کراچی غم زدہ ہے

ملک میں سیاسی لحاظ سے بڑی تبدیلی آئی ہے اور وہ تبدیلی یہ ہے 40سال کاسیاسی نظام تبدیل ہوا ہے ۔مورثی سیاست گو ملک سے ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے مگر ایک پرانی جماعت پی ٹی آئی کو پہلی بار حکومت کرنے کا موقع ملا ہے اورساتھ ہی انہیں عوام سے کیے گئے وعدے بھی پورے کرنے کاوقت ملا ہے، بہت سے دعوے کیے گئے تھے لیکن شاید ان میں سے ایک وعدہ بھی ٹھیک سے پورا نہیں ہوا ہے ۔اس لیے کہ ابھی پی ٹی آئی کے اقتدار کو زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں ۔
پہلی بارکسی حکومت نے اپنے وزرا کی کارکردگی جانچنے کی کوشش نہیں کی ہے ،یہ اچھی بات ہے کیونکہ ماضی میں کئی حکومتوں میں دیکھا گیا کہ وزارت سے رہ جانے والوں کو کچھ مدت گزرنے کے بعد وزیر بنا دیاجاتا تھا تاکہ دوسرامنظورنظرایم این اے بھی وزارت کے مزے لوٹ سکے ۔تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ ہزاروں لوگوں کے بے روزگار ہونے ،روپے کی قدر میں کمی ،گیس اورسی این جی مہنگی ہونے سندھ میں ان کے بحران، بجلی کی لوڈشیڈنگ ،ڈالر کے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے اورمہنگا ئی کے بڑے سونامی سے نئی حکومت کے بارے میں بہت سے عوام میں کئی ابہام پیداہوئے ہیں اورآنے والے دنوں کے حوالے سے بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ نئی حکومت کا آغاز ایسا ہے تو آئندہ کیا ہوگا ۔تجاوزات کی وجہ سے بے روزگار ہونے والوں کی رائے بھی حکومت سے متعلق کچھ اچھی نہیں رہی ،پھر بھی ہم توقع کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس ابھی وقت ہے کہ وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کرے گی ،کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ حکومت میں شامل لوگ ناتجربہ کار ہیں ،وہ اسی لیے ڈلیور نہیں کرپا رہے ،مگر شاہ محمود قریشی ،شیخ رشید،محمد میاں سومرواوران جیسے دیگربہت سے پرانے منجھے ہوئے سیاست دان بھی توان کے ساتھ ہیں ۔ان کے پاس عشرت حسین جیسے معاشی ماہرین بھی تو ہیں ۔
ملک میں جہاں دوسرے لوگ مہنگائی اوربے روزگاری سے متاثرہیں ۔وہا ں کراچی کے لوگ بھی حکومت سے زیادہ خوش نہیں ہیں ۔کراچی کی جانب حکومت کی کوئی توجہ نظر نہیں آرہی ،نہ ہی اب تک کراچی کیلئے کسی پیکیج کا اعلان کیا گیا ۔حکومت نے 100روزہ پلان میں کراچی میں ٹرانسپورٹ نظام بہتر بنانے کی بات کی تھی،اس کیلئے بھی تاحال کوئی بات نہیں کی گئی ۔ڈھا ئی کروڑ سے زائد آبادی والا کراچی غم زدہ ہے ۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سے ہزاروں لوگ بے روزگار اوران کے زیرکفالت لاکھوں لوگ فاقہ کشی اورمایوسی کاشکار ہوئے ہیں ۔کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام تقریباً تباہ ہوچکا ہے ۔معیاری پبلک ٹرانسپورٹ ناپید ہوچکی ہے ۔ماضی کی شہری حکومتوں کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں چین کے تعاون سے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے 200بڑی بسیں چلائی گئی تھیں ،ان کے جانے کے بعد غائب ہو گئیں ۔ان بسوں کیلئے ٹرمینل بھی بنائے گئے ۔مصطفی کمال آئے تو ان کے دور میں بھی گرین بسیں چلیں وہ گئے تو بسیں بھی بند ہوگئیں ۔جوٹرانسپورٹ سروس اس وقت چل رہی ہے ان میں بسیں ،کوچز اورمزدہ بسیں ہیں جن کی اکثریت پرانے زمانے میں گاؤں دیہات میں چلنے والی بسیں لگتی ہیں ،ان کی جگہ اب چنگ چی رکشا چل رہے ہیں ،ان کے کرائے بھی زیادہ ہیں ،شہر کو طویل عرصے سے بنیادی مسائل کا سامنا ہے ،لگتا ہے کہ شہری اداروں کے ذمہ داران اپنے فرائض کو نہیں پہنچانتے ۔شہر کے بیشترعلاقے کچراکنڈی بنے ہوئے ہیں ۔کئی علاقوں میں سیوریج نظام بتاہ ہوچکا ہے اورگلیوں میں اکثر وبیشتر گندہ پانی جمع ہوجاتا ہے ،جس سے لوگوں کو شدید اذیت کا سامنا ہے ،شہریوں کا ایک اور بڑا مسئلہ صاف پانی کا ہے ۔ماضی میں کر اچی میں پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے فورمنصوبہ منظور کیا گیا تھا لیکن اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا ۔نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کے دور میں اس منصوبے کی منظوری ہوئی لیکن آج تک آنے والی دوشہری حکومتوں نے اس پر کوئی پیش رفت نہیں کی ۔منصوبہ تاحال کھٹائی میں پڑا ہواہے ،یہ منصوبہ محض سیاسی بیانات میں استعمال ہورہا ہے اوراس منصوبے کو کراچی میں پانی کے مسئلے کا حل قراردیا جارہا ہے ۔کراچی کے شہری پانی کیلئے ترس رہے ہیں ۔ٹینکر مافیا اتنی مضبوط ہے کہ انہیں فروخت کیلئے ہرروز پانی دستیاب ہے ،نہیں ہے تو شہریوں کیلئے نہیں ہے ۔اس ساری صورت حال میں دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے تجاوزات کے خاتمے کیلئے آنے والے احکامات پر شہری حکومت راتوں رات حرکت میں آجاتی ہے ۔شہرمیں صفائی کی بات ہوتی ہے تو یہی شہری حکومت سندھ حکومت سے اختیارات نہ ملنے کارونا روتی ہے ،اس کے پاس شہر کی صفائی کیلئے مشینری ہے نہ افرادی قوت ،یہ بہت عجیب طرز عمل ہے ۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے پاکستان کے کسی بھی شہر میں سب سے زیادہ قومی اسمبلی کی 14نشستیں حاصل نہیں کیں ،یہ اعزاز اسے کراچی والوں نے بخشا ہے ،مگر اب
بھی یہ پی ٹی آئی حکومت اوراس کے راڈارسے دور ہے ۔ڈھا ئی کروڑ سے زائد آباد ی والے شہر میں صرف چند ہزار لوگ ایسے ہوں گے جنہیں اپنے ایم این اے ،ایم پی اے کانام یاد ہوگا ۔یہ سب اسی لیے ہے کہ یہاں کے لوگوں نے کپتان عمران خان کے نام پرووٹ دیئے ہیں ۔کسی ایم این اے کے نام پر نہیں ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کئی اہم احکام جاری کیے ہیں جن میں ماضی کے کراچی کی بحالی ،سرکلرریلوے کی بحالی ،تجاوزات اورقبضوں کے خاتمے جیسے احکام شامل ہیں جبکہ شہر سے بڑے ،چھوٹے بل بورڈز جو کہ شہریوں کیلئے مسلسل خطرہ بنے ہوئے تھے کئی سال پہلے ہی ہٹائے جا چکے ہیں ۔پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ سب سے پہلے توجہ کراچی پر دیتی ۔یہاں کے ووٹرز کو عزت دینے کیلئے فوری نوعیت کے اقدامات کرتی ۔اس کیلئے 500ارب کے بیکیج کا اعلان کرتی ،گرین لائن منصوبے کو جلد مکمل کرا کے آپریشنل کرنے کا اعلان کرتی ،اپنے ایم این ایز اورایم پی ایز کو اپنے حلقوں میں جاکر ان کے مسائل معلو م کرنے اورانہیں حل کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی ہدایت کرتی تاکہ لوگوں کو اعتماد ہو تا کہ انہوں نے جس جماعت جو اپنے دکھوں کا مداواکرنے والی جماعت کے طور پر منتخب کیا ہے۔ وہ ان سے ہمدردی رکھتی ہے۔100دنوں میں بھی کوئی ایم این اورایم پی اے اپنے حلقے کے عوام کے پاس نہیں آیا۔ کورنگی ،نئی کراچی ،لانڈھی، سرجانی ،اورنگی ،بلدیہ ٹاؤن سمیت دیگر بڑی آبادیوں والے علاقوں کے درجنوں ذیلی علاقوں میں سڑکوں کابہتر انفرااسٹرکچر ہے نہ سیوریج کانظام ،بجلی کا نظام درست ہے نہ صحت وصفائی کا،لوگ انتہا ئی غیر معیاری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،یہ لو گ بہتر معیارزندگی کے منتظر ہیں۔ملک کوقائم ہوئے 70سال بیت چکے ہیں ،اس عرصے میں اگرہرایم این اے،ایم پی اے،ٹاؤن ویوسی ناظم اور چیئر مین ایماندارانہ طریقے سے عوام کا پیسہ اپنے حلقے کے گلی کوچوں کی ترقی کیلئے خرچ کرتاتو یہ ملک خوبصورتی اورترقی کے لحاظ سے پیرس اوربرطانیہ سے کہیں آگے ہوتا،مگر افسوس انہوں نے عوام کا کی خدمت کی نہ ان کا ایسا کوئی ارادہ تھا۔کراچی والے 35سال سے خوف زدہ ماحول میں زندگی گز اررہے تھے۔پاک فوج ،رینجرزاورسیکیورٹی اداروں کی کاوشوں سے خوف کے سائے اب ختم ہوچکے ہیں ،حالات اب بہت بہتر ہیں ،یہاں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں ،بیرونی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جا سکتی ہے ،ہم سمجھتے ہیں ابھی وقت نہیں گزراابھی بہت وقت کے اہالیان کراچی کے غم بانٹے جا سکتے ہیں ،ان کی دل جوئی کی جا سکتی ہے اوریہی وہ رازہے جس سے آئندہ کراچی میں آپ اپنی جگہ بنا سکتے ہیں ۔

حصہ
mm
1988 میں زمانہ طالب علمی سے قلم قبیلے کا حصہ بنے۔بچوں کی کہانیوں سے لکھنے کا آغازکیا ۔1997میں میٹرک کے بعد صحافت کے پیشے سے بطور سب ایڈیٹرمنسلک ہوئے۔2000سے 2012 تک روزنامہ جسارت کراچی میں بطور ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر ذمہ داریاں انجام دیں ۔مختلف نیوز چینلزمیں بھی کام کا تجربہ حاصل کیا۔آپ جامعہ اردوسے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں ۔کرنٹ افیئر ،بچے اورمعاشرہ آپ کے تحروں کا مرکزومحور ہیں ۔قلم کو اصلاح اورخدمت کیلئے استعمال کرناان کامقصد حیات ہے۔شاعری سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں ۔آپ اچھے کمپیئر بھی ہیں۔آج بھی ایک قومی سطح کے اخبار سے بطورسینئرسینئرسب ایڈیٹر منسلک ہیں ۔آپ رائٹرزفورم پاکستان کے صدر ہیںاورتقریباًتمام ہی اردو اخبار ات میں کالم کاری کرچکے ہیں،آپ کے سیکڑوں کالم ،مضامین ،فیچرزاوررپورٹس اخبارات وآن لائن ویب سائٹس کی زینت بن چکے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں