ٹوٹا ہوا تارا

کاؤتلیا پنڈت کا تعلق ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں خواند سے ہے۔ اس بچے کی عمر 5 سال ہے لیکن یہ بچہ ساری دنیا میں ” گوگل بوائے” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اس بچے کو امیتابھ بچّن نے اپنے مشہور پروگرام ” کون بنے گا کروڑ پتی ” میں بلایا اور پھر اس بچے نے کمال کردیا نہ صرف یہ کہ اس نے تمام سوالوں کے جواب دئیے بلکہ درست جواب دے کر میزبان سمیت ساری دنیا کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔

اگرچہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اس کا دماغ بھی ” آئنسٹائن ” کی طرح عام دماغوں سے ذرا ہٹ کر ہے اور اس نے آئی – کیو کے ٹیسٹ میں بھی پورے 150 نمبر حاصل کرلئیے لیکن دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ بچہ پہلے ڈانس اور یوگا کیا کرتا تھا لیکن اب اس کی ساری دلچسپی سمٹ کر سائنس اور حساب میں آگئی ہے۔ اسے دنیا کے 213 ممالک کے نام، ان کے دارالحکومت، ان کے جی – ڈی – پیز  اور فی فرد آمدن سمیت دنیا کے تمام ہی بڑے سمندروں، دریاؤں، صحراؤں اور جنگلوں کے بارے میں بھی معلوم ہے۔یہ بچہ کسی بھی فگر کو راؤنڈ کرنے کے بجائے فریکشن میں ہی بتادیتا ہے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ صرف اپنے گھر کے بنے ہوئے کھانے کھاتا ہے۔اس کو فاسٹ فوڈ بھی پسند نہیں ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سیاست اور حالات پر بھی اس کی گہری نظر ہے۔پانچ سال کی عمر میں اس بچے کے دو  ہی دوست ہیں ایک اس کے دادا اور دوسرے  ان کی کتابیں۔ یہ اپنے والد کے ہی قائم کردہ گاؤں میں ایک چھوٹے سے اسکول “ہرت ماڈرن اسکول” میں پہلی جماعت کا طالبعلم ہے جو کہ یقینا اس بچے کی صلاحیتوں کے حساب سے ہمارے نظام تعلیم پر ایک زوردار طمانچے کی مانند ہے۔

نوہ اسکانو وہ دوسرا بچہ ہے جس کی عمر صرف تین سال ہے ۔اس بچے کا تعلق فلپائن سے ہے۔ یہ کچھ بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتا لیکن اس کو دنیا کے تمام ممالک سمیت امریکا کی تمام ریاستوں کے جھنڈے اور نام تک یاد ہیں۔ یہ نقشہ دیکھ کر ملک کا نام بتا سکتا ہے۔مشہور جگہیں دیکھ کر شہر کا نام بتا سکتا ہے اور تمام ممالک کے دارالحکومت تک اس کو ازبر ہیں۔کیونکہ ان بچوں کے والدین نے ان کو گھر پر موبائل اور ٹیب دینے کے بجائے “اٹلس”، “گلوب” اور نقشے تھمائے ہیں۔ خود کو مارننگ شوز، فیس بک اور انسٹا گرام کے حوالے کر نے، صبح شام صرف کپڑوں، کپڑوں اور کپڑوں کی دوڑ میں لگنے،کس ریسٹورینٹ میں کونسا کھانا کھائیں اس سوچ و فکر میں غرق رہنے کے بجائے اپنے بچوں کو ” کوائلٹی ٹائم ” دیا ہے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے شوق اور دلچسپیاں معلوم کی ہیں تب جاکر یہ بچے ابھی سے کندن بننا شروع ہوگئے ہیں۔

ان کے والدین نے ان کے پیدا ہوتے ہی اسکولوں کو تلاش کرنے اور مہنگے مہنگے اسکولوں کو ڈھونڈنے کے بجائے خود کو ہی اپنے بچوں کا استاد مقرر کرلیا تاکہ بچے ان سے سیکھیں اور وہ بچوں کو سکھائیں۔یہ باتیں ہمارے لئیے اس لئیے بھی حیرت بن گئی ہیں کیونکہ ہم اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کے واقعات کو بھول بیٹھے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی ان واقعات سے بالکل محروم رکھا ہے۔ہم نے ان کو یہ بتایا ہی نہیں کہ ایک ہزار سال تک ہندوستان اور 800 سال تک یورپ پر حکمرانی تمھارے “علم” کا نتیجہ تھی۔ہم نے اپنے بچوں کو ان کی تاریخ سے ہی اندھا، بہرہ اور گونگا بنا دیا ہے۔ بچوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ جب تک ہمارے پاس زیادہ علم والا زیادہ عزت والا ہوتا تھا ہم دنیا میں ترقی کرتے رہے۔اسوقت لوگ اپنے عظیم الشان گھر اور محلات بعد میں بناتے تھے لائبریری کے لئیے جگہ پہلے مختص ہوتی تھی۔

بغداد، کوفہ، بصرہ، سمرقند و بخارا، غرناطہ، اشبیلیہ اور قاہرہ میں کتابوں کی باقاعدہ نیلامی ہوتی تھی اور بولیاں لگتی تھیں۔زیادہ کتابیں خریدنے اور بڑی سے بڑی لائبریری رکھنے والے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔علم کے پیاسے ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے سے تیسرے شہر محو سفر رہتے تھے۔دوربین سے لے کر خودر بین تک اور الجبرا سے لے کر پائتاغورس تک ایجاد کرنے والے تمھارے اباء ہی تھے ہماری  طرح منتظر فردا نہیں تھے۔یہ ان کی ہی لکھی ہوئی کتابیں تھیں جن کو دیکھ کر اقبال کا دل بھی سیپارہ ہوا جاتا تھا۔ وہ تحقیق اور تخلیق کے بحر ِ بے کراں تھے۔وہ علم کا سمندر اور شوق کا دریا تھے۔وہ علم کے حصول کے لئیے براعظموں تک کا سفر پیدل طے کرجاتے تھے۔تم ثابت اور وہ سیارہ تھے لیکن آج علم کے چشمے یورپ، امریکا اور چین سے پھوٹتے ہیں۔آج ہندوستان جیسا ملک بھی تحقیق و جستجو میں ہم سے آگے کھڑا ہے اور ہم اپنی حثیت اور تاریخ سے نابلد سمندر کی لہروں پر جھاگ کی طرح ٹھوکریں کھانے میں مصروف ہیں۔خدا کے لئیے اپنے بچوں کا تعلق اپنی تاریخ سے جوڑیں۔

اسکولوں نے بھی بچوں کی صلاحیتوں اور ان کے شوق کو جانچنے کے بجائے بس سلیبس ختم کروانے اور رٹے لگوانے پر سارا زور صرف کر رکھا ہے۔تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایک تین سال کے بچے میں 12000 الفاظ یاد کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ برطانیہ کے نامور محقق ٹونی بزائن جنھوں نے ” مائنڈ میپ ” کی تھیوری دریافت کی اور صرف دماغ پر 112 کتابیں لکھ ڈالیں،  وہ کہتے ہیں کہ ہمارا دماغ نقشے بنا بنا کر چیزیں یاد کرتا ہے اور نقشوں کو ہی محفوظ رکھتا ہے۔ جس کے بعد ہمارے کچھ اسکولوں میں ٹوٹے پھوٹے انداز میں ” برین اسٹورمنگ” کی اصطلاح استعمال ہونا شروع ہوگئی۔ جو بچے ایک سے زیادہ زبانیں سیکھتے ہیں یا استعمال کرتے ہیں ان کا دماغ ایک عام بچے کی نسبت زیادہ تیز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب نامور اسکولوں میں ” لینگویج” کے یونٹس بھی شروع کئیے گئے ہیں۔

تاریخ میں آتا ہے کہ جس وقت رسول اللہﷺ مکے میں مبعوث ہوئے اس وقت مکے میں صرف 14 لوگ ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے لیکن تقریبا ً پوری آبادی ایسی تھی جو صحراؤں اور سمندروں میں نقشوں اور ستاروں کی مدد سے راستے تلاش کرنا جانتی تھی۔ وہ غضب کے قیافہ شناس لوگ تھے۔اللہ کے نبیﷺ نے جب ابو سفیان کے شام سے آتے قافلے کے تعقب میں اپنے دو صحابہ کو روانہ کیا تو  ان کے واپس لوٹتے  ہی ابو سفیان ٹھیک اسی مقام پر پہنچے اونٹوں کی مینگنیوں کو توڑا اور کہا ” خدا کی قسم اس میں یثرب کا چارہ ہے” اور یہ ہماری جاسوسی میں تھے۔غزوہء بدر میں اللہ کے رسولﷺ نے ذبح شدہ اونٹوں کی تعداد  سے اندازہ لگایا کہ قریش کی تعداد 900 سے 1000 کے درمیان ہے کیونکہ وہ  کھانے کے لئیے ایک دن 9 اور ایک دن 10 اونٹ ذبح کرتے ہیں۔ آپ محمد بن قاسم کے بغداد سے دیبل (کراچی) پہنچنے کا نقشہ اٹھا کر دیکھیں۔محمد بن قاسم صرف 17 سال کا کم عمرنو جوان تھا لیکن اس کی ذہانت، فراست اور قیافہ شناسی کا یہ عالم تھا کہ اس نے اپنا جنگی ساز و سامان ایک راستے سے روانہ کیا اور اپنی فوج کو لے کر خود  دوسرے راستے سے پہنچا کیونکہ اسوقت بچپن سے ہی بچوں کو نقشوں اور ستاروں کا علم سکھایا جاتا تھا۔

یہ دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ کسی ایک براعظم کے کسی ایک ملک میں تبدیلی واقع ہوتی ہے تو اس کا اثر دوسرے براعظم کے کسی اور ملک پر پڑتا ہے۔ ڈالر کی کمی زیادتی ہم سب کو متاثر کرتی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے ساری  دنیا پریشان ہے اور اس میں مسلمان اور کافر سب برابر کے شریک ہیں۔کس ملک میں کونسی معدنیات اور ذخائر موجود ہیں ۔ کونسا ملک کس وجہ سے ترقی کررہا ہے اور ہم کیوں وسائل سے مالا مال ہوکر مسائل کے دلدل میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں؟علم الارضیات سے بچوں کو واقف کروانا وقت کی ضرورت ہے۔

والدین کو  گھروں میں، اسکول انتظامیہ کو اسکولوں  اور کلاسوں میں نہ صرف نقشوں اور گلوبز کا ستعمال کروانا ہوگا بلکہ ان علوم میں بچوں کو مہارت بھی دلوانا ہوگی۔جیوگرافی اور معاشرتی علوم کے نام پر محض رٹے لگوانے اور کاپیاں بھروانے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم بچوں کو معاشرت ” سکھائیں” اور جغرافی کے حقیقی علم سے روشناس کروائیں۔ دنیا عنقریب ” سبجیکٹ لیس” ہونے جارہی ہے۔ آگے وہ بڑھ پائے گا جو گریڈز، پوزیشنز اور نمبروں میں نہیں بلکہ دنیا کو ، اس دنیا کے لوگوں،  بھات بھات کی قوموں اور ان کے رویوں کو ” ڈیل ” کرنا جانتا ہوگا۔ آپ مان لیں کہ اب دنیا کو مشینوں کی نہیں انسانوں کی ضرورت ہے۔ڈگری کی نہیں علم کے ذوق اور شوق کی ضرورت ہے۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں