آج کی ڈائری کا ایک ورق

سماعت دروازےکی گھنٹی کی آواز پر مرکوز ہے۔نگاہیں اس کے آنے کی بےچینی سےمنتظر۔۔ دل کی دھڑکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔آہ ! یہ  دروازے کی گھنٹی بجتی کیوں نہیں۔اب آبھی جاؤ خدارا!! تمھیں کیا پتا اس دل میں تمھاری کتنی اہمیت ہے۔ایک میں ہی کیا کتنے لوگ تمھاری آمد کے منتظر ہیں ۔پر تم نے تو گویا میرا دل توڑ دینے کی قسم کھا رکھی ہے۔ایک دن بھی تمھارے بغیر گزارنا پہاڑ سا لگتا ہے۔

ڈنگ ڈونگ ڈنگ ڈونگ۔۔۔دروازے کی گھنٹی کیا بجی میرے دل میں جلترنگ سی بج اٹھی۔اس کے قدموں کی چاپ کو میں ہزاروں میں پہچان سکتی ہوں ۔خوشی سے تمتماتے چہرے  کے ساتھ میں نے دروازہ کھولا ۔ہاں وہ وہی تھی ۔وہ آگئی تھی  میری ماسی!!! وہ  دس دن اپنے گاؤں میں شادی اٹینڈ کر کے بالآخر آگئی تھی۔

ماسی۔۔۔۔۔ ہم میں سے اکثر کی زندگیوں کا وہ کردار ہے جس کے بغیر ہمارا ڈرامہ ادھورا ہے۔وہ ہمارے ڈرامے کی ہیروئین ہے جس کے بغیر ڈرامے میں کوئی مزہ نہیں ،کوئی کلائمکس نہیں۔

جن گھروں میں ماسیاں کام کرتی ہیں وہ یقیناً میرے احساسات سے اتفاق کریں گی کہ وہ اور ہمارے گھر کے کام کاج لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں ۔ہم عموماً ان سے وہ کام لیتے ہیں جن میں وقت اور توانائی زیادہ خرچ ہوتی ہے ۔جیسے برتن،کپڑے گھر کی صفائی وغیرہ ۔ جس میں یہ ہماری مددگار ثابت ہوتی ہیں۔مگر کیا واقعی یہ ایسا ہی ہے؟؟کیا ماسیوں کے آنے سے آپ ان سارے کاموں سے بری الذمہ ہوجاتی ہیں؟ کیا آپ کو ان کے ساتھ ساتھ کام نہیں کروانا پڑتا؟کیا وہ ہمارے گھر کے کام اتنی ہی توجہ اور چاہت سے کرتی ہیں جتنی کہ میں اور آپ کرتے ہیں ۔یقیناً ایسا نہیں ہوتا۔خاص طور پر جب وہ نہیں آتی ہے اور ہمیں گھر کی صفائی کرنی پڑجائے تو ایسا اکثر ہوا ہے کہ میں  نے اپنے ناخن   ہی نہیں بلکہ انگلیاں تک چبا ڈالیں  جب  مجھے بیڈ کے نیچے سے میلے موزے اور بنیانیں،ڈریسنگ ٹیبل کے پیچھے سے جمی ہوئی مٹی اور گرد میں الجھے ہوئے بے شمار بالوں کے گُچھےاور کچن کے کسی خفیہ کونے سے تیل اور چکنائی میں لُتھڑی ہوئی وہ کئی صافیاں ملی ہیں جن کی تلاش ،میں بیسیوں بار کیبینٹ میں  کر چکی تھی۔اسوقت توگھر والوں کے سامنے (پر اس کی غیر موجودگی میں) اسے خوب سخت سست سنائیں مگر اگلے دن جب وہ شاہانہ انداز میں کام پر آئی تو اپنے ایمان سے بتائیں کہ ایسی صورت حال میں آپکا لہجہ کیسا ہوگا؟”‘ سنو  ہم مل کر ہفتے  پندرہ دن میں سامان ہٹا کر صفائی کر لیا کریں گے ۔اب تم سے بھلا روز سامان ہٹا کر صفائی کہاں ہوگی ۔۔ہے نا!! “”

ہوں! جی باجی۔۔نخوت بھرا ہنکارا بھرتی وہ اپنے کام میں مصروف ہوجاتی اور میں دل ہی دل میں اس کا موڈ خراب نہ ہونے پر شکر ادا کرتی۔

مجھے ان ماسیوں کی  ایک بات سمجھ نہیں آتی۔جو چیز کچھ عرصے تک ہمارے گھر میں استعمال نہ ہو ،وہ اسے ایسے تاڑ کر رکھتی ہیں کہ گویا وہ ان کا حق ہو۔” باجی ،گھر کا پنکھا جل گیا ہے۔گرمی اور لو سے بچے بلک رہے ہیں ۔آپ کا یہ پنکھا ایسے ہی پڑا ہے ۔آپ کے تو کسی کام کا نہیں ۔ہم غریب کو دے دیں ۔آپ نے یوں بھی کباڑ میں ہی دینا ہے۔بچے دعائیں دیں گے۔” وہ آپ کو دکھ اور درد کی وہ داستان سنائے گی کہ اگر آپ نے اس کی فرمائش پر کان نہیں دھرے تو آپ میں اور ہٹلر میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوگا۔آپ کو اس قدر شرمندہ کیا جائے گا کہ پنکھا دینے کے باوجود وہ آپ پر چند دن میں ہی دس بار کئی بہانوں سے یہ جتائے گی کہ وہ بے حد پرانا اور ناقابلِ استعمال پنکھا تھا ۔جس کی مرمت پر اس کے ہزاروںروپے خرچ ہو چکے ہیں۔

دکھ یہی نہیں بلکہ ہر دو مہینے بعد ان کے کوئی بہت قریبی عزیز( جو کہ بہت دور کے ہوتے ہیں ) کی شادی،بچے کی پیدائش ،یا معذرت کے ساتھ وفات پر بنا بتائے غائب ہونا معمول کی بات ہے ۔اور اگر آپ ان چھٹیوں کی تنخواہ کاٹنے کی کوشش کریں تو یہ آپ کو کاٹ کھائیں گی۔مجبوریوں کا ایسا رونا روئیں گی کہ آپ جیسی تنخواہ دار ملازم اور سفید پوش خود کو ظالم جاگیردار سمجھنے لگیں گی۔

پر جو بات ہے وہ یہ کہ سب ایک جیسی نہیں ہوتیں۔سالہاسال سے جن گھرانوں میں ماسیاں کام کرتی ہیں وہ حقیقتاً ان کے دکھ سکھ میں پورا ساتھ دیتی ہیں۔ان گھرانوں کی نسلیں ان ماسیوں کے ہاتھوں ہی جوان ہوئی ہوتی ہیں ۔یہ ان گھرانوں  کے رازوں کی امین ہوتی ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر مجبوری میں گھروں میں کام کرتی ہیں ۔ان کے ناکارہ اور نکھٹو شوہر گھروں میں  یا تو نشے میں دھُت  پڑے  رہتے ہیں یا پھر جب موقع ملتا ہے اپنی مرادنگی کا ثبوت ان بے چاریوں کو مارپیٹ کر کرتے ہیں ۔ان میں سے اکثر کی کہانیاں بے حد دلخراش ہوتی ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ ماسیاں ہمارے گھروں میں ہماری مدد کے لیے ہوتی ہیں۔جہاں ہمیں انھیں انسان سمجھ کر ان سے کام لینا ہے وہیں ہمیں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے گھروں کو کُلی طور پر ان کے حوالے نہ کریں کیوں کہ ” گھر تو آخر اپنا ہے”۔

حصہ

1 تبصرہ

Leave a Reply to عابدہ عدنان