افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی‎

1925 میں ایک ممتاز فرانسیسی عالم عمرانیات پول   بیورو کی کتاب “اخلاقی انحطاط کی جانب” لندن سے شائع ہوئی۔اس کتاب نے فرانس اور فرانسیسی معاشرے بلکہ اگر یہ کہا جائے کے یورپین معاشرے کے اخلاقی زوال اور انحطاط کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔اس نے اپنی ہی قوم کے جانوروں سے بھی بدتر کرتوتوں کو کھول کھول کر بیان کردیا۔وہ لکھتا ہے؛

“فروری 1918 میں لوار کی عدالت میں دو لڑکیاں اپنے بچوں کے قتل کے  الزام میں عدالت میں پیش ہوئیں اور دونوں ہی  بری کردی گئیں۔ان میں سے ایک لڑکی نے اپنے بچے کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کیا تھا۔ اس کے ایک بچے کو اس کے رشتے دار پہلے سے پرورش کر رہے تھےاور اس دوسرے بچے کو بھی پرورش کرنے کے لئیے آمادہ تھے، مگر اس نے پھر بھی یہی فیصلہ کیا کہ اس غریب کو جیتا نہ چھوڑا  جائے۔ عدالت کی رائے میں اس کا جرم قابل معافی تھا۔ دوسری لڑکی نے اپنے بچے کا گلا گھونٹ کر ماردیااور گلا گھونٹنے پر بھی جب اس میں جان باقی رہ گئی تو دیوار پر مار کر اس کا سر پھوڑ دیا۔ یہ عورت بھی فرانسیسی ججوں اور جیوری کی نگاہ میں قصاص کی سزاوار نہ ٹہری۔ اسی 1918 مارچ میں سین کی عدالت کے سامنے ایک رقاصہ پیش ہوئی جس نے اپنے بچے کی زبان حلق سے کھینچنے کی کوشش کی، پھر اس کا سر پھوڑا اور اس کا گلاکاٹ ڈالا۔ یہ عورت بھی جج اور جیوری کی رائے میں مجرم نہ تھی۔”

یہ سب کام اتنی آرام سے آسان نہیں بن گئے تھے۔ ججوں اور جیوری کی نگاہ میں بھی یہ فورا سہل نہیں ہوگئے تھے۔ اس سب کے پیچھے ایک منظم مہم تھی۔ پہلے معاشرے میں ایسا لٹریچر، تھیٹر ، ڈرامے، فلمیں اور اشتہارات دکھائے گئے کہ “ناخوب” بھی خوب لگنے لگا۔ نکاح اور شادی کو زندگی کی سب سے بڑی مشکل بتایا گیا۔”آزادی” پر قدغن کا ایک ذریعہ دکھایا گیا۔ بیوی اور شوہر کا رشتہ مشکل کر کے گرل اور بوائے فرینڈ کو آسان بنایا گیا اور جب زندگی کا سارا مزہ سمٹ کر ہر دوسری لڑکی میں منہ مارنا اور ہر لڑکی کا ہر دوسرے لڑکے سے “عشق معشوقی” کرنا رہ جائے تو پھر نکاح کیسا؟ اور شادی کیسی؟ اور اگر بحالت مجبوری معاشرے کو دکھانے اور “دقیانوسی” دماغ رکھنے والے پرانے زمانے کے گھر والوں کا منہ بند کروانے کے لئیے شادی ہو بھی گئی تو کم سے کم فرار کے راستے تو مسدود نہ ہوں ۔ یہ سوچ  کر ایک منظم انداز میں نسل نو کے قتل عام کا منصوبہ بنایا گیا۔ جہاں بچوں کا قتل  جج اور عدالت سمیت پورے معاشرے کو اس کو ہنس کر سہہ جانا بھلا کیا مشکل کام تھا؟

اور اب یہی طرز عمل ہمارے معاشرے میں بھی لانے کا کام پورے زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ اکبر آلہ آبادی نے کہا تھا؛

بچوں کے یوں قتل سے بدنام نہ ہوتا

افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

آپ تماشہ ملاحظہ کریں۔ دنیا کے کسی ملک میں جب کوئی ریسورس دریافت ہوتی ہے تو اس ملک میں خوشحالی آتی ہے۔ “منرل ریسورس” کے لئیے بھاری بھاری مشینیں لگائی جاتی ہیں۔ بے پناہ اخراجات اٹھائے جاتے ہیں، ماہرین کو بلایا جاتا ہےاور اس بات کی خوشیاں منائی جاتی ہیں کہ ہمارا ملک “منرل اور نیچرل ریسورس” سے مالا مال ہے لیکن آپ بحثیت قوم ہماری کم عقلی اور بے قوفی کا تماشہ دیکھیں کہ ہم اپنے ” ہیومن ریسورس” سے ہی پریشان ہیں جو ان منرل اور نیچرل ریسورسز کی دریافت کا ذریعہ ہے۔ہم بھی عجیب لوگ ہیں، ہم بے جان ریسورس سے خوش ہوتے ہیں جب کے دل اور دماغ رکھنے والی اس کمال کی ریسورس کو محدود کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ آپ اندازہ تو کریں جو انسان ہواؤں اور خلاؤں تک اپنے دماغ کی بدولت پہنچ گیا، جس کی بے پناہ صلاحیتوں کا یہ عالم ہے کہ اس نے سمندر کی تہوں میں پہنچ کر دنیا کو حیران کردیا ہے اور جو ایک ایک سال سے زیادہ سمندر کے اندر رکنے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے۔ ہم اسی کے پیچھے لاٹھی لے کر پڑگئے ہیں۔ دنیا بھر میں بزرگ اور ضعیف لوگ زیادہ ہیں ۔ ہم وہ خوش قسمت ترین ملک ہیں جو نوجوانوں کا 65 فیصد رکھتے ہیں اور ہم اس “ہیومن ریسورس” کو استعمال میں لانے کے بجائے اس سے پریشان ہیں۔

اپنی نااہلی اور کم عقلی کا یہ کونسا علاج ہے کہ اس قیمتی ترین “ریسورس” پر ہی پابندی لگادوجو کہ آپ کو ہینڈل کرنا نہ آتی ہو۔ آپ مردم شماری تک ٹھیک سے نہ کرسکیں، آپ 30 سے 40 سالوں میں ایک ڈیم تک نہ بنائیں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا یہ حال ہو کہ صرف نالہ لئی کی صفائی کا بجٹ بلوچستان کے کل بجٹ سے زیادہ ہو۔ ملک کو 70 فیصد ریوینیو دینے والا شہر بلک اور سسک رہا ہو۔پورے ملک میں کوئی ڈھنگ کا سرکاری اسپتال، اسکول اور کالج نہ ہو، آپ کے ملک کی کوئی سرکاری جامعہ ٹاپ 500 میں بھی شامل نہ ہو۔ محنت کرنے والے کے منہ سے نوالہ چھینا جاتا ہو اور صرف 2 فیصد لوگ 98 فیصد لوگوں کے مال پر جونک کی طرح چپک کر بیٹھے ہوں ، ہر دفعہ نئی پارٹی میں جاکر پرانی وزارت کے مزے لیتے ہوں۔ 1947 کے بعد سے آپ ایک انچ ریل کی پٹڑی میں اضافہ نہیں کرسکے ہیں۔چلتی ہوئی سرکلر ریلوے تک نہیں چلاسکے ہیں۔8500 میڈیکل کے طلبہ و طالبات کے لئیے کراچی جیسے شہر میں 750 سیٹیں ہوں اور باقی بچے اے- ون گریڈ لے کر بھی رُل رہے ہوں۔پینے کا صاف تو چھوڑیں گندا پانی تک نلکوں میں نہ ہو اور گٹر کا گندہ پانی ہر وقت سڑکوں پر ہی موجود ہو۔جہاں سڑکیں کم اور گڑھے زیادہ ہوں ، اہم شاہراہیں تک طریقے سے نہ بنی ہوئی ہوں ،  ساڑھے اٹھارہ لاکھ مقدمات عدالتوں میں زیر التواء ہوں اور میرے ملک کا قاضی القضاء “دو بچے خوشحال گھرانہ” کی مہم چلانے میں مصروف عمل ہو۔

وہاں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئیے اللہ تعالی کے اتنے بڑے “ریسورس” اور “پروجیکٹ” کو موردالزام نہ ٹہرائیں۔ آپ نے تو ویسے بھی کچھ نہیں دیا ، آپ دے بھی نہیں سکتے ہیں اس کے باوجود آج  95 فیصد پاکستانی اپنے والدین سے کہیں زیادہ اچھی زندگی گزار رہے ہیں اوران وسائل اور سہولیات سے لطف اندوز ہورہے ہیں جو ہمارے اباؤاجداد نے خواب میں بھی نہیں دیکھی تھیں۔

اللہ تعالی قرآن میں دو جگہ فرماتے ہیں کہ اپنی اولاد کو رزق کے ڈر سے قتل مت کرنا دیکھو تمھیں بھی ہم کھلاتے ہیں اور انھیں بھی ہم ہی کھلائیں گے۔اللہ کے رسول نے فرمایا ؛ اللہ تعالی کو ایک خوبصورت عورت سے زیادہ  ایک بچوں والی عورت پسند ہے۔فرمایا؛ زیادہ بچے جننے والی اور زیادہ محبت کرنے والی عورتوں سے نکاح کرو” اور فرمایا کہ ؛ زیادہ بچے پیدا کرو میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کرونگا۔”سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ؛ عورتیں تمھاری کھتیاں ہیں” اور کھیت میں کسان بستر ڈال کر لیٹنے کے لئیے نہیں پیداوار اگانے جاتا ہے۔

آپ ترکی کی مثال لے لیں ۔انھوں نے اپنا پیسہ اور اپنے وسائل اپنی عوام پر خرچ کئیے ہیں اور اب ان کو اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ “ریسورس” تیل، پیٹرول، گیس اور سونے چاندی سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ اسلئیے طیب ایردوان نے اعلان کردیا کہ “دو سے زیادہ بچے پیدا کریں تاکہ ہماری قوم ترقی کرے۔” ترک حکومت اس گھرانے کو  وظیفہ دیتی ہے جہاں دو سے زیادہ بچے ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کا انتطام کر کے ملک و قوم کے لئیے کارآمد فرد بناسکیں۔ اس سے انکار نہیں ہے کہ صحت اور صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ انفرادی حثیت میں وقتی طور پر بچوں کی کمی یا زیادتی کا فیصلہ کرلیں لیکن قومی اور حکومتی سطح پر اس قسم کی بے قوفی کے بجائے وسائل کو بروئے کار لاکر اس  قیمتی ترین “ریسورس” کو کام میں لانے کے اقدامات کئیے جائیں۔مغرب کی دی ہوئی ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ بھاگیں ۔ جس گڑھے میں گر کر انھوں نے اپنا خاندانی اور معاشرتی نظام تباہ و  برباد کرلیا ہے  اس تباہی اور جہنم کی طرف ملک کو نہ لے کر جائیں۔میرے ملک کا “دانشور” رقم طراز ہے کہ شادی کے بعد پانچ سال تک بچوں پر پابندی لگائی جائے ۔اللہ تعالی نے میاں اور بیوی کے درمیان محبت کا جو ذریعہ اور رشتہ بنایا ہے وہ یہی اولاد ہے جو دیر اور دور تک بلکہ زندگی کی آخری سانس تک ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے ۔ اس شادی کا سب سے بڑا اور اولین مقصد نسل انسانی کا تحفظ اور دنیا کو ایسے کارآمد افراد فراہم کرنا ہے جو  لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ “ریسورس” پر پابندی لگانے کے بجائے لوگوں کو صیح تعلیم و تربیت اور ان کی سمت متعین کریں، لوگوں کو شعور دینے اور خود حکومت کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں