جگتوں کی سر زمین ۔۔۔۔۔فیصل آباد 

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جب 1962 کا آئین پیش کیا گیا تو ملک کے کونے کونے سے احباب فکرو ادب اور ارباب سیاست نے آئین پر تنقید کو اپنا حق سمجھتے ہوئے ایسے آڑے ہاتھوں لیا کہ جیسے رضیہ غنڈوں میں پھنس کر رہ گئی ہو۔بلکہ چائے کے کھو کھے پہ بیٹھنے والا وہ بندہ جسے گھر والے چولھے کے پاس بھی نہیں بیٹھنے دیتے وہ بھی کہتا پھر رہا تھا کہ ایوب خان نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔تنقید کی بڑی وجہ آئین کا صدارتی ہونا تھا کہ جس کے مطابق اختیارات کا منبع صدرِ محترم کی ذات کو خیال کیا گیا۔ایک سیاستدان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق صدر کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ اگر مرد کو عورت اور عورت کو مرد ڈکلئیر کردے تو آئینی اختیارات کی رو سے عوام کو اس آئینی حق پر تسلیم بجا لانا ہوگا۔اس آئینی اختیارات کے بارے میں جسٹس کیانی سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ آئین میں صدر کو وہی حیثیت حاصل ہے جو فیصل آباد کے آٹھ بازاروں میں گھنٹہ گھر کو حاصل ہے‘‘گویا انگریزوں کے بنائے ہوئے اس گھنٹہ گھر کو شہرت دوام 62 کے آئین نے بخشی۔ویسے فیصل آبادتین باتوں کی وجہ سے اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے،نصرت فتح علی خان،جگت اور گھنٹہ گھر۔آٹھ بازاروں میں سے کسی ایک میں بھی قدم رنجہ فرما ہو جائیے گھنٹہ گھر ہر بازار سے منہ چڑاتا ہوا ایسے نظر آئے گا جیسے محبوب کے گھر کسی گلی سے بھی داخل ہونے کی کوشش کر لیجئے ایک خاص قسم کا مخصوص کھانسی والا بابا ہر بار آپ کے سامنے آ جائے گا۔بلکہ کبھی کبھار تو وہ پوچھ بھی لے گا کہ کاکا تیرا تیسرا چکر اے ایس گلی دا،سب خیر تے ہے نا۔فیصل آباد میں کسی بھی دکان میں تشریف لے جائیں ہر بندہ جگت کے لئے ہمہ وقت تیار ملے گا۔ایسے ہی اگرکسی بچے سے بھی نصرت کے بارے میں بات کر کے دیکھ لیں تو وہ گیان پہلے لگائے گا تعارف بعد میں کروائے گا۔
پرانی بات ہے کہ جب کمپیوٹر نیا نیا پاکستان میں متعارف ہوا تھا ،مجھے ڈیٹا کیبل کی خریداری کے لئے کچہری بازار جانے کا اتفاق ہوا۔ایک دکان سے کیبل لیتے ہوئے میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ بابا جی ذرا مضبوط سی ڈیٹا کیبل دینا،بابا جی معا میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے گویا ہوئے کہ’’بیرے توں ایہدے نال لیپ ٹاپ چلانا اے کہ کھوتا ریڑھی کھچنی اے‘‘یعنی تم نے اس کیبل سے لیپ ٹاپ چلانا ہے یا گدھا گاڑٰی کھینچنی ہے۔اس دن مجھے اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا کہ واقعی فیصل آباد میں اتنی فصل نہیں ہوتی جتنی کہ جگت ہوتی ہے۔یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ لفظ ’’بیرا‘‘ ویر کی بگڑی شکل ہے جو برادر یا بھائی کے معنی میں مستعمل ہے۔یہ لفظ فیصل آباد میں اس قدر بولا جاتا ہے کہ کبھی کبھار تو بیوی اپنے سکے شوہر کو بھی ’’بیرا‘‘ کہہ کر ہی مخاطب کر دیتی ہے،بیرے کے اس بے محل استعمال کے بعد اب ضلعی حکومت کو اعلان کرنا پڑ گیا ہے ،روانی میں بیوی کا شوہر نامدار کو بیرا کہنا جائز عمل ہے ہاں مگر تکرار ممنوع ہے۔
ؓبھلے آپ کتنے ہی بھلے مانس کیوں نہ ہوں فیصل آباد کی ہوا لگتے ہی دل و دماغ میں جگتیں در آتی ہیں،یقین جانئے جب میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد کا طالب علم تھا تو ہمارے اکنامکس کے پروفیسر سر مختار، اکنامکس جیسے خشک مضمون سے بھی خشک ترین شخصیت کے مالک تھے مگر جب کبھی بھی سبجیکٹ سے ہٹ کر کوئی سوال کیا جاتا تو ایک دم سے ان کے اندر کا میراثی جاگ اٹھتا،مثلا سوال یہ کیا جاتا کہ ’’سر آپ کہاں کے ہیں‘‘جواب ملتا’’اسی جہاں کا باشندہ ہوں‘‘
نہیں سر ہمارا مطلب آپ کہاں رہتے ہیں؟
’’اپنے گھر،ہاں کبھی کبھار پڑوسیوں کے ہاں بھی۔۔۔۔۔۔دیر بعد جملہ اضافی بولا جاتا ، جب وہ گھر میں نہ ہوں‘‘
نہیں سر مطلب آپ کا علاقہ کون سا ہے؟
’’شریفوں کا علاقہ ہے’علاقہ غیر‘ میں تھوڑی رہونگا‘‘
ایسے ہی میرے ایک پروفیسر تھے شوکت علی قمرؔ جو صاحب اسلوب شاعر تھے اور اردو و پنجابی میں خوبصورت سنجیدہ شاعری فرماتے تھے۔قوی الجثہ ہونے کی بنا پر ایک بار ان سے سوال کیا گیا کہ سر آپ پہلوانی کا شوق بھی فرماتے ہیں،تو علمی طور پر کھڑے ہو کر اپنے کپڑے جھاڑنے لگے۔پوچھنے پر بتا یا کہ میں سمجھا کہ میرے کپڑوں پر اکھاڑے کی مٹی لگی ہوئی ہے جو آپ لوگوں نے یہ سوال داغ دیا۔ایسے ہی عزت علی بیگ سر، ہمارے انگریزی کے پروفیسر تھے۔ان کی فکاہیہ طبیعت کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں کہ ایک گاؤں سے آنے والے بچے سے پوچھا کہ تم کتنے بہن بھائی ہو جس پر اس بچے نے جواب دیا کہ سر ہم ماشااللہ آٹھ بہن بھائی ہیں۔
عزت سر نے فورا کہا کہ ’’بابا سے کہو کوئی اور کام بھی کیا کرو،اور اگر کوئی اور کام نہیں ملتا تو چند راتیں گھر سے باہر گزار کے دیکھ لیں۔ہو سکتا ہے بڑھتی ہوئی آبادی کی اس ٹرین کو بریک لگ جائے‘‘
فیصل آباد میں کسی بھی مارکیٹ میں چلے جائیں ان سب کی جگتیں الگ الگ ہونگی۔جیسے کپڑے کی دکان سے اگر کوئی کالے رنگ والا شخص سفید لٹھا مانگ لے تو اس کی خیر نہیں ،اس کا استقبال ایک سے بڑھ کر ایک جگت سے کریں گے۔جیسے،نا ۔۔۔بیبا۔۔تم پہ یہ سوٹ نہیں کریگا۔نا۔۔مرنے کا پروگرام ہے۔۔۔پاپلین نال گزارہ کر لے لٹھا بیرے مہنگا ہندا وا۔اور اگر ان سے دو گھوڑا بوسکی طلب کر لی جائے تو جگتوں کا ایسا طبلہ بجاتے ہیں کہ اچھے بھلے شیخوں کے بچوں پر بھی میراثی ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔جیسے کہ
’’تیرے جثے دے مطابق دو نئیں بیرے اک گھوڑا ہی اچھی رہے گی‘‘۔
’’نا تے نے دو گھوڑیاں نال تانگہ چلانا اے‘‘
’’دو گھوڑا بوسکی دا سوٹ بیرے کافی مہینگا ہوندا اے،چل بیرے توں ایہدی فوٹو سٹیٹ کروا کے گھر لے جا ،تیرا وی شوق پورا ہو جاؤ تے بھابھی وی خوش ہو جاؤ گی‘‘
’’بیرے جے سوٹ وچوں دونوں گھوڑے نکل کے نس گئے تے تیرے کولوں انہاں نوں پھڑنا اوکھا ہو جانا ای،لہذا توں دو گھوڑا بوسکی دی بجائے کمالیہ دا کھدر ای لے جا‘‘
پاکستان کے مانچسٹر یعنی فیصل آباد میں سبھی قسم کے تعلیمی ادارے موجود ہیں مگر طلبا کی تعداد بیرون، شہروں سے تعلق رکھتی ہے۔اس کی وجہ ماہرین تعلیم، شیخ برادری کی کثرت کو قرار دیتے ہیں۔ان کا کہنا بجا ہے کہ ہم بچوں کو ڈگری دکھاتے ہیں جبکہ شیخ صاحب روپے دکھا کر بازی لے جاتے ہیں۔اس کی عملی شکل فیصل آباد کی سوتر مارکیٹ ہے،یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کو پیسوں اور بابوں کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہم ہیں تو پیسہ ہے جبکہ ان کے بچوں کا کہنا ہے کہ پیسہ ہے تو ہم ہیں،اسی لئے شیخوں کے بچے فیصل آباد میں اتنا ہی اپنے بابوں کو سنبھال کے رکھتے ہیں جتنا پیسے کو سنبھالتے ہیں۔سوتر منڈی میں پیسے کی ریل پیل دیکھ کر یہ بات سچ ماننے کو دل کرتا ہے۔
سیٹھ نئیں تے شیخ نئیں
ادبی اعتبار سے بھی اس شہر معصوم کی سر زمین بڑی زر۔۔۔خیز ۔۔ہے،یعنی آپ کو ہر ادبی بندہ ’’زر‘‘کے پیچھے بھاگتا دکھائی دے گا۔بھلے وہ زر تاج بیگم ہی کیوں نہ ہو۔اس شہر کے لوگ زر اور زن کو سر کا تاج ہی بنا کر رکھتے ہیں۔اسی لئے زر ان کی جیب میں اور زن ان کے سر پر سوار ی کرتی دکھائی دیتی ہے۔یہاں کے لوگ بیویوں کے تھلے‘‘ نہیں لگتے بلکہ بیگمات کو اپنے سر پر بٹھا کر رکھتے ہیں۔ویسے بھی اس شہر میں کسی کو جراٗت نہیں کہ کسی دوسرے کو رن مرید کہے،کیونکہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔بلاشبہ ’حضرات ‘کو ننگے کرنے کا سہرا خواتین کے سر جاتا ہے،کچھ بھی کہیں جناب اگر فیصل آباد نہ ہوتا تو آدھا ملک ننگِ بدن ہوتا اور باقی ماندہ ننگ افلاس،شکریہ فیصل آباد کہ کپڑے سے جسم ڈھانپنا سکھا دیا اور جگتوں سے مسکرانا وگرنہ تو معاشی تنگدستی میں ہنسی کہیں نیچے ہی دب کر رہ جاتی۔خدا قائم و دائم رکھے فیصل آباد کو (آمین)

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

2 تبصرے

  1. بہت اچھی نقاشی کی ہے سر آپ نے ہمارے پیارے شہر کی۔۔۔
    ہن دوبارہ کدی ساڈے شہر آوو
    ہن تے تصویر دا پاسا ای بدل گیا وا۔۔۔۔۔

  2. ” بیرے”۔۔۔ دوحہ دے شیخ تے فیصلا باد دے شیخاں وچ کی فرق اے۔۔۔ ذرا ایہہ وی دس دیو سانوں۔

جواب چھوڑ دیں