وزیراعظم صاحب عافیہ اور قوم کا مان مت توڑنا 

دختر پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اس سال یوم ولادت النبی (ﷺ) پر امریکی حراست میں 5715دن مکمل ہوجائیں گے۔ ان دِنوں کا اگر ماہ، سال و یوم میں حساب لگایا جائے تو یہ 15 سال 7 مہینے اور 26 دن بنتے ہیں۔ یہ مدتَ عمر قید کے برابربلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ بنتی ہے جو کہ عموماََ قتل کے مجرم یا پھر بعض ممالک میں منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث مجرموں کو دی جاتی ہے۔ مگر ڈاکٹر عافیہ پر تو مروجہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق کوئی جرم ثابت ہی نہیں ہوا ہے پھر بھی وہ 86 سال کی سزا کاٹ رہی ہے۔
نبی مکرم (ﷺ) کے اسوہ کے مطابق زندگی گذارنے کو کامیابی سمجھنے والی محب رسول (ﷺ) نے مدد کیلئے زندان سے اپنے وزیراعظم کو پکارا ہے۔ڈاکٹر عافیہ اسلامی تاریخ کی واحد بیٹی ہے جس نے یکے بعد دیگرے اپنے تین حکمرانوں(زرداری ، نواز شریف اورعمران خان) کو پکارا ہے۔ عافیہ سے قبل اسلامی تاریخ میں چار مرتبہ صرف ایک مرتبہ مظلوم بیٹی کی پکار پر ان کے حکمرانوں نے لبیک کہا تھا۔ جبکہ اسلامی تاریخ میں یہ پانچواں موقع ہے جب کسی مظلوم بیٹی نے مدد کیلئے اپنے حکمران کو اغیار کی قید سے پکارا ہے۔ پہلی مرتبہ محمد بن قاسم، دوسری مرتبہ معتصم باللہ ، تیسری مرتبہ طارق بن زیاد اور چوتھی مرتبہ سلطان محمد فاتح مظلوم بیٹیوں کی پکار پر لبیک کہہ کر تاریخ میں امر ہوچکے ہیں۔ عمران خان اسلامی تاریخ کے پانچویں حکمران ہیں جنہیں ایک مسلم بیٹی نے امریکی زندان سے مدد کیلئے پکاراہے۔
عمران خان ملکی تاریخ کے وہ خوش قسمت حکمران ہیں جنہیں قدرت نے ظلم کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا موقع عطا کیا ہے کیونکہ ریاست کے دو اہم ترین ستون عدلیہ اور فوج نے واضح طور پر قانون اور آئین کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کرر کھا ہے اور وہ بار بار اپنے عزم کو دہرابھی رہے ہیں۔قدرت کی طرف سے عطا کردہ اس سے موقع سے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومتی ٹیم کے ارکان کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کی ٹیم اب تک عوامی جذبات کا صحیح ادراک نہیں کرسکی ہے۔ پاکستان کے عوام موجودہ حکومت اور اسمبلیوں کی کامیابی چاہتے ہیں کیونکہ سابقہ دونوں حکمرانوں اور اسمبلیوں نے عوام کو مکمل طور پر مایوس کیاہے۔ عوام کی یادداشت اتنی کمزور نہیں ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کا روٹی، کپڑے اور مکان جبکہ مسلم لیگ ن کا سوئیزرلینڈکے بینکوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے ، لوڈشیڈنگ کے خاتمہ اور دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ کی جانب سے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو باعزت وطن واپس لانے کے وعدوں اور دعووں کو بھول گئی ہوگی۔ جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2018 ء کے عام انتخابات کی مہم کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے کی ذمہ داری اٹھانے کا اعلان کیا تو دونوں سابقہ حکمران جماعتوں کی خراب طرز حکمرانی اور فرینڈلی اپوزیشن سے مایوس عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اورنظام کی تبدیلی کیلئے پاکستان کے عوام نے 25 جولائی کو پاکستان تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔
یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو حزب اختلاف کی قیادت سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا کہ اس ملک کی بیوروکریسی اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے سرکاری ملازمین سے خطرہ ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور باعزت وطن واپسی کیلئے ان کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے 13نومبر کو اسلام آباد میں ملاقات ہے۔ وزیرخارجہ سے ملاقات کے بعد ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرخارجہ سے ملاقات کو اطمینان بخش اور ڈاکٹر عافیہ کی امریکی جیل سے جلد رہائی اور وطن واپسی کی امید کا اظہار کیالیکن اس کے اگلے روز ہی وزارت خارجہ نے سینیٹ کمیٹی کو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے حوالے سے جو بریفنگ دی اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سابقہ حکمرانوں، بیوروکریسی اور ریاستی حکام نے تو عافیہ کو امریکی قید سے چھڑانے کی سرتوڑ کوششیں کی مگر وہ عافیہ ہی تھی جو کہ رہا ہونا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے سزا کے خلاف اپیل سے انکار کردیا تھا، قونصلر جنرل سے ملاقات سے انکار کیا، گھروالوں سے فون پر بات کرنے سے خود ہی انکار کردیا وغیرہ وغیرہ…اگر کارزویل جیل میں قید عافیہ کوغلط اطلاعات فراہم کی جائیں اور اسے یہ بتایا جائے کہ تمہاری ماں تم سے ملنے امریکی آئی تھی تو اسے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جب اسے کوئی یہ بتائے کہ تمہاری ماں مر چکی ہے تو وہ کس سے فون پر بات کرے؟
وزارت خارجہ کے لوگ سینیٹ کمیٹی کو اس طرح کی بریفنگ دینے سے قبل اتنا تو سوچ لیتے کہ ابھی ایک ماہ قبل ہی 9 اکتوبر، 2018 ء منگل کے دن ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ہوسٹن امریکہ کی کارزویل جیل میں پاکستانی قونصلرجنرل عائشہ فاروقی نے ملاقات کی تھی اور اس سے چند ماہ قبل مئی 2018 ء میں بھی عائشہ فاروقی نے عافیہ سے ملاقات کی تھی اورامریکی جیل میں اپنے ساتھ ہونے والے شرمناک سلوک کی تمام روداد بیان کردی تھی ۔ جس پرنواز شریف کی سابقہ حکومت،نگران حکومت اور سرکاری حکام نے کیا ایکشن لیا تھا؟ تمامتر ظلم و ستم کے باوجود یہ عافیہ صدیقی کا حوصلہ ہے کہ اس نے اپنی حکومت اور وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔قونصلر جنرل عائشہ فاروقی سے ڈاکٹر عافیہ کی 9 اکتوبر کی ملاقات اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ تاریخ نے ایک مرتبہ پھر خود کو دہرایا ہے۔ باب الاسلام سندھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جائے پیدائش ہے۔ ڈاکٹر عافیہ نے عائشہ فاروقی کے توسط سے امریکی جیل سے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط بھیجا جس میں ان سے رہائی کیلئے مدد مانگی ہے بالکل اس طرح جب چودہ سو سال پہلے سندھ کی جیل سے ایک مسلمان بیٹی نے اپنے حکمرانوں کو پکارا تھا ۔ڈاکٹر عافیہ کے خط کے ایک مہینے بعدوزارت خارجہ نے ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کیلئے اسلام آباد بلایا۔پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے مطابق ڈیڑھ گھنٹے طویل ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے تمام ممکنہ راستوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔جب عدلیہ اور افواج پاکستان بار بار قانون اور آئین کی بالادستی کی بات کررہے ہیں تو اب ہماری بیوروکریسی، سرکاری ملازمین اور ریاستی حکام کو یہ بات سمجھ جانا چاہئے کہ انہیں اب پاکستان کے ’’عام آدمی‘‘ کے مسائل حل کرنے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے Manifesto میں جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے کی بات شامل کی گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ریاستی حکام کو عافیہ کی واپسی کیلئے اقدامات کرنے ہیں۔
2008 ء میں آمر کی رخصتی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت بدلتے ہوئی عالمی سیاست اور اس کی ترجیحات کا ادراک کرلیتی اور برسراقتدار آنے پر عام آدمی کے مسائل حل کرتی ، قوم سے کئے گئے وعدے پورے کرتی اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو 10سال تک امریکی جیل میں لاوارث نہ چھوڑ دیتی تو آج ملک کی سیاست میں وہ خود لاوارث نہ ہوجاتے بلکہ ملک کے 22 کروڑ عوام ان کے وارث بن ہوتے۔ بیوروکریسی اور ریاستی حکام میں موجود تالاب کو گندہ کرنے والی کچھ مچھلیاں یہ کام عمران خان سے بھی کرانا چاہتی ہیں۔اس مقام پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ذہانت اور بصیرت کی داد دینی پڑے گی۔ ساڑھے پندرہ سال کے انسانیت سوز تشدد کے بعد بھی جیل کی کالی کوٹھری میں وہ اس بات کا اندازہ کرسکتی ہے اور اپنے وزیراعظم کو خبردار کرسکتی ہے کہ وہ ’’اپنے اردگرد منافقین سے بچیں‘‘۔ وزیراعظم عمران خان یقیناًبیوروکریسی اور سرکاری حکام کے کردار سے واقف ہوں گے۔ ریاست سے وابستہ یہ طبقہ نہیں چاہتا ہے کہ عام آدمی کے مسائل کبھی بھی حل ہوں۔
وزیر اعظم سے عوام کو بے حد توقعات وابستہ ہیں۔ انہیں یقین ہے عمران خان اپنے سارے وعدوں کا پاس رکھیں گے۔ عافیہ کا امریکی حراست میں گذرنے والا ہردن ہر باضمیر شخص کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے قوم کی بیٹی نے امیدیں وابستہ کی ہیں، انہیں زنداں سے پکارا ہے، امید ہے ہمارے وزیراعظم اس خطے کی تاریخ اور جغرافیہ بدلنے والے ہیرو ابن قاسم کی لاج رکھیں گے۔قوم کو امید ہے عمران خان ان کے جذبات کو مجروح نہیں کریں گے مگر سرکاری حکام کا رویہ سوالیہ نشان ہے؟۔ڈاکٹر عافیہ کی واپسی سے قوم کا مورال اور عالمی برادری میں ملک کا وقار بلند ہوگا۔قوم عمران خان کی کامیابی چاہتی ہے مگر اس کامیابی کے حصول کیلئے عمران خان اور ان کی حکومتی ٹیم کو اقدامات کرنا ہوں گے۔وزیر اعظم عمران خان صاحب عافیہ اور قوم کا مان مت توڑنا۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں