بچے کسی بھی ملک و قوم کا بیش قیمت سرمایہ ہوتے ہیں اوران کی امیدوں،ارمانوں اور آرزؤں کا مرکز بھی۔ قوم کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں بچوں کی تعلیم و تربیت پر ہی استوار ہوتی ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ جو قومیں اپنے بچوں کے مستقبل کے تحفظ میں کامیاب ہوجاتی ہیں ان کا مستقبل ازخودمحفوظ ہوجاتا ہے۔ نئی نسل کا استحکا م دراصل کسی بھی ملک و قوم کے عروج وکمال کانقطہ آغاز ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائے افرینش سے ہر قوم نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر غایت درجہ توجہ مرکوز کی ۔اسلام بھی بچوں کی تعلیم و تربیت پربہت زیادہ زور دیتاہے۔ تعلیم نسواں کو نئی نسل کی تعمیرکی وجہ سے ہی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام نے جہاں ماں کی آغوش کو بچے کی پہلی درس گا ہ قرار دیا ہے وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹیوں کی احسن تعلیم و تربیت پر والدین کو جنت کی بشارت سے بھی سرفراز فرمایا ہے حتیٰ کہ آپ نے باندیوں کی تعلیم و تربیت کی بھی خاص تاکید فرمائی ۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے باعث ہی جنت جیسی عظیم شئے ماں کے قدموں کے نیچے ڈال دی گئی۔بچوں کی تعلیم و تربیت ہی مقصود تھی کہ اسلام نے شریک حیات کے انتخاب میں بھی صورت کے بجائے سیرت کو فوقیت دینے کی تلقین کی۔بچوں کی دیگر ضروریات کی تکمیل کے علاوہ والدین پر ان کی تعلیم و تربیت کی بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ماضی قریب تک والدین گھروں میں اپنے بچوں کی اخلاقی و روحانی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ اسے امتداد زمانہ کہیئے کہ مصنوعی مصروفیت کا دور۔پہلے باپ عدیم الفرصتی کا شکوہ کرنے لگے پھر یہ وباء ماؤں سے بھی چمٹ گئی۔مادہ پرستی کے آسیب نے والدین کو اپنی اولاد کی جانب نظر التفات سے بھی روک دیا۔ اسلام نے بچوں کی ذہنی ،جسمانی اور نفسیاتی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نمازجیسی اہم عبادت کی عادت کے لئے بھی کم از کم سات سال کی شر ط رکھی اور دس سال کے بعد ہی نماز سے کوتاہی برتنے اور عدم ادائیگی پر سز ا دینے کا حکم دیا ۔لیکن مادہ پرستی نے فطری اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ماں باپ کو بچوں کی ابتدائی عمر میں ہی اسکولوں میں داخل کرنیپر مجبور کردیا۔ زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے اور خا ص طور پر مسلم معاشرے کی زبوں حالی کہ ماضی قریب میں جہاں بچے پہلے پانچ یا چھ سال کی عمر میں داخل مدرسہ کیئے جاتے تھے وہیں اب اسکولوں میں تعلیم کے آغاز کی عمر گھٹ کر ڈھائی تاتین سال ہوچکی ہے ۔ بعض اسکول تو اب ڈیڑھ سال کے بچوں کو بھی اپنے اداروں میں قبول کرنے لگے ہیں ۔ تعلیمی جبر کی انتہا یہ ہے کہ پہلے بچے اپنا آدھا دن اسکول اور باقی آدھا دن اپنے والدین اور بزرگوں کے سایے میں گزارتے تھے اب و ہی بچے باقی آدھا دن ٹیوشن کی لعنت کی وجہ سے اپنے والدین اور بزرگوں کی شفقت سے بھی محروم ہیں۔پہلے والدین بچوں کی تربیت کو اپنی ذمہ داری بلکہ فرض سمجھتے تھے لیکن آج یہ ذمہ داریاں رفتہ رفتہ اسکولوں کی صوابدید پر چھوڑدی گئی ۔اب والدین اپنی ذمہ داریوں کو تعلیم گاہوں کے حوالے کرتے ہوئے صرف ان سے باز پرس پر اکتفاء کرتے ہوئے مطمین ہوجاتے ہیں۔
تعلیمی ظلم و جبر کی وجہ سے بچے آئے دن تعلیم اور اسکولوں سے متنفر ہوتے جارہے ہیں۔ بچوں میں تعلیمسے دلچسپی پیدا کرنے اور اکتساب کو پروان چڑھانے میں آج سب سے زیادہ اسکول کے اوقات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔طویل اسکولی اوقات کار سے بچوں کی صحت او ر ان کی نشو و نما پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ قریبی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے صبح 8:30بجے سردی ،گرمی اور بارش میں پہنچنا دشوار نہ سہی دور درازکے علاقوں سے اسکول آنے والے طلبہ کے لئے یہ امر یقیناً سوہان روح ثابت ہورہا ہے۔ نیند اور غذا ئیت کی کمی کی وجہ سے طلبہ متعدد عوارض کا شکار ہورہے ہیں۔ افراتفری کے عالم میں بچے صبح کا ناشتہ بھی ٹھیک طور سے نہیں کرپاتے ہیں کہ ان کو مدرسوں کی جانب ہانک دیا جاتا ہے۔ اپنے جسم کے وزن سے زیادہ بستوں کابوجھ ڈھوتے جب یہ اسکول پہنچتے ہیں ان کی جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ کا مداوا کرنے والا وہاں کوئیموجود نہیں رہتا ۔اساتذہ بچوں کا ذہنی خلفشار دور کرنے کے بجائے اپنے نصاب کی تکمیل میں دیوانہ وار جٹے ہیں ۔ آفتاب کی پہلی کرن سیتعلیمی دباؤ ،ذہنی تناؤ اور فرسٹریشن میں گھرے بچوں سے بہتر تعلیمی مظاہرے اور تخلیقی افعال کی انجام دہی کی توقع یقیناًدن میں جگنو دیکھنیسے کم نہیں ہے۔8:30تا 4بجے شام تک تھکا دینے والے تعلیمی اوقات نے طلبہ کے چہروں سے زندگی اور شگفتگی کو چھین لیا ہے ۔ان کے چہروں سے ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ صاف نظر آتی ہے۔کمرۂ جماعت کے روز مرہ کیبے جان و بے کیف معمولات بچوں میں امنگ، تازگی اور توانائی بھر نے سے قاصر ہیں۔بوجھل اور بے لطف اکتسابی معمولات طلبہ کو تخلیق ، تجرید اور تفکر سے دور کرتے جارہے ہیں۔صبح کا ناشتہ کھائے بغیر اسکول پہنچے طلبہ کو مختصر لنچ بریک میں کھانے پینے تک کا ہوش نہیں رہتا ۔مختصر بریک کو غنیمت جان کر جب کھیلنے ،کودنیلگتے ہیں تو پھردوپہر کا کھانا بھی ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کھاپاتے اور ٹفن باکس جیسے کا ویسا گھر واپس آجاتا ہے۔گھر پہنچے نہیں کہ بغیر کچھ کھائے اور سستائے ہوم ورک کرنے بیٹھ گئے ۔ اس کے بعدٹیوشن کا آسیب انھیں اپنے شکنجے میں بھینچنیبے تاب رہتا ہے۔دیر رات تک ہوم ورک کلاس ورک پراجکٹ اور اسکول کے دیگر کام کرتے کرتے بچے مضمحل ہوجاتے ہیں اوربے سود نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔سال بھر ختم نہ ہونے والا یہ معمول بچوں میں مایوسی،اضطراب اور دباؤ کو جنم دینے لگاہے۔ تعلیم کے ایسے خوف ناک منظرنامے سے بچے سراسیماں و پریشان ہیں۔ بچوں کے چہروں پر چھائی مردنی اور زردی ان کے بچپن کے قتل کی زیر لب داستان بیان کر رہی ہے۔ طلبہ رحم طلب نظروں سے والدین ،اساتذہ اور انتظامیہ کی جانب دیکھ رہے ہیں جیسے خاموش فریادکررہے ہوں خدارا! کوئی ہے جو انھیں روزمرہ کی مشقت سینجات دلائے ۔ہے کوئی جو ان کی مشقت پر محبت اور شفقت کی پھوار برسادے۔ہے کوئی جو اان کے کھیلنے کودنے کے حقوق بحال کردے۔
باشعور لوگ جانتے ہیں کساد بازاری، معاشی بحران اور شرح نمو میں گراوٹ سے کوئی معاشرہ دیوالیہ نہیں ہوتابلکہ تعلیمی معیار کے ابتزال سے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔ملک کی کرنسی کی قیمت میں گراوٹ دیوالیہ پن کی نہیں بلکہ تعلیمی معیار کی گراوٹ معاشرے کے دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ تعلیم کو آسان اور معیاری بناکر پیش کرنے والا نظام تعلیم عوام کی ضروریات اور ارمانوں کی تکمیل میں معاون ہوتا ہے۔مسائل اور وجوہات کی نشاندہی ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے یہ کام سالوں سے ہزاروں افراد انجام دیتے چلے آر ہے ہیں۔آج معاشرے کومعیاری تبدیلی کی شدید خواہش رکھنے والے ایسے باہمت دردمند،فلاحی اداروں اور افراد کی ضرورت ہے جونظام تعلیم کے معیار کو بتدریج بہتر بناسکتے ہیں جو تعلیمی اداروں سے ہر سال بے مصرف خواندہ ، جعلی تعلیم یافتہ ہجوم کے بجائے تربیت یافتہ علم دوست ،جدت پسند،اور تخلیقی صلاحیتوں سے آراستہ نسل معاشرے کے حوالے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیوں کی سخت ضرورت ہے جو طلبہ اور اساتذہ کو تعلیمی مزدوری سے باز رکھے۔طویل تعلیمی اوقات کار کے بجائے موثر تدریس اور سود مند اکتساب کی ملک و قوم کو ضرورت ہے۔تعلیمی پالیسیوں اور تدوین نصاب سے پہلے طلبہ اور اساتذہ کے مسائل پر نظر ڈالنی بہت ضروری ہے۔ تعمیری مزدور کی طرح اساتذہ سے اور طلبہ سے بندھوا مزدور کی طرح صبح 8.30 تا 5بجے شام تک کام لینے کا طریقہ کار درس و تدریس اور اکتساب پر منفی اثرات مر تب کر رہا ہے۔نظام تعلیم کے بارے میں اکثر و بیشتر بحث و مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔تعلیمی مسائل اور کارکردگی پر ماہرین سے لے کر عام آدمی ہر کوئی اپنا نقطہ نظر پیش کرنے سے نہیں چوکتا ۔کوئی ایک حل تجویز کرتا ہے تو دوسرا ایک اور حل ۔کسی کے نزدیک تعلیم کے لئے مادری زبان اہم ہے تو کوئی انگریزی زبان میں تعلیم کا موئید نظر آتا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ کوئی بھی اس بات پر بحث نہیں کرتا کہ زبان کے علاوہ وہ کونسے دیگر عوامل ہیں جنھیں درست اور تبدیل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ فرق بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دیگرترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام اور ہمارے تعلیمی نظام میں کیا فرق پایا جاتا ہے۔ زیر مطالعہ مضمون میں اسی فرق کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ماہرین تعلیم اور بالخصوص مسلمان ماہرین تعلیم و تعلیمی اداروں کے ذمہ دارن کے لئے لازمی ہے کہ وہ دنیا کے تجربات کی روشنی میں اپنے ملک اور معاشرے کو تعلیمی بلندیاں عطاکرے ۔مغرب کے نافع تعلیمی تجربوں سے مسلمان سرموئے انحراف نہ کریں کیوں کہ اسلام نے مسلمانوں کے حصول علم کے لئے ایک روشن ضابطہ مقرر کیا ہے ’’ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے، یہ جہاں سے ملے اسے لے لینا چاہئے‘‘(ابن ماجہ)۔یہ حدیث گواہی دیتی ہے کہ کوئی مفید جملہ، یا کام کی بات جو اسلام کے خلاف نہ ہو،جو کبھی کسی نا اہل کے منہ سے بھی نکل جاتی ہے، تو مومن کیلئے مناسب نہیں کہ اس کام کی بات کو محض اس لئے رد کردے کہ یہ ایک ناکارہ کی زبان سے نکلی ہے،بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ قیمتی اور مفید بات کو قبول کیا جائے، یہ دیکھے بغیر کہ اس کا بولنے والا کون ہے۔آج ساری دنیا ذ ہنی دباؤ سے پاک تعلیمی نظام ) Most Stress Free Education System ( کی تلاش میں اپنی بہتر توانیاں صرف کررہی ہیں۔ ذہنی دباؤ سے پاک تعلیمی نظام موثر درس و تدریس اور پر کیف اکتساب کی جان ہوتا ہے۔کرہ ارض پر موجود 169ممالک میں فن لینڈ کا نظام تعلیم ذہنی دباؤ سے پاک اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کیحوالے سے سرفہرست ہے۔فن لینڈ شمالی یورپ کا ایک بہت ہی چھوٹا ملک ہے۔ یہ دنیا میں رقبے کے لحاظ سے 65اور آبادی کے لحاظ سے 114 ویں نمبر پر آتا ہے۔اس ملک کی کل آبادی 55لاکھ ہے لیکن عالمی تعلیمی درجہ بندی کے لحاظ سے یہ چھوٹا سے ملک ساری دنیا میں پہلے مقام کا حامل ہے۔
فن لینڈ کے ماہرین تعلیم کے نزدیک بچوں کی ابتدائی عمر نہایت اہمیت کی حامل ہے اورسات سال سے کم عمر بچوں کو اسکول بھیجنا ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔نفسیاتی اعتبار سے بھی بچوں کی عمر کا یہ دور کھیل کود میں زیادہ صرف ہونا چاہئے تاکہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں۔ فن لینڈ میں بچوں کی اسکولی تعلیم(اول جماعت) کا آغاز سات سال کی عمر میں ہوتا ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان نہیں لیا جاتا۔سات سال سے کم عمر بچوں کے لئے خصوصی ڈے کیئر اور پری اسکول قائم ہیں جہاں بچوں کو مخصوص قسم کے کھیلوں کے ذریعے آرٹ،گفتگو(کمیونیکیشن) اور فطرت سے محبت کی عملی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ڈیوڈ وائٹ(David White) صدر شعبہ ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن سنٹر کیمرج یونیورسٹی کے مطابق بچوں کی عمر کے ابتدائی سالوں میں کھیل کود کے ذریعے تعلیم سے اکتساب کے بہترین نتائج دیکھنے میں آئیہیں۔نفسیاتی اعتبار سے بچوں میں ذہنی دباؤ سے پاک،مثبت ماحول اور آزادانہ طریقے سے اکتساب کا عمل بغیر رکاوٹ کے پروان چڑھتا رہتا ہے۔ڈے کیئر اسکولوں کا مقصد بچوں میں اپنی صحت ،دوسروں کا احترام اور جذبہ ذمہ داری کو فروغ دینا ہوتا ہے۔بچوں کی معاشرتی نشوونما پرخاص توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔بچوں کو ذہنی دباؤ سے بچانے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ فن لینڈ کے کنڈر گارٹنس کا اصل مقصد بچو ں کو آنے والی زندگی کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے نہ کہ نصابی تعلیم کے لئے تیار کرنا۔ فن لینڈ کے کسی بھی اسکول میں 195سے زیادہ طلبہ نہیں پائے جاتے۔ تعلیمی ادارے صبح نو 9:00 اور پونے دس بجے کے درمیان کھلتے ہیں اور دوپہر دو بجے اورپونے تین بجے کے درمیان بند ہوجاتے ہیں۔اسکولی اوقات میں مختلف وجوہات اورو موسمی حالات کی مناسبت سے کبھی تقدیم اور تاخیر بھی واقع ہوتے رہتی ہے۔19بچوں کے لئے ایک ٹیچر مقرر کیاجاتا ہے۔ روزانہ70منٹ پر محیط ورکشاپ طرز کے تین اور زیادہ سے زیادہ چار کلاسس ہوتی ہیں اور ہر کلاس کے درمیان20تا25منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔دوران وقفہ بچوں کو صحت بخش غذائیں، دودھ اور پھل وغیرہ دیئے جاتے ہیں تاکہ ان میں دماغی اور جسمانی توانائی بحال ہو۔وقفے کے دوران بچے خوب کھیل کودکے ذریعے پھر سے ترو تازہ ہوجاتے ہیں۔بچے اپنے اسکول کے پورے وقت میں 75منٹس وقفے(بریکس) میں گزارتے ہیں۔ ہفتے بھر میں اسکولوں میں صرف 20گھنٹے پڑھائی ہوتی ہے اور اساتذہ روزانہ دو گھنٹے اپنی تدریسی مہارتوں (اسکلز)کو فروغ دینے میں صرف کرتے ہیں۔ یہاں سالانہ ،میقاتی(ٹرمینل)،ماہانہ امتحان کا کوئی تصور نہیں پایا جاتاشاید اسی وجہ سے فن لینڈ کے تعلیمی نظام کو دباؤ سے پاک تعلیمی نظام(Most Stress Free Education System)ہونے کااعزاز حاصل ہے۔ثانوی سطح (میٹرک لیول) پر صرف ایک امتحان ہوتا ہے۔ فن لینڈ کے نظام تعلیم کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کی جب کلاسس نہیں ہوتیں تب وہ حاضر ی سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔مثلاً ہفتے کے کسی دن طلبہ یا اساتذہ کی دوپہر میں کوئی جماعت نہ ہووہ اسکول سے جاسکتے ہیں یا پھر ہفتے کے کسی دن اگر ان کی جماعت صبح گیارہ بجے شروع ہوتی ہو تو یہ اساتذہ اور طلبہ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ وقت سے پہلے اسکول میں حاضر رہیں۔ ثانوی جماعتوں کو پڑھانے والے اساتذہ کو ہر جماعت کے بعد ایک پریڈ کا وقفہ دیا جاتا ہے۔اس لچکدار تعلیمی نظام نے جہاں طلبہ اور اساتذہ دونوں کو دباؤ سے نجات دی ہے وہیں تدریسی و اکتسابی منصوبہ بندی کے لئے ہر دوکو وافر وقت بھی فراہم کیا ہے۔فن لینڈ نے تعلیم کو آسان بنا کر پیش کرتے ہوئے دنیا کے سامنے ایک روشن مثال پیش کی ہے۔فن لینڈ کے ارباب حل و عقد لائق ستائش ہیں کہ انھوں نے تعلیم کے معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ فن لینڈ کے ایک ریاضی کے استاد سے جب پوچھا گیا کہ وہ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو اس نے مسکراتے ہوئیکہا ’’میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کے ہر سوال کو بآسانی حل کرسکتے ہیں‘‘۔
اساتذہ کا انتخاب:۔فن لینڈ میں اساتذہ کے انتخاب میں غایت درجہ احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔یہاں استاد معاشرے کا ایک قابل فخر فردہوتا ہے۔فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئر بننے سے زیادہ مشکل اور شرف کی بات ہے۔ پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے اعلیٰ ترین نمبروں سے ماسٹرز کئے افراد کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد مامور کیا جاتا ہے۔ ہر سال درس و تدریس سے منسلک ہونے کے آرزو مند ہزاروں افراد کی درخواستیں پیشہ تدریس کے لئے اہلنہ ہونے کے سبب رد کردی جاتی ہیں۔ پرائمری جماعتوں کے اساتذہ کا انتخاب بہت تحقیق،چھان پھٹک،متعدد انٹرویوز اور اسکریننگ ٹسٹس کے بعد عمل میں آتا ہے۔پرائمری جماعتوں کی تدریسی کے لئے اساتذہ کے پاس پیشہ وارانہ ڈگری کے ساتھ ماسٹر ڈگری کا ہونا لازمی شرط ہے۔اس کے علاوہ اساتذہ کا خوش اخلاق ،صبر و تحمل کی بے پنا ہ قوت اور مطلوبہ تدریسی اوصاف و مزاج کا حامل ہونالازمی ہے۔ پیشہ معلمی کے لئے لازمی طور پرپوسٹ گرائجویشن میں مقالہ(تھسیز) لکھنا اور عمدہ تحریری صلاحیت کا پایاجانا بھی لازمی جزو ہے۔ فن لینڈ میں جہاں اساتذہ کے انتخاب کے لئے اتنے سخت شرائط عائد ہیں وہیں پیشہ تدریس بھی بالکل دباؤ سے پاک ہے ۔اساتذہ کو سال بھر میں صرف 600چھ سو گھنٹے ہی پڑھانیہوتے ہیں اور یومیہ طور پر ان کا تناسب زیادہ سے زیادہ چار جماعتیں(چار پیریڈ) ہوتا ہے۔ یہاں کے اساتذہ کو شاندار تنخواہیں اور دیگر مثالی مراعات بھی حاصل ہیں۔ جہاں طلبہ کے لئے ذہنی دباؤ سے پاک تعلیمی نظام یہاں رائج ہے وہیں اساتذہ پرکسی طرح کا کوئی ذہنی اور جسمانی دباؤ بھی نہیں پایا جاتا۔
اب اپنی قوم کے اساتذہ پر بھی ایک نظر ڈالئے کہ جو لوگ قوم کے مستقبل کی تعمیر پر باز مامور ہیں وہ کس قدر اہل ہیں۔ تعلیمات کا شعبہ روزگار فراہم کرنے والا سب سے بڑا شعبہ ہے لیکن اہلیت انتخاب اور جوابدہی کے تناظر میں یہی شعبہ سب سے کمزور بھی ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لیکر اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والے اساتذہ اور منتظمین کی قابلیت کی اگر جانچ کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ کم از کم نصف تعداد اپنے مضمون پر عبور اور تدریسی اہلیت میں نااہل ثابت ہوجائے گی۔ان حالات میں اگر بہترین نصاب مرتب کر دیا جائے ،تنخواہوں اور دیگر مراعات میں بھی سو فیصد اضافہ کردیا جائے تب بھی کوئی واضح فرق پیدا ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ہمیں ڈنڈا اور چھڑی لیکر طلبہ کے تعاقب میں لگے اساتذہ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جن کی نگاہیں اور دل بچوں کی طرح تتلی اور مور کے رنگ اور پنکھ دیکھ کر مچل جاتے ہیں۔غباروں کو اڑتا دیکھ کر جن کی خوشیوں اور مسرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔استاد جب تک بچوں کی کیفیت ،جذبات اور نفسیات کاا درک حاصل نہیں کر لیتا ہے تب تکسکھانا تودور ،پڑھانا اور بچوں سے قربت بھی حاصل نہیں کر سکتا ۔ (جاری ہے)
اہم بلاگز
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...