سقوطِ ڈھاکہ۔۔۔۔ دسمبر جب بھی آتا ہے

دسمبر جب بھی آتا ہے

ٹھہر جاتا  ہے نظروں میں

پرانی فائل سے نکلا ہوا کاغذ

جو بوڑھے کپکپاتے ہاتھ میں ہے

ذرا اوپر لگی تصویر پہ نظریں ٹہرتی ہیں

نگاہ نم سے نکلے کتنے ہی موتی

حسیں، روشن ،کشادہ اس جبیں پہ

عقیدت کے گہر بن کے سلامی دے چکے ہیں

 جہاں پہ لمس تھا کتنے ہی بوسوں کا

وہاں پہ اب کوئی اعزاز لکھا جا چکا ہے

چمکتی آنکھوں نے جو خواب دیکھا تھا

وہ پورا ہو چکا ہے،

خبر الفاظ بن کر صرف کاغذ پہ نہیں اتری

وہ اک اک لفظ دل پہ نقش ہے جیسے

“ہمیں بے حد فخر ہے آپ کا بیٹا

ہمیشہ کے لئیے زندوں میں شامل ہو گیا ہے

جو سرحد پہ  نہ جانے کتنی راتیں جاگتا تھا

بڑے آرام سے مرقد میں اپنی سو گیا ہے”

وہ بوڑھے کپکپاتے ہاتھ پہ ابھری ہوئی ہر رگ

پہلے سے گلابی ہوتی جاتی ہے

نگاہیں آنے والے وقت میں جنت کے دروازے پہ

اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں میں محسوس کرکے مسکراتی ہیں۔۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں