللہ رب العزت نے انسان کو دیگر مخلوقات سے علم اور سمجھ بوجھ کی بناء عظمت و برتری عطافرمائی ہے۔انسانی زندگی کا اہم مقصداپنے آپ کو علم یعنی سمجھ بوجھ سے آراستہ کرنا ہے ۔علم اورسمجھ بوجھ کے حصول کے لئے کی جانے والی انسانی جد وجہد کو تعلیم کہا جاتا ہے۔تعلیم کی وجہ سے ہی انسان کو اشرف المخلوقات کی دستار فضیلت سے سرفراز کیا گیا ہے۔ایک طالب علم جب اپنے طالب علمی کے زمانے(دس تا پندرہ سال) کو شرائط و آداب کے مطابق گزارتا ہے تب وہ اللہ کے رحم و کرم کی بدولت علم و ایقان ،دانشوری و ہوش مندی،اور تربیت و اخلاق کی وجہ سے معاشرے میں اہم مقام پر فائز ہوتا ہے۔جب طلبہ اپنے طالب علمی کے دور کو اصولوں اور آداب کے مطابق گزارتے ہیں تب اللہ رب العزت ان سے دوسروں کی ہدایت و رہبری اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے کام لیتا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصول و آداب کی اگر پابندی نہ کی جائے تب بڑے سے بڑے کام بھی مفید نتائج فراہم نہیں کر پاتے ہیں۔دوا کے ساتھ ہمیشہ پرہیز کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔مریض معالج کی تجویز کردہ بہتر سے بہتر دواؤں کو استعمال کرتا رہے اور معالج کی ہدایات سے سرموئے انحراف یعنی بد پرہیزی میں ملوث ہو تب مریض کو علاج کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔کسی بھی کام میں کمال اور مہارت حا صل کرنے کے لئے دو چیزوں کو نہایت اہم گردانا گیا ہے۔ (1)تحقق شرائط کرنے والے کام( Dos) سے مراد، کسی بھی کام کی انجام دہی میں ان تمام شرائط کو بروئے کار لانا جو کام کی احسن طریقے سے تکمیل کے لئے ضروری ہوں۔ (2)ارتفاع موانع نہ کرنے کے کام Donts)) سے مراد کسی بھی کام کی انجام دہی میں رکاوٹ پیدا کرنے والے امور و عناصر سے پرہیز و اجتناب ۔ طلبہ قوم و ملت کے نگہبان و پاسبان ہوتے ہیں اورمستقبل کے معاشرے کی تشکیل میں یہ کلیدی کردار انجام دیتے ہیں اسی لئے ایک کامیاب طالب علم اور انسان کے لئے اپنے کام اور امور کی احسن تکمیل کے لئے تحقق شرائط اور ارتفاع موانع کا لازمی طور پر خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر طالب علم ان دو باتوں کا خیال رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تب ناکامی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ طلبہ ہوں یا دیگر افراد، جب ان دو امور پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں تب وہ اپنے علم و مہارت میں کمال و عروج حاصل کرلیتے ہیں۔طلبہ کی سب سے اہم ذمہ داری اپنے ایمان اور فکر کی اصلاح کے ذریعہ پاگیزگی کا حصول ہے۔طلباء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خالق ،رازق اور پاسبان کے حقوق کی ادائیگی کے علاوہ تخلیق کے پوشیدہ اسرار کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ابدی زندگی میں رحمت خداوندی کے حقدار ٹھہریں۔اس مضمون میں طوالت سے احتراز کو مد نظر رکھتے ہوئے طلبہ کے لئے تحصیل علم میں پسندیدہ شرائط و مفید عناصر (Dos) کا احاطہ کیا گیا ہے ۔
تحقق (Dos):معاشرتی زندگی میں تبدیلیوں کا اثر تعلیم پر بھی مرتب ہو ا ہے۔تخصیص (specialisation) کی وجہ سے تعلیمی میدان میں بھی مختلف شعبے وجود میں آئے ہیں۔جدید تعلیمی تحقیق نے جہاں ترقی و تمدن کی نئی راہیں متعین کی ہیں وہیں مقصد تعلیم پر بھی کار ی ضرب لگائی ہے۔جدید تعلیم میں کیرئیر سازی کے رجحان نے مقصد تعلیم کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ حصول علم کا مقصد جہاں زندگی کی رہبری اور شاہراہ زندگی کی سمتوں کو معتین کرناتھا وہیں خود غرضی اور مالی منفعت کے رجحان نے روح تعلیم کو مجروح کردیا ہے۔جو تعلیم انسان کی اصلاح کا مادہ نہیں رکھتی ہے وہ محض ایک بو جھ ہوتی ہے اور وہ جدید علوم جنھیں ہم سائنس سے تعبیر کرتے ہیں اگر وہ انسان کو حقیقی مقاصد کی جانب گامزن نہ کریں تب وہ ایک فریب سے کم نہیں ہے۔حصول علم کے لئے طلبہ ذیل میں بیان کردہ اوصاف سے خود کو متصف کرتے ہوئے نہ صرف ایک مثالی طالب علم بن سکتے ہیں بلکہ ایک کامیاب زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ (1)حصول علم کا مقصد ؛حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ ایک جگہ سے گزر رہے تھے تب ان کی ایک لڑکے پر نظر پڑی جس کے چہرے سے ذہانت مترشح تھی۔آپؒ نے لڑکے سے پوچھا ’’کچھ پڑھا بھی ہے یا یوں ہی اپنا وقت اور عمر برباد کر رہے ہو؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا ’’کچھ زیادہ تو نہیں پڑھا ہے بس چار باتیں سیکھی ہیں۔‘‘ آپ ؒ نے پوچھا ’’کونسی‘‘ کہنے لگا’’سر کا علم،کانوں کا علم،زبان کا علم اور دل کا علم حاصل ہے۔‘‘آپ ؒ نے کہا مجھے بھی کچھ بتاؤ ۔لڑکے نے کہا ’’سر اللہ تعالی کے سامنے جھکانے کے لئے ہے،کان اللہ کا کلام سننے کے لئے ہیں،زبان اس کے ذکر کے لئے ہے اور دل اللہ کی یاد بسانے کے لئے۔‘‘حضرت عبداللہ ابن مبارک ؒ لڑکے کے حکمت آمیز کلام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اس سے نصیحت کے لئے کہا۔لڑکے نے آپ ؒ سے کہا آپ مجھے شکل سے عالم معلوم ہوتے ہیں اگر علم اللہ تعالی کے لئے پڑھا ہے تو پھر اللہ تعالی کے علاوہ کسی سے کبھی امید نہ رکھنا۔‘‘ اس واقعہ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ علم کا حصول ایک عبادت ہے اور اس کی قبولیت کا دارو مدار اخلاص و للہیت پر منحصر ہے۔حصول علم کا مقصد خود آگہی اور خدا آگہی ہونا چاہیئے نہ کہ دنیا کے حقیر مقاصد کا حصول۔ دور حاضر کے مادہ پرستانہ ماحول میں طلبہ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ انھیں کیا ،کب اور کسیے سیکھنا ہے۔ علم طلبہ میں اس شعور کو جاگزیں کرے کہ وہ کون ہیں،یہ دنیا کیا ہے،زندگی اور موت ان سے کیا چاہتی ہے،اسے دنیا میں کس نے اور کیوں بھیجا ہے،اور اس دنیاوی سفر میں اس کا ہادی ،رہبر اور رہنما کون ہے۔ (2)علم کی سچی طلب اور شوق؛طالب کے لغوی معنی ہی کا م کے تئیں فکر کے ہے۔جہاں طلب ہو وہاں بے فکر ی کا وجود محال ہے۔طلب اور بے فکری دونوں یکجا نہیں ہوسکتے ہیں۔طالب علم کے دل میں ہمیشہ جذبہ حصول علم کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہو،اور دل ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہے کہ جب تک اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہو وہ بیکل اور مضطرب رہے اور اپنے مقصد کے حصول تک مسلسل تگ و دو کرتا رہے۔اس سلسلے میں اما م یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ’’علم ایک ایسی چیز ہے کہ جب تم اپنی ساری زندگی اس کے لئے وقف کردوں گے تب جاکر علم تم کو اپنا بعض حصہ دے گا۔جب اس کا بعض حصہ تم کو مل جائے تو اس پر تکیہ کر کے مت بیٹھ جاؤ،بلکہ مزید حاصل کرنے کی کوشش کرو۔‘‘(3) وقت کی قدر و اہمیت اور انضباط اوقات:نہ صرف طلبا ء کے لئے بلکہ ہر انسان کے لئے وقت ایک عظیم نعمت ہے۔طلباء اپنے وقت کی حفاظت کریں اور اسے بیکار اور فضول کاموں میں برباد نہ کریں۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑدے۔طالب علموں کے لئے فضول اور لایعنی امور سے پرہیز لازمی ہے تاکہ ان کی قابلیت اور لیاقت میں اضافہ ہوسکے۔ (4)مسلسل محنت و جد وجہد؛دنیا دارالاسباب ہے اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لئے انسان کو اسباب اختیار کرناپڑتا ہے۔اسی لئے اسباب کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ مسبب الاسباب ہے اور ہر چیز اللہ کے قبضے قدرت میں ہے اسی لئے صرف اسباب کو اختیار کرتے ہوئے دنیا کی کامیابی تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن آخرت کی کامیابی کا انحصار ایمان والی زندگی پر منحصر ہے۔اللہ تعالی انسان کو اسی محنت اور لگن کے بقدر عطا فرماتے ہیں۔ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین(اللہ اخلاص کے ساتھ محنت کرنے والوں کی محنت ضائع نہیں کرتے )اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں محسنین کا لفظ استعمال کیا ہے ۔محسن کا لفظ احسان سے مشتق ہے اور احسان کے معنی ہے خوب اچھا کرنا۔کسی کام کو خوب اچھا کرنے کے لئے جد و جہد ،سعی عمل،شغل تمام ضروری ہوتے ہیں۔شرعی اصلاح میں احسان اخلاص اور للہیت کو کہتے ہیں۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کبھی محسنین کی محنت کو اکارت نہیں کرتے ہیں بلکہ انسان کو اس کی سعی و کاوش کے مطابق عطاکرتے ہیں۔جو طلباء جتنی محنت کریں گے اللہ تعالی ان کو اتنا ہی علم کی دولت سے مالا مال کردیں گے۔ لیکن طلبا جد و جہد اور سعی و جستجو صرف رضا الہی کے لئے کریں کیونکہ حصول علم کا مقصد و مطلوب خود آگہی اور خد�آگہی ہے اور ان صفات کی بدولت ہی علم کو نعمت قرار دیا گیا ہے ۔طلبہ میں اخلاص اور للہیت کا فقدان علم نافع کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔محنت کے ساتھ طلباء کے لئے مطلوبہ صفات اخلاص ،تواضع ،ادب ،حسن اخلاق ،معصیت سے دوری حصول علم کے لئے ضروری گردانے گئے ہیں۔طلبہ میں جب تک محنت کا جویا نہیں پیدا ہوگا ان میں تحصیل علم کا جذبہ بھی نہیں پیدا ہوگا۔محنت کے بل پر ہی حصول علم کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ حصول علم کے معاملے میں ہمارے اسلاف کی محنت ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ حضرت سعدی شیرازی ؒ کے احوال میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی اہلیہ نے بے مزہ کھانا بنانے کی شکایت پر آپ کی کم علمی کا طعنہ دیتے ہوئے ان کے سر پر چمچہ دے مارا اور سر کو زخمی کردیا۔آپ اس تذلیل پر بڑے دلگیر ہوئے اور تحصیل علم کے لئے نکل پڑے ۔اس وقت آپ کی عمر چالیس سال سے متجاوز تھی۔کبر سنی کی وجہ سے حصول علم میں تلفظ کی ادائیگی میں بڑی تکلیف اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔زبان سے مشکل الفاظ کی ادائیگی میں بہت زیادہ دقت ہوتی اور ساتھیوں کے مذاق کی وجہ سے سبکی محسوس کرتے۔ایک مرتبہ حصول علمکے دوران پیش آنے والی سبکی اور طعن و تشنہ سے رنجیدہ خاطر ہوکر خودکشی کی ٹھانی اور کنویں پر جا پہنچے تاکہ زندگی کا خاتمہ کرلیں۔کنویں میں چھلانگ لگانے سے قبل آپ کی نظر کنویں کی چرخی پر پڑی ۔دیکھا کہ کنویں سے پانی نکلنے کی وجہ سے چرخی رسی سی کھس گئی ہے۔تبھی خیال آیا کہ رسی جیسے نازک چیز لوہے کو کاٹ سکتی ہے تو پھر میرے لئے حصول علم اور مشکل الفاظ کی ادائیگی بھلا کیسے مشکل اور ناممکن ہوسکتے ہے۔اس خیال کے آتے ہی آپ نے حصول علم کا ازسر نو عزم باندھا اور تمام لگن اور محنتکے ساتھ تحصیل علم میں مصروف ہوگئے ۔ اللہ تعالی نے آپ کو آپ کی محنت کا بہترین صلہ عطا فرمایا۔ کیونکہ اللہ تعالی کام کرنے والوں کی محنت کو ضائع نہیں کرتا(ان اللہ لا یضیع اجر العاملین)۔صدیاں گزرنے کے باوجو د آج بھی حضرت سعدی شیرازی ؒ کی حکمت اور دانائی کی دنیا معترف ہے۔آپ کی محنت نے بڑی عمر کے باوجود آپ کو اقلیم علم و ادب کا سردار بنادیا۔حصول علم کے لئے سخت محنت درکار ہوتی ہے۔محض آرزؤں اور تمناؤں سے اس کا حصول ممکن نہیں ہے۔محنت کے بل پر ایک ادنی طالب علم،بلند درجات حاصل کر لیتا ہے۔ شیخ یحی جنھیں اما م النحو کہاجاتا ہے ایک ملاح تھے لیکن علم سے بہت زیادہ شغف رکھتے تھے ۔عمر عزیز جب چالیس سال سے زیادہ ہوئی تب حصول علم کا عزم کیا لیکن اپنی عمر کی وجہ سے پس و پیش کرنے لگے۔ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنے منہ میں کھجور کی گٹھلی لے کر بلندی کی طر ف بڑھ رہی ہے اور بارہا ناکامی کے باوجو د اپنی سعی و کوشش جاری رکھے ہوئے ہے اور آخر کار اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے۔اس منظر کو دیکھتے ہی شیخ یحیی تحصیل علم کا عزم کر لیتے ہیں اور اپنی کشتی کو بیج کر علم کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اپنی شبانہ روز محنت اور کوشش کے ذریعہ زبان ،بیان،نحو،لغت اور منطق کا علم حاصل کرنے میں نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ ان علوم پر آپ کی دسترس کی آج بھی دنیا معترف ہے اسی لئے آپ کو امام النحو کہاجاتا ہے۔ایک مثالی طالب علم کی پوری زندگی جدو جہد سے عبارت ہوتی ہے۔تساہل،کاہلی ،بزدلی جیسے منفی صفات جب ایک مثالی طالب علم کے آگے سر اٹھاتے ہیں تب وہ اپنی اولوالعزمی سے ان تمام منفی جذبوں کو کچل دیتا ہے۔ طالب علم حرکت اور تحریک کا ایک مثالی نمونہ ہوتا ہے۔یاوہ گوئی ،فضول اور لایعنی کاموں سے ایک مثالی طالب علم ہمیشہ خو د کو دور رکھتا ہے۔(5)اولعزمی،بلند ہمتی؛ اعلی نصب العین ایک اعلی کردار کو پیدا کرتا ہے جب کہ ایک ادنی نصب العین ایک گٹھیا کردار کو جنم دیتا ہے۔حو صلہ ،امنگیں،امید اور خو داعتمادی ایک مثالی طالب علم کے ہتھیار ہوتے ہیں۔مذکورہ صفات کی کمی طلبہ میں احساس کمتری کا باعث ہوتی ہے۔ ایک مثالی طالب علم کے لئے مسلسل جدو جہداور محنت کے ساتھ بلند ہمتی (اولعزمی) نہایت ضروری ہے۔اگر طالب علم خو ب محنت کرے لیکن اس میں بلند ہمتی نہ ہو ،تب بھی وہ زیادہ علم حاصل نہیں کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ طالب علم میں ہمت اور بلند حوصلگی ہواور محنت کا فقدان پایا جائے تب بھی وہ علم حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔علم ایک قیمتی شئے ہے اور ہر قیمتی شئے کے حصول میں محنت اور بلند ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ مسلسل محنت ،راحتوں اور لذتوں کو چھوڑنے سے ہی علم حاصل ہوتا ہے۔ (6)کتب بینی اور مطالعہ کی عادت:مثالی طالب علم ہمیشہ اپنا تعلق کتابوں سے استوار رکھتا ہے۔روزآنہ ایک مقررہ وقت پر باقاعدہ مطالعہ کرتا ہے۔روزآنہ باقاعدہ مطالعہ کی عادت سے علم میں اضافہ کے ساتھ پختگی پیدا ہوتی ہے۔ جماعت میں سبق کی تدریس سے قبل سبق کے مطالعہ سے نہایت فائدہ ہوتا ہے۔روزآنہ اسباق کے مطالعہ کابلاناغہ اہتمام کرنے سے سبق اچھی طرح ذہن نشین اور محفوظ ہوجائے۔ جماعت میں سبق کی تشریح و تفہیم(استاد کے درس ) کو ایک مثالی طالب علم نہایت انہماک اور دلجمعی سے سماعت کرتا ہے کیونکہ سبق کا اعادہ اور تکرار نفس مضمون کو سمجھنے اور مضمون میں مہارت پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔حصول علم میں یکسوئی اور انہماک کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔مشہور مقولہ ہے کہ’’علم اس وقت تک اپنا تھوڑا سا حصہ بھی نہیں دیتا ہے جب تک کہ طالب علم اپنے آپ کو پورے کا پورا علم کے حوالہ نہ کردے۔‘‘ کتابوں کے انتخاب اور مطالعہ میں سلیقہ مندی اور ترتیب پیدا کرنے کے لئے طلباء اساتذہ سے رہنمائی حاصل کریں۔تن آسانی، سہل پسندی،اور آرام طلبی نہ صرف زمانہ طالب علمی بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر نقصاندہ ثابت ہوتی ہے۔جب یہ عادتیں طلبہ پر حاوی ہونے لگیں تب ان کو مطالعے میں خوب وقت لگانے کی ضرورت ہوتی ہے خواہ انھیں اپنی عادت سے جنگ ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔نفس پرستی یا نفس سے مصلحت کا طریقہ شخصیت کے ارتقاء اور ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک مثالی طالب علم کے لئے فکری عمل (تطبیق) اور تنقیدی فکر بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ ہر بات کو آنکھ اور کان بند کر کے قبول نہ کرسکے ۔(7)ادب و احترام؛مثالی طالب علم کے لئے استاد اور علم سے متعلق تما م اشیاء کا ادب و احترام لازم ہوتا ہے۔تحصیل علم میں جب تک تین آداب (a)استاذ کا ادب (b)درس گاہ اور مسجد کا ادب (c)کتاب کے ادب کو ملحوظ نہ رکھا جائے تب تک طالب علم کی نہ صلاحیتیں نکھرتی ہیں،نہ استعداد جلا پاتی ہے اور نہ ہی اس کو روحانی ترقی حاصل ہوتی ہے۔ طلبہ استاذ سے مقابلہ مناظرہ ،مکابرہ اور مجادلہ سے ہروقت بچیں۔استاد کے سامنے آنکھیں نہ چڑھائیں،گفتگو میں تیزی نہ برتیں،پیشانی پر بل نہ ڈالیں،کیونکہ یہ باتیں نہ صرف استاذ بلکہ بڑوں کے مقابلے میں بے ادبی تصور کی جاتی ہیں۔طالب علم سے اگر کوئی خطا ،بے ادبی اور غلطی واقع ہوجائے تب وہ فوری استاذ سے عاجزی ،انکساری ندامت اور لجاجت سے معافی چاہے۔(8)کردار کی بلندی؛طالب علم محنتی ہو خوب مطالعہ کرنے والا ہو ،اس کے پاس معلومات کا انبار ہو،لیکن جب اس کے اخلاق و کردار خراب ہوں تب یہ تمام اوصاف بے سود ثابت ہوتے ہیں۔ایک مثالی طالب علم پڑھائی میں دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرہ اور اپنے ساتھیوں کے مسائل کی یکسوئی میں سرگرداں و سنجیدہ رہتا ہے۔یہ گرم جوش ،زندہ دل،وسیع النظر ،کشادہ دل،مثبت نظریات کا حامل،ملنسار اور سب کا بھلا چاہنے والا ہوتا ہے۔ایک مثالی طالب علم ہمیشہ ستاروں پر کمند ڈالنے والا خود اعتماد اور اپنا جہاں آپ پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔
مثالی طالب علم کا روز آنہ کا معمول:(1)ایک مثالی طالب علم نماز پنچگانہ کا پابند ہوتا ہے کیونکہ نماز مومن کا ہتھیار ہے ۔ نماز اور وضو طالب علم کو ہر پل تازہ دم رکھتے ہیں۔(2)اکثر طلباء رات دیر تک پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مغائر ہے۔طلبہ رات دس بجے تک سوجائیں۔چھ گھنٹے کی نیند لینے کے بعدعلی الصبح چار ساڑھے چار بجے بیدار ہوجائیں کیونکہ سحر خیز ی فطرت کے عین مطابق ہے۔اور اس کی اہمیت سے آج تک کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد تہجد کی نماز ادا کرنے کے بعد پڑھائی کریں۔فجر کی نماز کے بعد اسکول جانے کے وقت سے پہلے تک مطالعہ کریں۔صبح کا وقت مطالعہ کے لئے بہت ہی بہتر ہوتا ہے۔(3)اسکول اور کالج سے واپسی کے بعد دوپہر کا کھانا کھانے اور ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد قیلولہ کی عادت ڈالیں۔تاکہ صحت کے اصولوں کے مطابق آٹھ گھنٹے کی نیند پوری ہوجائے اور طالب علم ترو تازہ ہوجائے۔(4)عصر تا مغرب کوئی آوٹ ڈور کھیل یا چہل قدمی صحت ،ذہن و دل کے لئے مفید ہوتی ہے۔لغو تفریحات سے گریز لازمی ہے۔مثالی طالب علم کی تفریح بھی مثبت ،تعمیر ی اور با مقصد ہوتی ہے۔خاص طور پر ایک مسلم طالب علم کی زندگی میں فضول چیزوں کے لئے کوئی وقت نہیں ہوتا ہے۔(5)مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد یا پھر عشاء کی نماز کی ادائیگی سے پہلے کھانے کھا لیں۔مغر ب تا عشاء اہل خانہ کے ساتھ وقت گزاریں۔اندرون خانہ تفریح (Indoor Entertainment) جیسے ٹی وی دیکھنا ، انٹرنیٹ کے استعمال و دیگر اندرون خانہ مصروفیات کی انجام دہی کے لئے مغرب تا عشاء کا وقت مناسب ہوتا ہے۔(6)عشاء کی نماز کے بعد دو تا ڈھائی گھنٹے پڑھائی میں لگائیں۔رات میں جلد سونا صحت کے لئے بہتر ہوتا ہے۔(7)طلبہ اپنے معمولات کو میکانکی انداز سے انجا م دینے کے بجائے انسانی فطرت کے مطابق بنائیں۔باجماعت نماز کا اہتمام کریں۔کوئی ایسی سرگرمی اور عادت سے گریز کریں جو کہ صحت کے لئے مضر ہو۔
مذکورہ بالا اوصاف کے علاوہ ایک مثالی طالب علم میں خوف خدا ،نبی اکرم ﷺ سے غایت درجہ محبت،اطاعت اور عظمت کا جذبہ،دین شریعت کے احکام کی پابندی ،انسانیت کی خدمت کا جذبہ ،پاکی اور صفائی،اساتذہ کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کی احسن طریقہ سے انجام دہی جیسے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ ا یک مثالی طالب علم بلااجازت جماعت اور درس گا ہ میں داخل ہوتا ہے نہ باہرجاتا ہے۔اپنے خاندان ماں باپ ، اساتذہ، اپنے کردار اور تعلیمی ادارے کی نیک نامی کو ہر حال میں برقرار رکھناایک مثالی طالب علم کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ایک مثالی طالب علم کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ تحصیل علم کے سفر کو پرکیف بنانے کے لئے اچھے ساتھیوں کا انتخاب کر ے تاکہ اس کے اساتذہ ،والدین اور خاندان کے افراد کی امید و ں،آرزؤں اور ارمانو ں کا خون نہ ہو نے پائے۔ مذکورہ بالا صفات کو اپنے آپ میں پیدا کرتے ہوئے ایک طالب علم خود کو نہ صرف مثالی بنا دیتا ہے بلکہ دنیا و آخرت میں عزت اور رضائے الہی کا حقدار ہوجاتا ہے۔
اہم بلاگز
چراغ تو روشن ہیں
پی ٹی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 16 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس رپورٹ میں مکمل سچائی ہو پھر بھی ٹی وی بہرحال ایک مقبول ذریعہء مواصلات ہے۔ شام کے وقت یا رات نو بجے ٹی وی پر ٹاک شوز یا head lines ملاحظہ کرنے والے افراد کا تناسب کم نہیں ہوا۔ آج جب شام آٹھ بجے ٹی وی آن کیا تو اتفاق سے ٹاک شو کا موضوع تھا انٹرا پارٹی انتخابات اور پارٹی کی قیادتیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی سبھی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے احوال چل رہے تھے۔ پھر نمایاں قائدین کے نام لیے گئے
پیپلز پارٹی:- ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو، زرداری، بلاول بھٹو، آصفہ بھٹو، پارٹی قیادت کے نمایاں افراد ۔
مسلم لیگ نون:- نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز ۔
پی ٹی آئی:- عمران خان ہی موءسس اوروہی قائد انہی کے دم خم سے پارٹی ہے۔ غیر مشروط، عقیدت اور اتباع کا محور بس عمران خان کی شخصیت ہے، اختلاف ہے تو عمران خان سے، اتفاق ہے تو عمران خان سے۔
مردِ واحد یا پھرایک خاندان۔ بس ہر پارٹی میں اسی کا اجارہ ہے۔ کس منہ سے یہ لوگ جمہوریت کا نام لیتے ہیں۔ کبھی سوچا آپ نے؟؟ ووٹ دینے سے پہلے سوال کیا کبھی آپ نے ان، مقبول لیڈرز، سے؟ اکتائے دماغ کے ساتھ چینل بدلا تو حافظ نعیم الرحمن کے حلف کی خبر چل رہی تھی۔ سارامنظر ہی دلکش لگا۔ بھیگی آنکھیں، کپکپاتے الفاظ دعاؤں کی التجا. یہ ہے حافظ نعیم الرحمن کا حلف ۔ دماغ میں سوال اٹھا "کیا یہ شخص سالہا سال سے نسل در نسل اس جماعت کا گدی نشین ہے؟"
نہیں جی اس سے پہلے ایک درویش صفت، روشن کردار والا، ہمت و جہد کا استعارہ۔۔۔ سراج الحق تھا اسی ذمہ داری پہ ۔۔۔ تو کیا سراج الحق کو عوامی مقبولیت، یہ عہدہ، کروڑوں لوگوں کی دعائیں ان کے باپ دادا نے دلوائیں؟ نہیں جی، وہ تو حلف اٹھانے سے چند دن پہلے تک انہیں خبر تھی نہ خواہش اور ان سے پہلے جو اس منصب پر تھے وہ تھے سید منور حسن، وہ سید، یہ پٹھان، وہ کراچی سے، یہ کے پی سے، کیا سید منور حسن اپنے سے گزشتہ امیر جماعت کے رشتے دار تھے؟
نہیں، وہ بھی اول الذکر سبھی کی طرح ایک عام کارکن تھے۔
نعیم صدیقی (رحمہ اللہ علیہ) اپنی تصنیف "المودودی" میں لکھتے ہیں
"۔۔۔ کتنا سخت لمحہ ہے کہ اس شخص کے جسد کی امانت کو مٹی کے حوالے کرنے کے بعد میں اسی کی جدائی کاذکر چھیڑ رہا ہوں۔ ترجمان القرآن کی ادارت کرنے اوراس کے ذریعے دور دراز تک ایمان وحکمت کا نور پھیلانے والی ہستی نگاہوں سے اوجھل ہوچکی ہے۔ اس کی کرسی خالی ہے وہ اپنے تاریخی کمرے میں بھی موجود نہیں اور اہلخانہ کی مجلس میں بھی شریک نہیں۔اس کی کتابیں جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔"
قارئین! نعیم صدیقی کا کرب جب ان الفاظ میں ڈھل رہاتھا تو شائد انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریک پھل پھول لائے گی ، وسعت اختیار کرے گی۔ بلاشبہ...
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...