امام کائنات ہمارے رہبر

پیغمبرِ رحمت ﷺ کی زندگی کو اللہ رب العزت نے دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کے لیے نمونہ بنا دیا ہے۔آپؐ تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کے آئے ہیں اور یہ رحمت کا پہلو صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی مخلوق پیدا کی ہے ان سب کے لیے آپؐ رحمت ہیں۔ آپ ﷺ کا ایک ایک عمل حکم خداوندی کی تعمیل کا آئینہ دار ہے۔ آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ گوہر شہوار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی مکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی عملی تصویر و تفسیر ہیں۔ آپ ﷺ کی اکمل و مکمل ذات مبارک کی مدحت ازل سے سے ابد تک جاری و ساری رہے گی کیوں کہ آپ ﷺ کی زندگی کا گوشہ گوشہ اللہ رب العزت نے حسن و جمال اور عمل و کمال سے منورکیا ہے۔
آپ ﷺ کی حیات طیبہ کا ہرہر پہلو دنیا میں بسنے والے انسانوں کے لیے راہ نجات اور عالمگیر رہنمائی ہے۔ آپ ﷺ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی تعلیم و ہدایت کے گواہ ہیں،دین اسلام کو اپنانے والے اور اس پر اپنی زندگیاں گزارنے والے لوگوں کو فلاح اور سعادت کی بشارت سنانے والے مبشر ہیں۔وہ لوگ جو ابھی تک اسلام کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے انہیں ہوشیار کرنے والے اور غفلت سے بیدار کرنے والے نذیر ہیں۔صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو جو اللہ کو چھوڑ کر غیروں کے پیچھے چل رہے ہیں ان کا رخ درست جانب موڑنے والے داعی الی اللہ ہیں۔یوں تو ہر پیغمبر اللہ تعالیٰ کا شاہد ،داعی مبشر اور نذیرہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی زندگی کو کائنات میں بسنے والے انسانوں کے لئے بہترین’’ اسوہ حسنہ‘‘ قرار دیا ہے، کہ جب تک میرے نبیؐ کی زندگی کو کوئی آئیڈیل اور نمونہ نہیں بنا لیتا اس وقت تک اس بندے کا ایمان مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔
اسی لیے اہل اسلام کی دنیا و آخرت میں سب سے اعلیٰ اور قیمتی اگر کوئی چیز ہے تو وہ محبت رسول ؐاور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانا ہے یہی عقیدت اور الفت تکمیل ایمان کا ذریعہ بنے گی،ایسی ایمان و سلامتی والی زندگی گزارنے والے کی اصل زندگی ہے اور اسی حیات طیبہ پہ چلتے ہوئے عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور روز محشر بخشش کا ذریعہ ہے۔ اگر کسی بد نصیب کے پاس یہ دولت موجود نہیں تو گویا اس کے پاس کچھ بھی نہیں ۔اس دولت کی اتنی اہمیت ہے کہ باری تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے بعد پیارے پیغمبرحضرت محمد رسول اللہ ؐ کی اطاعت کو لازمی قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ کی زندگی کا ایک ایک پہلو ہمارے سامنے احادیث کی شکل میں موجود ہے۔ پیدائش سے لے کر وفات تک کے عرصے کا دورانیہ ہمارے سامنے ہے اور وہ سب کے سامنے روز روشن کی طرح واضح ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے حالات و معاملات کو کبھی بھی صحابہ کرامؓ یامشرکین مکہ سے چھپانے کی کوشش نہیں کی، آپﷺ جس طرح شب وروز گزارتے تھے اسی طرح ہی تھے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی ۔
ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہؓ آپ ﷺکی زوجہ مطہرہ ہیں، آپؓ امام الانبیاء ﷺ کے ساتھ نو برس رہیں، فرماتی ہیں :جوبندہ تم سے یہ بات بیان کرے کہ محمد رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے کچھ چھپا لیا ہے اور مخلوق خدا پر ظاہر نہیں کیا تو اس بندے کی بات کو سچ نہ سمجھناکیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس بات کا اعلان فرمایا ہے :’’اے پیغمبر!اللہ کی طرف سے تجھ پر جو کچھ اترا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دے اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تو نے اس کی پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا‘‘۔(المائدہ67)اس لیے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا میں بسنے والے لوگوں کو پہنچانے کا حق ادا کیا اور آپﷺ کے بعد آپؐ کے جانثار صحابہ کرامؓ نے بھی اس مشن کو جاری وساری رکھا پھر تابعین تبع تابعین اور محدثین عظام اور علمائے حق نے بھی اس مشن کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایاہوا ہے ،آج ہم انہی اسلاف کی محنت شاقہ کی وجہ سے مسلمان ہیں اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ پیارے پیغمبر ﷺ سے محبت اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یارب العالمین۔

حصہ
mm
امیر حمزہ بن محمد سرور سانگلہ ہل ضلع ننکانہ کے رہائشی ہیں۔انہوں نے عربی اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سانگلہ ہل کے نواحی گاؤں علی آباد چک نمبر112میں مستقل رہائش پذیر ہیں ۔ان دنوں فیصل آبادمیں ایک رفاہی ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، ان کے کالمز روز نامہ’’ امن ‘‘ روزنامہ’’ قوت‘‘روز نامہ’’ سماء‘‘ روزنامہ’’حریف‘‘ میں شایع ہوتے ہیں۔اپنے نام کی مناسبت سے ’’امیرقلم ‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ماہ نامہ’’ علم وآگہی ‘‘اوراسی طرح دیگردینی رسائل وجرائدمیں مختلف موضوعات پرمضامین سپردقلم کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے نیشنل لیول پرکئی ایک تحریری مقابلہ جات میں حصہ لیااورنمایاں پوزیشنیں حاصل کیں ۔شعبہ صحافت سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ ای میل:hh220635@gmail.com

جواب چھوڑ دیں