محسنِ انسانیتؐ

اسلام ایک ایسا مذہب جس کا نام بھی خوبصورت  اور اس کے معنی بھی خوبصورت ‘سلامتی ‘

جی ہاں اسلام کا مطلب ہی سلامتی ہے ۔

اگر ہم دنیا کی تاریخ کو کا مطالعہ کریں آج تک جتنے لوگ بھی مسلمان ہوئے ان کے اسلام لانے کی وجہ یا تو مسلمانوں کا اخلاق تھا یا پھر ان کے اندر کی بے چینی ، بے سکونی، اضطراب ، غیر مطمئن ہونا تھا ۔

کئی ایک اور بھی وجوہات ہیں بلکہ اسلام پہ غور کریں تو اس کی ایک ایک بات ایسی ہے کہ لوگ فورا ًمتوجہ ہوتے ہیں حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسا مذہب ہے اور تجسس میں آ کر جب مطالعہ کرتے ہیں تو مسلمان ہو جاتے ہیں ۔کبھی نماز کا طریقہ، کبھی صفائی ستھرائی ، کبھی رحم دلی کبھی انسانیت سے پیار کبھی طریقہ زندگی غرض کئی وجوہات ہیں ۔لیکن سب سے بڑی وجہ سلامتی ہے ۔

سلامتی بس زندگی محفوظ ہونے کا ہی نام نہیں ہوتا بلکہ زندگی میں ہر قدم پہ سلامتی درکار ہوتی ہے۔

اگر ہم گھر سے باہر نکلیں تو ہمیں بس جان کا ہی خطرہ نہیں ہوتا بلکہ چور ڈاکو سے بھی سلامتی چاہیئے ہوتی ہے ۔

اگر آپ بیوی ہیں تو آپ کے دل کو لمحہ لمحہ شوہر کی طرف سے ملنے والی کڑوی کسیلی باتوں ، کھانے میں نقص ،بد اخلاقی ، فضول اور بے جاہ طعنے ، شک ، مار کٹائی اور کئی باتوں سے سلامتی درکار ہوتی ہے ۔

رشتہ داروں، نندوں ،بھابھیوں ، دیور بیٹھ،  ساس ، بہو ،بیوی غرض ہر رشتے میں سلامتی درکار ہوتی ہے ۔

بے شمار جگہوں پہ سلامتی کے ساتھ سب سے بڑھ کر  ہماری روح کو بھی سلامتی چاہیئے ہوتی ہے ۔

اور اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ۔

یہ وہ دنیا کا واحد مذہب ہے جو آپ کو قدم قدم پہ سلامتی کے ساتھ رہنمائی کرتا ہے ۔

زندگی میں عبادت اور معمولات زندگی میں کمال توازن رکھتا ہے ۔

صبح اٹھتے ہی روح کو غذا دی جاتی ہے اپنے خالق و مالک کو یاد کر کے اس کی تعریف کر کے پھر نماز و قرآن پڑھ کر ۔پھر عام معاملات کے لئے دن کا ایک تہائی حصہ دے دیا جاتا ہے تو اس میں بھی قدم قدم پہ رہنمائی اس کے بعد پھر روح کو غذا نماز ظہر کی ادائیگی اپنے رب کو یاد کرنے اس سے ملاقات کرنے کو فرض کر دیا پھر روٹین لائف اسی طرح وقفے وقفے سے اپنے رب کی طرف لوٹنا تاکہ یاد رہے ایک خالق و مالک ہے جس نے پیدا کیا ہے ہم اسی کے حکم کے پابند ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جانا ہے۔

 ہندو مت میں عورت کی شدید تذلیل ہے جیسا کہ عرب میں بھی عورت کی تذلیل تھی ۔لیکن ایک مسلمان کو بیٹی رحمت بتائی جاتی ہے بیوی اور بیٹا نعمت ۔

عورت ماں ہے تو ساری دنیا حتی کہ باپ جو کہ مرد ہے اس سے بھی تین گنا درجہ بڑھا دیا ۔

گویا کہ عورت کےلئے یہ دنیا جو اندھیری کوٹھری تھی ،کبھی زندہ درگور کردی جاتی  تھی۔اس کو اتنی تعظیم دے دی۔

آج بھی غیر مسلم معاشرے میں عورت کا مقام دیکھ لیجئے ہندووں میں  شوہر کے ساتھ زندہ جلا دی جاتی ہے ،

مغرب میں کہیں بازاروں زینت ،تو کہیں نان و نفقہ کی ذمہ داری شوہر کی نہیں ہے ، بچے ہیں تو اٹھارہ سال بعد والدین بے بس ان کے سامنے اور اولاد بھی وراثت کی لازمی حقدار نہیں ہے۔

اسلام نے عورت کو بھی وراثت میں حق دار قرار دیا ۔

اسلام قبول کر کے ہی انسانیت سلامتی اور سکون پاتی ہے جہاں اسلام لانے والے پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ اتنا اعلیٰ رویہ اختیار کرتے ہیں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاجیسی مال دار خاتون اپنا سارا مال آپؐ کے قدموں میں ڈھیر کر دیتی ہیں ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسی کم عمر کی ذہنی سطح کے مطابق کھیل دکھائے جاتے ہیں کہیں ساتھ دوڑ لگاتے ہیں ۔

دیگر بیویوں کے ساتھ بھی رویہ ایسا کہ مثال بن جائے ۔

والدین بوڑھے ہو جائیں تو اولڈ ہاوس سے بچانے کے لئے انھیں رحمت قرار دے دیا ۔

ہمسائے کے بھی حقوق بتا کر کہہ دیا ہمسائے کا ستانے والا جہنم میں جائے گا۔

دوستوں کے حقوق حتی کہ

 جانوروں کے بھی حقوق ۔گویا جانوروں کو بھی سلامتی اسلام نے دی ۔

دوسرے ممالک کے ساتھ رہنے کے طریقے بتا دیئے مسلمان کبھی کسی ملک پر بلا وجہ شب خون مارتا ہے نہ عام گھروں میں بیٹھے لوگوں کو بموں سے بھونتا ہے ۔

بلکہ جنگ میں بھی عورتوں، بچوں ، بوڑھوں ، درختوں، کھیتوں حتی کہ وہ جنگ جو ہتھیار پھینک دے ،جو کلمہ پڑھ لے اس کو بھی مارنا منع ہے ۔

باپ ہے تو اس کی رضا میں اللہ کی رضا قرار دے دی ۔

ہمارے ہاں یہ جونند بھاوج  کے مسائل ہیں ،میاں بیوی کے مسائل ہیں، ساس بہو کے ،اور داماد کے ہمسائیوں کے ان کی سب کی وجہ بھی اسی سلامتی والے مذہب کو عملی طور پر اختیار نہ کرنا ہے ۔

ورنہ اسلام جو ایک دوسرے کے دل دکھانے سے منع کرتا ہے ، مسکرانے کو صدقہ قرار دیتا ہے تو یہ سب اگر اسلام پہ عمل کریں اور ایک دوسرے کی دل آزاری کا خیال کریں سلامتی ہی سلامتی ہے ۔

ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دے کر انسانی جان کی حرمت قائم کی گئی اور اس کی عملی مشق سب سے پہلے سب سے بہترین سب سے اعلی جس ہستی نے کی ان کا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔

یہی وہ ہستی ہے جس نے ربیع الاول کے مہینے میں اس اندھیری دنیا اپنے بابرکت وجود سے روشن کر دیا ۔

جو چمکا تو پھر کوئی اندھیرا ٹھہر نہ سکا جاہلوں کی آنکھیں چندھیا گئیں ۔

جس کے وجود سے اٹھنے والی خوشبو نے اس دنیا کو ایسے مہکایا کہ پھر لوگ جوق در جوق اس کی سمت بڑھتے چلے گئے ۔اپنے دماغ معطر کرتے چلے گئے ۔

کفار نے بہت ہتھکنڈے استعمال کئے لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئے لوگوں کو اسلام اختیار کر نے سے روکنے میں ۔

جب بھی کوئی پروپیگنڈہ کیا لوگوں کو تجسس ہوا لوگوں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابیں پڑھیں مسلمان ہونا شروع ہو گئے ۔احادیث پڑھیں مسلمان ہونا شروع ہو گئے ۔قرآن مجید پڑھا مسلمان ہونا شروع ہو گئے ۔

اس کی ایک ایک بات اتنی اعلی ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان سمجھ جاتا ہے کہ یہی سچا مذہب ہے اسی میں سلامتی ہے اور یہ اس کا بانی سچا کھرا اور پاکیزہ ہے ۔

یہاں ایک سچا واقعہ بتانا چاہوں گی ۔

ایک مسلمان لڑکا جو امریکہ میں زیر تعلیم تھا ۔ایک عیسائی دھوبن سے کپڑے دھلواتا تھا ۔

کچھ عرصے بعد اس عورت نے اس لڑکے سے سوال کیا کہ کیا میں تمہارے کپڑے ٹھیک نہیں دھوتی ؟

کیا تمہیں میری دھلائی پسند نہیں؟

لڑکے نے کہا نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے ۔

عیسائی عورت نے کہا پھر تم مجھے اپنے کپڑے دھو کر کیوں دیتے ہو ۔

لڑکے نے کہا ایسا تو کچھ نہیں ۔

عیسائی عورت نے کہا دوسروں کے کپڑے گندے ،بدبودار اور الائشوں  والے ہوتے ہیں ،لیکن تمہارے صاف اور بدبو سے پاک پوتے ہیں۔

لڑکا ہنس پڑا اور لیا سمجھ گیا ۔

بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صاف رہنے کا حکم دیا ہے ۔ہم پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں تو ہمارے کپڑوں پہ کوئی ناپاک چیز لگی ہو یا پیشاب کا چھینٹا پڑ جائے  تو نماز ہی نہیں ہوتی سو ہم سارا وقت صاف ستھرے رہتے ہیں ۔کہیں کچھ مسئلہ ہو تو فورا صاف کرتے ہیں ۔وہ عورت اس بات سے اس قدر متاثر ہوئی کہ مسلمان ہو گئی ۔

یہ ہے دین محمدؐ اور اس ہستی کی تو کوئی مثال بھی نہیں ملتی ۔

اب ہم مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو عام کریں لکھ کر ، شائع کر کر کے اور عملی مظاہرہ کر کے تاکہ دنیا میں امن ہو سلامتی ہو۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں