ان دیکھا خوف

نہیں اب نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔ بس آخری بار موقع دے دیں دوبارہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔ وہ لاچارگی سے التجا کیے جا رہا تھا اور اسے لگ رہا تھا کہ بس آج تو بازو جیسے ٹوٹ ہی گئی ہو۔ کہا ناں بس ایک مہلت۔۔۔۔۔۔۔ وہ بڑبڑائے جا رہا تھا کہ امی کی آواز سن کر ہڑبڑا کر بستر پر بیٹھ گیا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اور دل زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔ امی کو اپنے سرہانے دیکھ کر ان سے لپٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں دوبارہ سو گیا۔

یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ کئی بار امی نے سمجھایا کہ تم ابھی بچے ہو ایکشن مووی نہ دیکھا کرو مگر وہ تھا کہ بازہی نہ آتا تھا اور مووی دیکھنے کے بعد خواب میں ڈرنا اس کا معمول بن گیا تھا۔ امی ٹھیک ہی تو کہتی تھیں تم ابھی بچے ہو۔ مگر اس کو ہمیشہ یہ بات سن کر شرمندگی ہوتی اور وہ فورا کہتا نہیں میں اب بڑا ہو گیا ہوں۔ اب میں نہیں ڈرتا۔ مگر وہ ہر بار بھول جاتا کہ ڈر اور خوف کہنے سے کم یا ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔

یہ مثال اپنے تئیں سپرمین اور ہیرو بننے والے بچوں کی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کا بھی ہے کہ بچپن سے ابھی نکلے نہیں اور خواب بڑے بڑے ہیں۔ کبھی پاکستان جیسے مضبوط اور مستحکم ملک پر حملہ کرنے کے خواب تو کبھی سرجیکل اسٹرائیک کا جنون۔ ابھی تو بھارتی سورماؤں کا لاہور کے جم خانہ کلب کا ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے اور وہ پتا نہیں کدھر رہ گئے ہیں۔ پھر فینٹم بنا کر سرجیکل اسٹرائیک کا جنون بھی بس ایسے ہی پورا کر لیا۔ اور بالکل کسی کم سن بچے کی طرح جو نیند میں ڈر جاتا ہے بھارت بھی  سیر کے لیے بارڈر پر سیر کے لیے آنے والے پاکستانی طالبعلموں کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا اور پورے ملک میں یہ بات پھیلا دی کہ دہلی بھی ممبئی حملوں کی طرز کے حملے کرنے دہشتگرد آ گئے ہیں اور ملک بھر میں ریڈ الرٹ جاری کر دیا اور پاکستان کے شہر فیصل آباد کے ایک دینی مدرسہ کے طالب علموں کی تصاویر کے پوسٹر عام کر دیے۔

ایک ڈرپوک بچے اور بھارت کی مثال میں تضاد صرف دو باتوں کا ہے کہ بچہ سوتے میں ڈرتا ہے اور بھارت کی جاگتے میں گگھی بندھ جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ بچے کو خواب میں اپنے اوپر تشدد ہوتا محسوس ہو رہا ہوتا ہے جب کہ بھارت کو تصویر میں لکھا دہلی 360 کلو میٹر بھی نظر نہیں آتا اور وہ دہائی دینے لگ جاتا ہے کہ اب خیر نہیں۔

یہ واقعہ سوشل میڈیا پر دو طالب علموں کی قصور کے گنڈہ سنگھ بارڈر پر ایک سنگ میل کے پاس کھڑے ہو کر لی گئی تصویر وائرل ہونے سے شروع ہوا۔ تصویر میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ طالب علم پاکستان میں موجود ہیں نا کہ بھارت میں گھسے ہوئے مگر بھارتی میڈیا اس سوتے ہوۓ بچے کی طرح چلانا شروع ہو گیا اور ہلکان ہی ہو گیا کہ دو دہشتگرد دہلی میں داخل ہو گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے اپنی ‘صحافتی اقدار’ پوری ایمانداری سے نبھاتے ہوئے یہاں تک رپورٹ کر دیا کہ دوبارہ سے اجمل قصاب والی کہانی دہرانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود کہ ممبئی حملوں کو دس سال گزر جانے کے باوجود بھارت اور اس کا میڈیا اجمل قصاب کا پاکستانی ہونا یا پاکستان بسے کوئی تعلق تو نہ ثابت کر سکا اس پر مستزاد یہ کہ گزشتہ ہفتے اجمل قصاب کا ڈومیسائل میڈیا پر آ گیا جو اس کو بھارتی شہری ثابت کرتا ہے۔ بھارتی پولیس نے بھی کمال پھرتی دکھائی اور فورا ان دو طالب علموں کی تصویر کو شہر بھر میں پھیلا دیا اور خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی۔ بھارت کی آنکھ تب کھلی جب تصویر میں نظر آنے والے دونوں طالب علموں کو فیصل آباد کے ایک دینی مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتا دکھایا گیا ہے۔ مگر ابھی بھی بھارت کی سانس اکھڑی ہوئی ہے۔ یہ وہی دلیر بھارت ہے جس نے پاکستانی خطے سے بھارت داخل ہونے والے کبوتر کو بھی دہشت گرد جان کر پکڑ لیا تھا۔ مگر سوائے جگ ہنسائی اور خفت کے کچھ ہاتھ نہ آیا تھا۔ اور تو اور کشمیر جس کو یہ اپنی ملکیت مانتا ہے اور وہاں ناجائز قبضہ جمائے ہوئے ہے وہاں سے سیب بھارت آنے پر اس کو خطرات محسوس ہونے لگے جب کچھ سیبوں پر آزادی کے نعرے تحریر تھے۔

ہم حق ہمسائیگی ادا کرتے ہوئے بھارت کو مشورہ دیتے ہیں کہ بھیانک انجام کے خواب دیکھنے سے بچنے کا واحد پر امن طریقہ ہمسایوں سے پر امن اور برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے میں مضمر ہے۔ خوامخواہ ایکشن اور ایڈونچر میں پڑنے سے وہ خود اپنی نیند حرام نہ کرے۔ عالمی معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی سابقہ لغزشوں کے کفارہ کے طور پر مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم فی الفور بند کرے اور کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دے۔ زمینی حقائق کا ادراک حاصل کرے اور خطے میں پائیدار امن کی ہماری کوششوں اور کاوشوں کو سراہنے کے ساتھ ساتھ خود بھی مثبت کردار ادا کرے۔ پاکستان نے ہمیشہ ہمسایوں اور دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کو ترجیح دی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال کرتار پور کوریڈور ہے۔ ایک طرف بھارت کشمیر سے آنے والے سیبوں اور پاکستان سے آنے والے کبوتر پر ان دیکھے خوف کا شکار نظر آتا ہے اور دوسری طرف پاکستان قیام امن کے لیے بھارتی سکھ شہریوں کی سہولت کی خاطر آسان راستہ مہیا کرتا ہے۔  پاکستان کا یہ اقدام جہاں خطے میں اس کی قیام امن کی کوششوں کا مظہر ہے اس کے ساتھ ہی اس بات کا بھی بین ثبوت یے کہ پاکستان نیند تو کیا جاگتے میں بھی نہیں ڈرتا کیونکہ پاکستان ایڈونچر اور ایکشن کی بجائے حقیقت پر یقین رکھتا ہے۔ بھارت کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہمسائے کے گھر اگر آگ لگی ہو تو حرارت خود کو بھی پہنچتی ہے اور یہ حرارت اپنے وجود کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ جنگ اور امن دو متضاد چیزیں ہیں جنگی جنون سے قومیں کیا پاتی ہیں اس کی بہترین مثال روس کے ٹوٹنے اور امریکہ کی معاشی ابتری سے لی جا سکتی ہے اور بھارت تو ایسی مملکت ہے کہ وہاں کثیر تعداد میں عوام الناس کو بیت الخلاء تک دستیاب نہیں۔ ان تمام امور کا تقاضہ قیام امن ہے اور وہ ایڈونچر نہیں پر امن عملی کوششوں سے پیدا ہو گا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں