حکومت کے پاس وقت ہے

پی ٹی آئی حکومت کے 100دن بالآخر مکمل ہوگئے ہیں ،مگر اسے ان ایام میں اسے کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ 100دنوں میں اس نے جووعدے قوم سے کیے تھے تو پورے ہوتے نظر نہیں آئے ۔ پی ٹی آئی حکومت کو بھی سابقہ حکومتوں کی طرح خزانہ خالی ملا، کمزورمعیشت ملی،ٹیکس چوری ،کرپشن منی لانڈرنگ سمیت دیگر مسائل کے انبار ملے ۔100روزہ پلان میں عوام توقع رکھتے تھے کہ انہیں زیادہ نہیں کچھ ریلیف ضرور حاصل ہوگا مگران کی امنگوں پر اس قت پانی پھرگیاجب گیس ،بجلی اورپٹرول اور سی این جی مہنگی کردی گئی جس سے عوام کو مہنگا ئی کا منہ دیکھنا پڑاہے۔کپتان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں انہیں قرض کے بدلے مہنگائی کرنے کے سخت مطالبات کا سامنا ہے۔ قوم سے خطابات میں انہوں نے ملک کو درپیش مسائل سے بھی آگا ہ کیا اور آئی ایم ایف کے پاس جانے کی وجوہات بھی بتائیں ۔کپتان سعودی عرب بھی گئے اورچین بھی اوروہا ں کئی اہم معاہدے بھی کیے ،ان کے دوروں کو کامیاب قراردیا جا رہا ہے،کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح ملک معاشی بحران سے نکل آئے۔
پی ٹی آئی حکومت کی کوششیں اپنی جگہ مکر قوم کی بدقسمتی ہے کہ اسے کسی دور میں کوئی واضح ریلیف نہیں ملا ۔ماضی میں بھی ملک میں اقتدار میں آنے والوں نے عوام کی خدمت کا نعرہ لگایا مگر انہوں نے غیر ملکی قرضے لیے ،بدلے میں آئی ایم ایف سے گیس ،تیل ،بجلی مہنگی کرنے اور ٹیکس لگانے کے وعدے کیے اورانہیں پورا بھی کیا ۔کپتان نے بھی اقتدار میں آنے سے قبل بہت سے وعدے کیے تھے ،جن میں صرف ایک وعدے پر عمل ہوتا نظر آرہا ہے اور وہ ہے کرپشن ،مگر کرپشن میں بھی نواز فیملی سے شروع ہونے والا احتساب زرداری کی جانب بڑھتا دکھا ئی دے رہا ہے ،اس سے آگے دھند کی دبیز تہیں ہیں ۔پاناما پیپرز میں منکشف ہونے والے دیگر لوگوں سے متعلق ابھی تک کو ئی پیش رفت نہیں ہوسکی ۔یہ بات سامنے آرہی ہے کہ ان کا کیس بھی کھلنے والا ہے ،تاہم اگر یہ نہیں کھلتا تو حکومت کا احتساب کمزوراوریک طرفہ ثابت ہو گا ۔
کپتان اوران کی ٹیم نے 100 دن کا ایجنڈا پیش کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ حکومت میں آکر نیب کو مکمل خود مختاری دے گی۔ وزیراعظم ہاؤسنگ اسکیم پروگرام لانچ کی جائے گی جس کے تحت 50 لاکھ فلیٹس بنائے جائیں گے اور اقتصادی سفارتکاری کو ترجیحاً بروئے کار لایا جائے گا، بلوچستان کو احساس محرومی سے نکالیں گے اور ناراض لوگوں کو منا کرقومی دھارے میں لائیں گے۔ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کریں گے اور فاٹا کے لوگوں کو کے پی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے گی ، جنوبی پنجاب صوبہ بنا کر پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کریں گے۔ جرائم کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔کراچی میں ٹرانسپورٹ سسٹم بہتر کیا جائیگا جب کہ شہر اقتدار میں گورننس کو بہتر بنائیں گے،جو لوگ ٹیکس نیٹ میں
نہیں ہیں ،سب سے پہلے انہیں ٹیکس نیٹ میں لا ئیں گے۔ نوجوانوں کو روزگار دیں گے اور منصوبے کے مطابق 5 سال میں ایک کروڑ نئی نوکریاں پیدا کریں گے۔ 100 دن میں سیاحتی پالیسی اور ایف بی آر میں اصلاحات کا اعلان کیا جائے گا۔ زرعی تحقیق میں ہم دنیا سے 40 سال پیچھے ہیں ،حکومت میں آتے ہی زرعی ایمرجنسی کا اعلان کریں گے۔پاکستان میں ویئر ہاؤسز کا جال بچھا دیں گے،۔ قومی ادارہ اسٹیل مل 2 سال سے بند پڑی ہے۔ جب تک یہ کارخانے سیاستدانوں اور بابوؤں کے ہاتھ میں رہیں گے ٹھیک نہیں ہوں گے۔ ہم ان لوگوں سے ان کارخانوں کی اصلاحات کرائیں گے۔
100روزہ ایجنڈے میں فاٹا کا معاملہ حکومت بننے سے قبل حل ہوگیاتھا۔50 لاکھ فلیٹس کے منصوبے پر بھی کام جاری ہے جو اچھا اقدام ہے۔
حکومت نے کراچی کیلئے ابھی تک کچھ نہیں کیا، یہاں کے مکین حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس کیلئے کیا کرتی ہے ،یہاں کے بہت سے مسائل ہیں،پانی ،صحت وصفائی اورلوڈشیڈنگ وغیرہ وغیرہ ،جن کے حل کی اشد ضرورت ہے مگراس کیلئے کوئی خاطرخواہ کام نہیں کیا گیا۔ٹیکس نیٹ بڑھانا ،ملک کو معاشی طورپر مستحکم کرنا ،تجارت کو فروغ دینے سمیت دیگر وعدے پورے کرنے اور ثمر آورنتائج کے حصول کیلئے حکومت کووقت درکا ر ہوگا ۔کپتان کی حکومت کرپٹ عناصرکی جانب سے لوٹا گیا پیسہ بھی نکلوانے کیلئے کام کر رہی ہے ۔دبئی میں پاکستانیوں کی 4ہزار جائیدادوں کا پتہ چلا لیا گیا ہے ،جبکہ مشیر برائے احتساب کا کہنا ہے کہ700ارب ،5ہزاراکاؤنٹس کا پتا لگایا ہے۔
100روز میں کوئی حکومت معاشی انقلاب لاسکتی ہے،نہ کوئی جادوکی ایسی چھڑی ہے جس سے راتوں رات 70سال کے دیرینہ مسائل حل کیے جا سکیں اس کیلئے قوم کو صبرکا کڑو اگھونٹ پیناپڑے گا ۔پی ٹی آئی حکومت کو 100روزہ پلان کی وجہ سے اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن حکومت کا عزم مصمم ہے کہ وہ ان چیلنجز پر قابو پاکر ملک کو بحرانوں سے نکال لے گی ۔اللہ کرے ایسا ہی ہو جیسا پی ٹی آئی حکومت سوچ رہی ہے کیو نکہ قوم اس حکومت کو آرزوؤں اورمنگوں کے ساتھ لائی ہے اوراسے اس سے بڑی توقعات وابستہ ہیں جبکہ اس کے پاس معاملات کو ٹھیک کرنے کیلئے کافی وقت ہے ۔

حصہ
mm
1988 میں زمانہ طالب علمی سے قلم قبیلے کا حصہ بنے۔بچوں کی کہانیوں سے لکھنے کا آغازکیا ۔1997میں میٹرک کے بعد صحافت کے پیشے سے بطور سب ایڈیٹرمنسلک ہوئے۔2000سے 2012 تک روزنامہ جسارت کراچی میں بطور ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر ذمہ داریاں انجام دیں ۔مختلف نیوز چینلزمیں بھی کام کا تجربہ حاصل کیا۔آپ جامعہ اردوسے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں ۔کرنٹ افیئر ،بچے اورمعاشرہ آپ کے تحروں کا مرکزومحور ہیں ۔قلم کو اصلاح اورخدمت کیلئے استعمال کرناان کامقصد حیات ہے۔شاعری سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں ۔آپ اچھے کمپیئر بھی ہیں۔آج بھی ایک قومی سطح کے اخبار سے بطورسینئرسینئرسب ایڈیٹر منسلک ہیں ۔آپ رائٹرزفورم پاکستان کے صدر ہیںاورتقریباًتمام ہی اردو اخبار ات میں کالم کاری کرچکے ہیں،آپ کے سیکڑوں کالم ،مضامین ،فیچرزاوررپورٹس اخبارات وآن لائن ویب سائٹس کی زینت بن چکے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں