مہاتیر کا ملائشیا اور عمران کا پاکستان 

ایک خاص طبقہ سیاست و فکر کا خیال ہے کہ عمران خان کے تمام غیر ملکی دورے بشمول سعودیہ،چین ،متحدہ عرب امارات اور ملائشیا ہر زاویہ سے کامیاب رہے ہیں خاص کر امداد کے حصول اور مختلف شعبہ جات میں معاہدوں کے میدان میں۔بالکل ماننے والی بات ہے کہ اگر ان ممالک سے ہم امداد کے حصول میں ناکام ہوتے تو یقیناً ہمیں آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک سے ان کی شرائط کے مطابق قرضہ لینا پڑتا، یا ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پہ ہم مجبور ہو جاتے جو کہ تاحال ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔حالیہ دورہ ملائشیا کے بعد بھی کچھ ایسی ہی باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ دورہ ملائشیا بھی مختلف میدانوں میں معاہدات کی وجہ سے کامیاب و کامران رہا ہے۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کب تک دوسروں سے حصولِ امداد کی کامیابی پر خوشیا ں مناتے رہینگے،ہم کب اپنے ملک میں موجود وسائل کو بروئے کار لا کر ان سے استفادہ کر کے ملکی ترقی کو ممکن بنا سکیں گے۔ملائشیا آج جس مقام پہ ہے اس میں مرکزی کردار بلاشبہ مہاتیر محمد کا ہے جس نے اپنی سیاسی بصیرت،قوت ارادی،عزم اور قوم سے وفاداری کے وعدہ کو پورا کرتے ہوئے ملائشیا کو ایک بیمار بکری سے ایشیا کا ٹائیگر بنا دیا ہے۔
مہاتیر محمد 10 جولائی 1925 کو پیدا ہوئے ،وہ ملائشیا کے 4thاور 7th وزیر اعظم ہیں،ان کا پہلا دور 16 جولائی1981 تا 31 اکتوبر2003 جبکہ دوسرا دور 10 مئی2018 سے شروع ہوا ہے۔علاوہ ازیں وہ ملائشیا کے ڈپٹی پرائم منسٹر،وزیر فنانس،وزیر ہوم افئیر،وزیر دفاع،وزیر ٹریڈ اینڈ انڈسٹری اور وزیر تعلیم کے عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں،گویا ان کی خدمات کی ایک لمبی فہرست ہے ۔وہ پیشہ کے لحاظ سے چونکہ ایک ڈاکٹر تھے تو 1957 میں مہاتیر محمد پہلے ڈاکٹر تھے جنہیں پرائیویٹ کلینک کی اجازت ملی تھی۔تا ہم 1964 میں وہ اس میدان سے نکل کر سیاست کے پر خار میدان میں آگئے کہ ان کا دل ارد گرد کے ماحول کو دیکھ کر رنجیدہ ہوتا تھا اور وقت نے یہ بات ثابت بھی کی کہ ان کا یہ فیصلہ بالکل صحیح تھا۔کہ عوام کی تکالیف کا جو مداوا وہ سیاست میں آکر کر سکتے تھے وہ اپنے کلینک میں بیٹھ کر نہیں کر سکتے تھے۔انہوں نے سیاست کا آغاز UMNO میں شمولیت اختیار کر کے کیا۔دراصل مہاتیر محمد اس دور میں مالائی باشندوں کو چینی تاجروں سے بچانا چاہتے تھے۔چنانچہ انہوں نے چینی تاجروں کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔1969 میں ملائشیا میں جب الیکشن ہوئے تو مہاتیر نے اپنے حلقہ میں اعلان کر دیا کہ وہ چینی باشندوں سے ووٹ نہیں لیں گے۔اس مسئلہ پر وزیر اعظم عبدالرحمن نے انہیں اپنی پارٹی سے نکال دیا۔یہی وہ موقع تھا جب مہاتیر نے اپنی پہچان اور سوچ کو اپنی عوام کے سامنے رکھا،انہوں نے کوالالمپور میں ایک شاندار تقریب سے خطاب کیا اور کہا کہ۔
دنیا میں کوئی سیاسی پارٹی کسی بھی سیاست دان کو پارٹی سے نکال سکتی ہے ،تاہم کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی بھی سیاست دان کو لوگوں کے دلوں سے نہیں نکال سکتی۔مہاتیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں اگر عوام کے دلوں میں ہوں تو مجھے دنیا کی کوئی پارٹی اپنی پارٹی سے نہیں نکال سکتی،سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہمیشہ وقت ہی کرتا ہے،میں اگر سچا ہوں تو مستقبل میں اسی پلیٹ فارم پر کھڑا ہوں گا ،وقت نے انہیں سچا ثابت کیا اور محض سولہ ماہ بعد ہی پارٹی انہیں واپس لینے پر مجبور ہو گئی۔اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں نے انہیں پارٹی سے نکالا تھا وہ گوشہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ مہاتیر محمد اب بھی ملائشیا کا وزیر اعظم ہے۔مہاتیر کی تمام سیاسی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ جب انہوں نے کوئی فیصلہ کر لیا تو پھر نہ ان کے قدم ڈگمگائے اور نہ ہی سیاسی اتار چڑھاؤ ان کا راستہ روک سکے،مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ ملائشیا اگر آج اپنے پاؤں پہ کھڑا ہے تو اس کی بنیاد صرف اور صرف تعلیمی میدان میں ہونے والے اخراجات اور بلند معیار تعلیم ہے کیونکہ تعلیم ملک کے تمام ادوروں کی مضبوطی کی روح اور بنیاد ہوتی ہے۔اس سلسلہ میں ایک واقعہ ذہن میں آ گیا کہ ایک بار ہمارے ایک صحافی کو مہاتیر محمد سے ملنے کو موقع ملا تو انہوں نے ایک سوال کیا کہ آپ کا ملک پاکستان سے بھی بعد میں آزاد ہوا ہے تو کیا وجہ ہے کہ آج آپ ہم سے زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پہ گامزن دکھائی دیتے ہیں تو مہاتیر نے اس کا جواب دیا کہ آپ اپنی تعلیم پر بجٹ کا پانچ فیصد جبکہ ہم پرائمری تعلیم پر تینتیس فیصد خرچ کرتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح مہاتیر نے تعلیم،دفاع،خارجہ و داخلہ اور دیگر اداروں کو بلا تعصب ترقی کی راہ پہ گامزن کیا اور اپنے ،پرائے کی پرواہ کئے بغیر اپنے قبلہ کو درست رکھا،کیا عمران خان بھی اس راستہ کا راہی بن پائے گا یا دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف والا معاملہ تو نہیں ہو جائے گا۔عمران خان کو باہر والوں کے ساتھ ساتھ گھر کی چار دیواری میں بسنے والے دوست نما دشمنوں کو بھی پہچاننا پڑے گا۔وگرنہ
تمام عمر چلتے رہے اور گھر نہیں آیا

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں