کپتان کا بیان اورسیاسی شگوفے!!!

یو ٹرن کے بعد مرغیاں اورکٹے پالنے اورانڈوں کے کاروبار کا ہرطرف شور ہے ۔سوشل میڈیا پر اس سے متعلق بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں ۔بات بھی کیوں نہ کی جائے،عوامی وزیراعظم نے عوامی بات کی ہے ،جسے شاید لوگوں نے تفریح کا ذریعہ بنا لیاہے۔ہم یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ کپتان کے اس بیان پر بڑے پیمانے پرتبصرے کیے گئے ،حالانکہ کپتان نے تو بل گیٹس کے حوالے سے بات کہی تھی اورکاروبار کیلئے مفید مشورے دیئے تھے ۔ہماری قوم کو بھی ہنسے کا موقع چاہیے ،کسی چیز ہر ہنستی ہے تو ہنسے ہی چلی جاتی ہے ،کپتان نے تو یہ بات آج کہی ہے اور لوگوں کے چہروں ہر مسکراہٹیں بکھر گئی ہیں ،قوم کیلئے یہ سیاسی شگوفے تو گزشتہ کئی دہائیوں سے چھوڑے جا رہے ہیں ،جنہیں سن کر من بے ساختہ ہنسنے اورقہقہے لگانے کوچاہتا تھا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں کراچی کے دورے سے واپس اسلام آباد جا کرفرمایا کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک دیکھ کرپتا چلتاہے کہ ملک بہت ترقی کررہا ہے۔پھر جب میڈیا پر ان کی حکومت پر مہنگائی کیلئے تنقید ہوئی اور کہا گیا کہ دالیں بھی مہنگی ہو گئی ہیں توکچھ یوں گویا ہوئے کہ دال مہنگی ہوگئی ہے تو کوئی بات نہیں مرغی سستی ہے وہ کھائیں ،غریب آدمی کیلئے یہ بہت اچھی ہے ۔
پیپلز پارٹی کے سابقہ دورمیں جب ملک بھر میں اعلانیہ وغیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اپنے نقطہ عروج پر تھی تو اس وقت کی بہبود آبادی کی وزیرفردوس عاشق اعوان نے لوڈشیڈنگ پر عوامی احتجاج پر بیان داغا کہ لوڈشیڈنگ کے باعث ملک کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ان کے اس بیان پرلوگ انگشت بدنداں ہوئے بغیر نہیں رہے ،کیونکہ انہوں نے تو لوڈشیڈنگ کی وجہ سے لوگوں کے مرنے کھپنے کے بجائے افزائش نسل کا ہی فلسفہ بیان کر دیاتھا۔
2013کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی نوازشریف کی حکومت کے صدرممنون حسین بھی لوگوں کی تفریخ کا خوب باعث بنے ،لوگوں نے تو سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں اشعار تک کہہ ڈالے جن میں سے ایک شعر یہ تھا :
بہت خاموش ہوتا جارہا ہوں صدر ممنون ہوتا جارہو ں
انہوں نے مسند صدارت سنبھالتے ہی ایک بیان عالی شان جاری کیا ۔فرمایا کہ میراجی چاہتا ہے کہ میں بھیس بدل کرملک کے لوگوں کے مسائل سے آگہی حاصل کروں ۔ممنون حسین کے بیان نے خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ کے دور کی یاد تازہ کردی جس کی روشن خدمات، جرات و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے اوروہ بھیس بدل کرلوگوں کے حالات زندگی معلوم کیا کرتے تھے ،اس وقت کے لوگ بھی اورہی تھے ،وضع قطع والے ،شرم وحیاوالے اپنا مسئلہ کسی کو بیان کرتے ہوئے بھی شرماتے تھے۔ ممنون حسین صاحب کا بیان یاد کرکے آج بہت ہنسی آتی ہے اور ان کے بھولا بن اورسادگی پرمرجانے کو جی چاہتا ہے۔ ،دنیا جانتی ہے پاکستانیوں کے مسائل کیا ہیں ۔اس میں بھیس بدلنے کی کیا ضرورت ہے۔آپ بھیس بدلے بغیر بھی لوگوں کے پاس جاتے تو وہ لازمی آپ کو پہچان لیتے ۔
حروں کے روحانی پیشو امرحوم پیرپگاراکے بیانات بھی اخبارات میں شہ سرغیوں میں شائع ہواکرتے تھے،کبھی کبھی وہ شگوفے بھی چھوڑٹے تھے جو ان کے دور میں کافی مقبولیت حاصل کرتے رہے ہیں ۔حکومت کو درپیش چیلنجز اور مشکلات میں اکثر یہ بیان سامتے آتا تھا کہ انہیں بوٹوں کی آواز سنائی دے رہی ہے ۔کبھی اسپتال داخل ہوتے تو وہاں سے رخصتی پربیان آتا کہ ان کا دل نہیں چاہتا کہ وہ اسپتال سے گھر منتقل ہوں،نرسوں نے ان کی اچھی دیکھ بھال کی ،ان کے بیانات میں برجستگی ہوتی تھی ۔ہلکی پھلکے بیانات بڑی خوبصورتی سے دیتے تھے اورمیڈیا بھی انہیں بہت اہمیت حاصل تھی ۔
سندھ کے سائیں قائم علی شاہ نے اپنی سرکا رمیں وہ شگوفے چھوڑے کو آج تک ہمارے ذہنوں سے محو نہیں ہوئے ۔مون سون کی بارشوں میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے شہر کے نالوں کی صورتحال پرمتعلق میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ ابھی ابھی گجر نالے کا طبی معائنہ کرکے آئے ہیں وہاں صورتحال بہتر ہے۔پھر شدید بارش سے شہرکی صورتحال خراب ہوئی تو سی ویوپر صحافیوں سے گفتگو میں کچھ یوں گو یاہو ئے کہ شہر میں 156ملی میٹربارش ہوئی ہے ،ان کے اسی طرح کے بھی کئی بیانات یاد گاربنے۔یہ وہ بیانات تھے جن میں ان سے جان بوجھ کرغلطیاں نہیں ہوئیں بلکہ پیرانہ سالی کی وجہ سے تھیں۔
بلاول بھٹوبھی اپنے سیاسی کیریئر کے ابتدا میں بہت جذباتی تقاریر کرتے تھے ،ان کی تقاریر لکھنے والے ان کی تقریر میں کوٹ کوٹ کر جذباتی جملے لکھا کرتے تھے ،ابھی ان کا حال ہی میں ایک بیان آیا جسے پڑھ کرہمارے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی ۔انہوں نے کپتان کے بارے میں کہا کہ لاڈلے نے چاند مانگا تھا اسے حکومت دے دی گئی ۔
برجستہ بیانات میں جے یو آئی کے حافظ حسین احمد کچھ کم نہ تھے مگر امیرجماعت اسلامی پاکستان بھی پیچھے کسی سے نہیں رہے ،ایک بیان میں فرمایا ملک کو نوازشریف کی نہیں قرآن شریف کی ضرورت ہے ،ایک اوربیان میں انہوں نے پرانی ایم کیوایم کے قائد کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ جی تھری کا نہیں تھری جی کازمانہ ہے ۔پختون ہونے کے باوجو د وہ اردو کے جملوں برجستگی اورمہارت کے ساتھ ادائیگی میں ان کا ثانی نہیں ۔
ماضی میں مفاہمت کی سیاست کی گئی جو کپتان کے دورمیں دم توڑگئی ہے ۔مفاہمت کے نام پر جو کھیل تماشے ہوئے دنیا میں دیکھے گئے ۔کراچی میں ماہا نہ سیکڑو ں افرادمکھیوں و مچھروں کی طرح مار دیئے جاتے تھے،کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔پرانی ایم کیوایم کی صبح سندھ سرکار سے لڑائی ہوتی تھی ،شام کو ہاتھ پاؤں جوڑکر منا لیا جاتا تھا ،رات بھر جگ ہنسائی ہوتی تھی ،سیاست کا یہ کھیل بھی بہت نرالا اورخوفناک تھا ۔خودپرانی ایم کیوایم کے قائد پہلے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دیتے بعدمیں واپس لے لیتے تھے ۔ان کے بیانات میں تلخی اورخوف ہوتا تھا جواب ہوا ہوچکا ہے۔ماضی میں وہ ایسے ایسے بیان داغ دیا کرتے تھے،پھر نشر ہونے اورعوام تک پہنچنے اورردعمل آنے کے بعد میڈیا پر اسے سیاق سباق سے ہٹ کر بیان کرنے کا الزام آجاتا تھا ،بعض بیانات پر توان کے رہنما ؤں کو کئی روزتک صفائیاں بھی پیش کرنا پڑتی تھیں۔
سیاست میں رہنما بڑے بڑے بیان دے دیتے ہیں ،جس سے ان کی ذات پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔پی ایس پی سربراہ مصطفی کمال نے2018 انتخابات سے قبل دعویٰ کیا کہ سندھ میں پی ایس پی کلین سوئپ کرے گی ،ان کے بیان سے ایسا گماں گزرتا تھا کہ شاید معاملات پہلے سے طے ہو چکے اور کراچی ان ہی کو ملنے والا ہے اور وزیر اعلیٰ ان ہی کا ہوگا ۔انتخابات کا نتیجے جب الٹ آیا تو مصطفی کمال صاحب کی کئی روز تک میڈیا سے دوری کو بری طرح محسوس کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی ایک شگوفہ چھوڑاہے ،صحرائے تھر میں رواں برس اب تک 250کے قریب بچے غذائی قلت کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ گزشتہ چند روز قبل بھی 8,10اموات ہوئی ہیں ،مٹھی اسپتال کے دورے میں فرماتے ہیں کہ تھر ترقی کررہاہے ۔
ماضی کی حکومتیں بھی یوٹرن لیتی تھیں ،ان کے بیانات سے صاف پتا چلتا تھا،ان ادوارمیں جوبات مثبت میں بیان کی جاتی تھیں وہ اصل میں منفی میں ہوتی تھیں یعنی کہی گئی بات کا الٹ ہوتا تھا ،مثال کے طور ہر پرویز مشرف جب صدارت کے آخرای ایام گن رہے تھے تو کبھی ایوان صدرکا کبھی شیخ رشید کا بیان آتا کہ صدر مشرف اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے لیکن اصل میں انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ حالیہ دور میں بھی نوازشریف کیااستعفیٰ نے دینے کی سختی سے تردید کی جاتی رہی تھی۔عوام کوریلیف دے رہے ہیں ۔تھر میں کو ئی قحط سالی نہیں ۔ملک ترقی کررہا ہے ،لوڈشیڈنگ کم ہو گئی ہے ،یہ سب وہ بیانات ہیں جن کا ہمیشہ الٹ ہی ہوتا رہاہے ۔

کپتان پر تنقید کے نشتر چلانے والوں کی گزارش ہے کہ وہ صبر کے گھونٹ پی لیں ،ان کی حکومت کو ابھی سو دن ہوئے ہیں ،بہت وقت باقی ہے ،وہ عوامی لیڈر ہیں اور عوامی لیڈرز کا انداز ایسا ہی ہوتا ہے ،آپ کو نہ جانے ابھی اور کتنے شگوفے سننے کو ملیں گے،اس کیلئے انتظارکریں ۔

حصہ
mm
1988 میں زمانہ طالب علمی سے قلم قبیلے کا حصہ بنے۔بچوں کی کہانیوں سے لکھنے کا آغازکیا ۔1997میں میٹرک کے بعد صحافت کے پیشے سے بطور سب ایڈیٹرمنسلک ہوئے۔2000سے 2012 تک روزنامہ جسارت کراچی میں بطور ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر ذمہ داریاں انجام دیں ۔مختلف نیوز چینلزمیں بھی کام کا تجربہ حاصل کیا۔آپ جامعہ اردوسے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں ۔کرنٹ افیئر ،بچے اورمعاشرہ آپ کے تحروں کا مرکزومحور ہیں ۔قلم کو اصلاح اورخدمت کیلئے استعمال کرناان کامقصد حیات ہے۔شاعری سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں ۔آپ اچھے کمپیئر بھی ہیں۔آج بھی ایک قومی سطح کے اخبار سے بطورسینئرسینئرسب ایڈیٹر منسلک ہیں ۔آپ رائٹرزفورم پاکستان کے صدر ہیںاورتقریباًتمام ہی اردو اخبار ات میں کالم کاری کرچکے ہیں،آپ کے سیکڑوں کالم ،مضامین ،فیچرزاوررپورٹس اخبارات وآن لائن ویب سائٹس کی زینت بن چکے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں