کوک کی بوتل

ایک نوجوان حضرت امام ابو حنیفہ  کے صبر ، برداشت اور علم کا امتحان لینا چاہتا تھا ۔ امام ابو  حنیفہ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ہے۔ آپ رات بھر جاگ کر عبادت کرتے، دن بھر درس و تدریس اور تعلیم و تعلّم میں مشغول رہتے ۔ صرف وقتِ زوال سے لے کر نماز ظہر تک  کا کچھ وقت آپ کے آرام کرنے یا سونے کا ہوتا تھا ۔ امام صاحب کا کمرہ بھی بالائی منزل پر تھا۔وہ  نوجوان ٹھیک اسی وقت امام صاحب کے دروازے پر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔ امام صاحب بستر سے اٹھ کر نیچے آئے ۔درواز کھولا، نوجوان کو سلام کیا اور مسکراتے ہوئے پوچھا ” جی بیٹا بولئیے ؟”۔ نوجوان نے پریشان ہوکر کہا ” حضرت جو پوچھنا چاہتا تھا بالکل ابھی میرے ذہن سے نکل گیا۔” امام صاحب  نے جواب دیا کوئی بات نہیں جب یاد آجائے تو پوچھ لینا اور واپس آکر بستر پر لیٹ گئے ۔ جیسے ہی لیٹے دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔ امام صاحب نیچے آئے تو وہی نوجوان اسی کیفیت میں موجود تھا۔ گھبراتے ہوئے بولا امام صاحب ! میں دوبارہ بھول گیا کہ کیا پوچھنے آیا تھا ۔ آپ مسکرائے اور کہا  ” برخوردار! کوئی بات نہیں جب یاد آجائے تو پوچھ لینا”۔ اب کی بار امام اعظم جیسے ہی بستر پر لیٹے سہہ بارہ دروازے پر کھٹکے کی آواز آئی ۔ آپ نیچے آئے دروازہ کھولا تو وہی نوجوان سامنے کھڑا تھا۔ امام صاحب کو دیکھتے ہی بولا ” جی حضرت یاد آگیا!”۔ آپ مسکرائے اور کہا پوچھو بیٹا۔ اس نوجوان نے گہری سانس لی اور کہا ” حضرت ! یہ جو انسانی  فُضلہ ہوتا  ہے، یہ کھٹّا ہوتا ہے میٹھا ؟

امام ابو حنیفہ مسکرائے، نوجوان کو غور سے دیکھااور فرمایا ” جب تازہ ہوتا ہے تو میٹھا ہوتا ہے لیکن جب باسی ہوجاتا ہے تو کھٹّا ہوجاتا ہے”۔ اس نوجوان نے  شرارت سے پوچھا آپ کو ذائقہ کیسے معلوم ہوا ؟آپ ہنسے اور کہا کیونکہ جب تازہ ہوتا ہے تو اس پر مکھیاں بیٹھی ہوتی ہیں اور جب باسی ہوتا ہے تو نہیں بیٹھتی ہیں اور مکھیاں ہمیشہ میٹھی چیزوں پر ہی بیٹھتی ہیں “۔

آپ اس نوجوان کی بدتمیزی اور گفتگو کی بے ہودگی ملاحظہ کریں اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ کا صبر ، انکا تحمل ، برداشت اور اعلی ترین اخلاق دیکھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی 60 اور 70 سالہ زندگی جینے سے انکار کردیا  ۔ اس زندگی کو اتنا پُر اثر اور باکمال بنادیا  کہ یہ مرنے کے بعد بھی زندہ کے زندہ ہی رہے۔۔ اقبال نے کہا تھا کہ :

ہو اگر خود نگر و خودگر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

اور انھوں نے  موت  کو مرنے سے انکار کردیا ۔دنیا میں بڑے بڑے کام کرنے والے لوگ اپنے بڑے کاموں سے بڑے نہیں بنتے بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے کام ان کو بڑا بناتے ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنا ردِعمل اپنے پاس سنبھال کر رکھتے ہیں۔ وہ لوگوں کی انگلیوں پر ناچنے سے منع کردیتے ہیں اور ان کے بنائے ہوئے نقشوں پر چلنے سے انکاری ہوجاتے ہیں ۔ امام شافعی نے فرمایا ” اگر کسی کے بارے میں بالکل ٹھیک ٹھیک جاننا چاہتے ہو تو اسے غصے کی حالت میں دیکھ لو”۔

برائن ٹریسی اپنی کتاب ” بھر پور خود اعتمادی ” میں لکھتے ہیں کہ دنیا میں ایک ” وائبز  (شعاعوں  ) کا قانون ” کام کرتا ہے۔ سامنے والا جیسا عمل کریگا اس کی وائبز ( شعاعیں ) آپ میں منتقل ہونا شروع ہوجائینگی۔ خوش انسان کو دیکھ کر آپ بھی خوش ہوجاتے ہیں، غمزدہ کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آجاتے ہیں ، کسی کو ہنستا دیکھ کر آپ بھی ہنسنے لگتے ہیں اور اگر سامنے والا آپ پر غصہ کرے یا آپ کی مزاج کے خلاف بات کرے تو آپ کو بھی غصہ آنے لگتا ہے لیکن آپ دنیا کی وہ واحد مخلوق ہیں جس کے پاس مثبت یا منفی ردعمل دینے کی پوری پوری صلاحت موجود ہے۔ ہماری زندگیوں میں تبدیلی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو ہمارے باہر ہوتی ہے  اور اس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے لیکن ایک تبدیلی اندر بھی ہوتی ہے اور اس پر ہمارا  100 فیصد اختیار ہے۔

تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ان شعاعوں یا گردش کا وقت بمشکل 12 منٹ ہوتا ہے ۔ دنیا کا بڑے سے بڑا صدمہ بھی آپ کو 15 سے 20 منٹ تک اپنے قابو میں رکھ سکتا ہے ۔ اس کے بعد جو کچھ آپ کے ساتھ ہوتا ہے وہ اس صدمے کو سوچنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ہمیں غصہ نہ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ غصے کو پی جانے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا غصہ چار قسم کا ہوتا ہے:

1) جو جلدی آتا ہے اور جلدی چلا جاتا ہے۔

2) جو دیر سے آتا ہے اور جلدی جاتا ہے۔

3) جو دیر سے آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے۔

4) اور چوتھا وہ جو جلدی آتا ہے اور دیر سے جاتا ہے۔

آپ نے فرمایا غصے کی بدترین قسم چوتھی اور اچھی والی دوسری قسم ہے۔ ڈیل کارنیگی اپنی کتاب ” میٹھے بول میں جادو ہے ” میں رقم طراز ہیں کہ  ہماری گدی میں چھٹانک بھر گلائینڈز (غدود ) ہوتے ہیں جو ہمارے ” موڈز ” کو قابو میں رکھتے ہیں کہ ہمیں کب ہنسنا ، کب رونا ، کب غصہ کرنا اور کب خوفزدہ ہونا ہے۔اگر یہ غدود اپنی جگہ سے ہل جائیں تو انسان پاگل ہوجاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ غصہ آتا اکیلا ہے لیکن آپ کی عزت ساتھ لے جاتا ہے، ندامت دے کے جاتا ہے اور حماقت چھوڑ جاتا ہے۔ اسی لئیے فرمایا کہ جب غصہ آئے تو بیٹھ جاؤ، بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ، فوراً خاموشی اختیار کرلو۔ پانی پی لو یا وضو کرلو کیونکہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے ، شیطان آگ سے بنا ہے اور پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ ہر حال میں اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھیں لہجے کو پُر اثر بنائیں کیونکہ آپ کے لہجے کا اثر آپ کی بات سے زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے الفاظ صرف 10 فیصد اثر دیتے ہیں۔ باقی 30 فیصد ہمارے جذبات اور 50 فیصد ہماری ” باڈی لینگویج ” ہوتی ہے اور غصے میں انسان اپنے آپے اور قابو سے باہر ہوجاتا ہے۔

اسٹیفن کووی کے مطابق آپ کے جذبات، آپ کی خوشی اور  غمی یہ سب کا سب آپ کے اندر ہوتا ہےباہر کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔دنیا کا کوئی انسان آپ کے جذبات اور  احساسات کو اس وقت تک قابو نہیں کرسکتا جب تک آپ خود اس کو اس بات کی اجازت  نہیں دیتے ہیں۔ہمارے غصے کی وجہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ساری دنیا ہماری آنکھ سے دیکھے اور ہمارے ہی مطابق چلے ۔ آپ دھوپ پر غصہ کرسکتے ہیں لیکن اس کا فائدہ کچھ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو کششِ ثقل پسند نہ ہولیکن آپ کو اپنے سارے کام اس کو مان کر ہی کرنے پڑینگے اور خود کو اسی کے مطابق ڈھالنا پڑیگا۔ اگر نظارہ بدلنا چاہتے ہیں تو نظر بدل لیں نظا رہ خود بخود بدل جائیگا۔ دھوپ اور گرمی سے الجھنے کے بجائے دھوپ کا چشمہ، ہلکے کپڑےاور چھتری اپنے پاس رکھیں۔ آپ موسم نہیں بدل سکتے لیکن اپنا موسم اپنے ساتھ ضرور رکھ سکتے ہیں۔خود کو پانی کی طرح بنائیں جو پہاڑوں میں سے بھی اپنا راستہ بہت خاموشی کے ساتھ نکالنا جانتا ہے۔ کوک کی بوتل نہ بنیں جو ہر کسی کے ہاتھ میں ذرا سا ہلانے پر ہر وقت پھٹنے کے لئیے تیار رہتی ہے۔

کہہ رہا ہے موج دریا سے سمندر کا سکوت

جس میں جتنا ظرف ہے، اتنا ہی وہ خاموش ہے

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں