شہر خموشاں کا مسیحا

وہ شہر کا ایک اچھا سوشل ورکر تھا۔ ساتھ ہی ایک اہم پارٹی کا بہترین ورکر بھی مانا جاتا تھا۔ کیونکہ پارلیمنٹ الیکشن کے دوران بھی اس کے کام کرنے کا طریقہ نرالا اور انوکھا تھا وہ اپنے حلقہ سے کھڑے ہونیوالے امیدوار کو کبھی ہار کا سہرا نہیں پہنا سکا تھا۔ پارٹی اور امیدوار اس کے کام سے بہت خوش تھے۔ پارلیمنٹ الیکشن منسوخ ہونے کے بعد اس کی امیدوں اور محنتوں پر جیسے پانی پھر گیا تھا۔ جو آئندہ ماہ کردیا گیا تھا۔ اُسے ایک ماہ کے درمیان پھر وہی کام کرنا تھا جو وہ پچھلے ماہ کرچکا تھا ۔ خیر!

ہاتھوں میں ووٹر لسٹ دبائے وہ شہر کے بجائے گاؤں کی جانب نکل پڑا۔ جب وہ گاؤں پہنچا تو اس نے گاؤں کی حالت بدلی بدلی سی دیکھی۔ اُس نے ایک مکان پر دستک دی لیکن جب کوئی جواب نہ مل سکا تو قریب کے پان کے ٹھیلے پر پہنچا۔ارے باپو صاحب آپ! پان ٹھیلے والے نے کہا۔ ’’ بھئی یہ مکان والے کہاں گئے! الیکشن اگلے ماہ ہورہا ہے اسلئے سیر و تفریح کیلئے نکل گئے کیا؟‘‘ نہیں بابو جی۔ بات ایسی نہیں ہے۔ آپ نے ان کے مکان کو پچھواڑے سے نہیں دیکھا کیا؟ دو روز پہلے یہاں کچھ نئے لوگ آئے تھے۔اپنے اپنے مفاد کے لیے  ایک دوسرے کو لڑا دیا۔ ہوا یہ کہ آنا فاناً میں گاؤں کا گاؤں جل گیا۔ کل تک اس میں آٹھ زندگیاں کھیلا کرتی تھیں… مگر آج سب خاک ہوگیا۔‘‘

کچھ فاصلے پر اس نے اور بھی مکانوں کی حالت دیکھی۔ گاؤں کے مکھیا کا پکا مکان جیسا کا ویسا تھا اور اس کے قرب و جوار کی جھونپڑیاں سب کی سب نذر آتش ہوچکی تھیں۔ وہیں پر اس نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو شباہت سے نیم پاگل دکھائی پڑتا تھا۔ ’’ بابو جی‘‘… ان مکانوں میں آپ اب کیا ڈھونڈنے آئے ہیں؟ کس کا پرچار کرنے آئے ہیں۔ کل تک یہاں زندگی کی فصلیں لہلہاتی تھیں‘ زندگیوں میں شباب تھا لیکن آج شمشان گھاٹ بنا ہوا ہے۔انکا قصور کیا تھا؟ صرف مکھیا کے خلاف پارٹی کا جھکاؤ…. انجام دیکھ لیا نا بابو جی….آ ج یہ لوگ زندگی کا الیکشن ہار گئے ہیں۔ ان کی ضمانتیں بھی ضبط ہوگئی ہیں۔‘‘پہلی بار اُسے علم ہوا کہ’’ زندگی کا بھی الیکشن ہوتا ہے۔‘‘ اور وہ سوچنے لگا کہ پارلیمنٹ کا الیکشن کرنیوالوں کو یہ معلوم ہے کہ ہمارے یہاں زندگی کا بھی الیکشن ہوتا ہے۔ جس میں کئی گاؤں کے لوگوں کی ضمانتیں ضبط ہوجاتی ہیں۔

اس نے سرخ سیاہی والے قلم سے ووٹر لسٹ میں سے ان ناموں کو کاٹنا شروع کیا تو اس نے محسوس کیا کہ’’ یہ قلم نہیں ہے بلکہ کوئی تیز دھار چاقو ہے جو گاؤں کے ان بھولے بھالے لوگوں کے دلوں میں وہ اُتار رہا ہے اور گاڑھا گاڑھا خون اُبل اُبل کر زمین پر پھیل رہا ہے۔‘‘ ’’بابو جی میرا نام بھی اس لسٹ سے کاٹ دیجئے‘‘ بوڑھا چّلا اُٹھا۔’ ’ نہیں…تم تو زندہ ہو‘‘۔’ ’ نہیں بابو جی! میں پاگل ہوں اور لوگ کہتے ہیں۔ پاگل کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہوتا آپ تھوڑا احتیاط کر لیجئے گا کیونکہ دوسرے گاؤں میں بھی میری طرح کے پاگل ملیں گے۔‘‘  یہ کہہ کر وہ بوڑھا زور زور سے ہنسنے لگا۔ تب اُسے لگا کہ’’ وہ نہ تو سوشل ورکر ہے اور نہ ہی کسی اہم پارٹی کا بہترین ورکر بلکہ وہ ہتھیاروں کا سربراہ ہے۔‘‘

حصہ
mm
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔.

جواب چھوڑ دیں