تاجدارانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی40 خصوصیات

ہمارا ایمان ہے اور یہ ایمان قرآن و حدیث کی تعلیم پر مبنی ہے کہ اللہ عزوجل نے انبیاء ومرسلین میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اورحضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سب انبیاء و مرسلین پر رفعت و عظمت بخشی ، قرآنِ کریم کا ارشاد گرامی ہے تلک رسول فضلنا بعضھم علی بعضکہ اللہ تعالیٰ رسولوں کو بعض رسولوں پر فوقیت دی ہے ۔بعثت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔اُمید کی کرنیں دَم توڑ رہی تھیں۔ معاشرتی ناہمواریوں نے کھلتی کلیوں کو کمھلا دیا تھا۔ کتنے ہی آنسو دامنوں میں جذب ہو چکے تھے۔ ماؤں کے کلیجے چھلنی تھے۔ درندوں نے اپنی ہی بچیوں کو ماؤں کی گودوں سے چھین کر زمیں کی گہرائیوں میں زندہ دفن کر دیا تھا۔ بچیوں کی گھٹی گھٹی چیخوں اور مدھم پڑتی نبضوں نے بھی بے رحمی کے پتھروں کو موم کا جگر عطانہیں کیا۔اَدھ کھلی کلیوں کو صبح صبح گورِ غریباں کی نذر کرنے والے بے رحم انساں شام کی محفلوں میں درندگی کی داستاں ہنس ہنس کر بیان کرتے۔ احساسِ انسانیت مر چکا تھا۔ شرک نے عقیدے کی بزم کو ویران کر ڈالا تھا۔ معبودانِ باطلہ کے آگے جبیں سجدہ ریز تھی۔ حیا کب کی بک چکی تھی۔ شراب عام تھی۔ طہارت عنقا تھی۔ فکر میلی تھی،نظر پراگندہ تھی۔ کردار کی چمک ماند تھی۔ افکار پر برسوں کی گرد نے بسیرا کر رکھا تھا۔
راگ وراگنی اور عیش و طرب زندگی کا سرمایہ کہلاتے۔ خواتین کو محض تفریحِ طبع کا ذریعہ جانا جاتا۔ بے غیرتی کا دور دورہ تھا۔ انسانی قباتار تار تھی۔ حیوانی خصلتیں تمغہ افتخار تھیں۔ ہر طاقت ور غریب کی عزت کا سوداگر تھا۔ بازارِ دنیا میں عصمتیں نیلام تھیں۔ کوئی دُکھی دلوں کا سہارا نہ تھا، ایسی گھٹی گھٹی فضا میں کائنات انقلاب کو ترس رہی تھی۔ ایسا شکستہ دور عالمِ انسانیت نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ایسی معاشرتی ناہمواری کبھی وارد نہ ہوئی تھی۔ دنیا مسکنِ ظلم بن چکی تھی۔ فضا ایسی بوجھل کہ الامان والحفیظ۔
یہ نظام قدرت ہے اندھیروں کے بعد اُجالوں کا دور آتا ہے۔ ظلم کے بادل چھٹتے ہیں تواُجالوں کی کرنیں نمودار ہوتی ہیں۔ انسانیت کے لیے سب سے مہیب دور کیا آیا کہ رب کی رحمت جوش پر آئی۔ ایک ایسی صبح نمودار ہوئی جس نے ساری انسانیت کو نہال کر دیا۔ اُسے بھیجا گیا جس کی آمد کا سبھی کو انتظار تھا،جس کے لیے کائنات آراستہ کی گئی تھی، جس ذات کے لیے کونین کی تخلیق ہوئی تھی۔ جس کا آنا انسانیت کا نقطہ کمال ٹھہرا۔وہ آئے جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے ’’ بے شک ہم نے آپ کو شاہد ،مبشر ،نذیر اور اللہ کی طرف دعوت دینے والا روشن چراغ بنا کربھیجاہے۔’’بے شک آپ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے سے پہلے بھی بنی نوع انسانی کے لیے رحمت تھے جیساکہ پہلے وحی کے وقت اماں جی خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا ’’ہر گز نہیں! بخدااللہ آپؐ کو کبھی رسوانہ نہ کرے گا کیونکہ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ دردماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔تہی دستوں کا بندو بست کرتے ہیں ۔مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے راستے میں مصائب پراعانت کرتے ہیں۔(بخاری ومسلم) سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ خصوصیات کی تذکرہ کیا ہے ۔سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایااللہ نے بنی اسرائیل میں سے کنانہ (قبیلے )کوچنا اور کنانہ سے قریش اور قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم سے مجھے چنا ۔(مسلم :۲۲۸۶)جناب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا’’مجھے بنی آدم کے بہترین زمانے میں (نبی اور رسول )بنا کرمبعوث کیاگیا ہے ، زمانے پر زمانہ گزرتارہا حتی کہ وہ زمانہ آگیا جس میں مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔(بخاری :۳۵۵۷) سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ ؐنے فرمایا بنی اسرائیل پر نبی حکومت کیا کرتے جب ایک نبی فوت ہوجاتا اسکی جگہ دوسرا نبی آجاتا مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا البتہ میرے بعد کثرت سے خلیفہ پیداہونگے ۔(بخاری ،کتاب الانبیاء)سیدنا ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کی جان ہے اس امت سے کوئی شخص چاہے یہودی ہوچاہے نصرانی میرے بارے میں سن کر اپنی موت سے پہلے مجھ پر ایمان نہیں لاتا تو وہ ضرور جہنمی ہے ۔ (مسنداحمد جلددوم :۳۱۷)مندرجہ بالا احادیث میں حضور سرورِکائنات کی درج ذیل خصوصیات بیان کی گئی ہیں ۔
۱:آپ ؐ کے انتخاب کے لیے سب سے بہترین زمانے، قبیلے ،خاندان ،گھرکوچناگیا ،آپ ؐخاتم البنین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا،آپؐ پر ایمان لانا ہرمردوعورت پر لازم ہے بصورت دیگر ٹھکانہ جہنم ہے ۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے پانچ چیزیں(ایسی )دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔(دشمنوں پر)میری مدد ایک مہینے کی مسافت پر دی گئی ہے اور میرے لئے (ساری ) زمین کو مسجد اور طہور ( پاک اور پاک کرنے والی )بنایا گیاہے پس میری امت میں میرے لئے اورجس میرے امتی کی نماز کا وقت ہو جائے وہ نماز پڑھ لے اور میرے لیے (جہادکی)غنیمت حلال کر دی گئی ہیں مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں کی گئیں اور مجھے شفاعت بخشی گئی ( میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا ) ۔اور( مجھ سے پہلے ہر)نبی اپنی قوم کی طرف بھیجاجاتا تھا جب کہ مجھے تمام لوگوں کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘(بخا ری ۳۳۵)۔
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا : رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے۔ مجھے جامع کلام دیا گیا اور زمین کو میرے لیے مسجد اور طہور بنایا گیا ۔ میں سو رہا تھا کہ ( نیند میں ) مجھے زمین کے خزانو ں کی چابیاں دی گئیں ( جو)میرے ہاتھ میں رکھی گئیں۔(صحیح مسلم ۵۲۳)
سیدنا ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا :بے شک اللہ نے میرے لیے زمین کو اکٹھا کیا تو میں نے اس کا مشرق اورمغرب دیکھ لیا یقیناًمیری امت کی حکومت وہیں تک پہنچے گی جہاں تک مجھے اکٹھا کرکے دکھایا گیا اور مجھے دو خزانے ،سرخ و سفید دئیے گئے اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری ( ساری ) امت کو عام قحط کے ساتھ ہلاک نہ کرنا اور ان کے دشمنوں کو سوائے خود ان کے ان پر مسلط نہ کرناجوان کی ( ساری ) نسل کو ہی ختم کر دے اور بے شک میرے رب نے فرمایا : اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)! جب میں کوئی فیصلہ کر دیتا ہوں تو وہ رد نہیں کیا جا سکتا ۔ میں نے آپ اور آپ کی امت کیلئے (یہ فیصلہ ) بخش دیا ہے کہ میں اسے عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا اور اس پر ایسا دشمن سوائے خود ان پہ مسلط کروں گا جو ان کی ( ساری ) نسل کو ہی ختم کر دے اگرچہ وہ(سار ے)کونوں سے جمع ہو جائیں۔ یا راوی نے یہ الفاظ فرمائے: سارے کونوں میں سے جمع ہو جائیں حتی کہ ایسا (ضرور ) ہو گا کہ وہ ( آ پ کے امتی )ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور قیدی (بھی )بنائیں گے ۔(مسلم ۲۸۸۹)دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا ۔ایک روایت میں ہے کہ ابن عباسؓ نے آپ ؐکے ساتھ رات کی نماز پڑھی پھر رسول اللہ ؐسو گئے پھر یونہی نماز کیلئے تشریف لے گئے ۔یعنی وضو نہیں کیا ۔(بخاری :۱۱۷)عام آدمی کا دل بھی سوتاہے اور آنکھیں بھی پس سونے سے وضو لازم آئے گا ۔مگر رسول اللہ ؐکی شان اور عظمت ساری انسانیت سے بڑھ کر ہے کہ آپ ؐکی آنکھیں سوتی ہیں دل جاگتاہے اور یہ آپؐ کا معجزہ ہے ۔
رسول ؐکی قیامت کے دن خصوصیات:
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا’’ میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں گا ،سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی ،سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا ،سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہوگی ۔(مسلم (۲۲۷۸)
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن میری اتباع کرنے والے دوسرے نبیوں متبعین سے زیادہ ہوں گے ،میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا ۔(مسلم۱۹۶)
قیامت کے دن سب سے پہلے آپ ؐ کیلے دروازہ کھلے گا ۔(مسلم ۱۹۷)آپ ؐکے علاوہ کسی کے لیے دروازہ نہیں کھلے گا ۔( مسلم ۱۹۷)سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا’’ہم آخرمیں آئے ہیں قیامت میں سب سے پہلے ہوں گے ۔پس اللہ نے ہمیں ہدایت دی وہ(یہودی اور عیسائی )ہمارے پیچھے چلنے والے ہیں ۔(بخاری ۶۶۲۶)
سیدنا ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: ہر نبی کے لیے ایک دعاہوتی ہے ، جو قبول کی جاتی ہے ، میں نے اپنی دعا کو اپنی امت کی شفاعت کے لیے چھپالیا ہے اور وہ ان شاء اللہ تمہیں حاصل ہونے والی ہے ،بشرطیکہ وہ جو اللہ کے ساتھ کسی چیز میں شرک نہ کرتا ہو ۔(مسلم ۱۹۹)
بخاری کی روایت میں ہے کہ اللہ مجھے کوثر عطاکرے گا سہل بن سعدؓ سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا : میں تم سے پہلے حوضِ کوثر پر موجود ہوں گا جو میرے پاس سے گزرے گا اس کا پانی پئے گا اور جو پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا۔(بخاری ۶۵۸۳)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا’’ میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا ایلہ ( مقام ) سے عدن (مقام ) دور ہے۔ وہ برف سے زیادہ میٹھا اور شہد سے زیادہ میٹھاہے۔ اس کے برتن ستاروں کی تعدار سے زیادہ ہیں اور میں لوگوں کو اس سے اس طرح ہٹاؤ ں گا جس طرح کوئی آد می اپنے حوض سے اونٹوں کو ہٹاتا ہے۔لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ؐ! کیا آپ ؐاس دن ہمیں پہچان لیں گے ؟ تو رسول اللہ ؐنے فرمایا : ہاں ، تمہاری ایک نشانی ہے جو کسی دوسری امت کی نہیں ہے ۔تم میرے پاس وضو کی وجہ سے اس حالت میں آؤ گے کہ تمہارے وضو کے اعضا ء چمک رہے ہو ں گے۔( مسلم ۲۴۷)
سیدنا جبیر بن مطعمؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا میرے پانچ نام ہیں ’’محمد‘‘ احمد‘‘ اور ’’ماحی ‘‘(یعنی مٹانے والا ) کہ اللہ تعالی میر ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں’’حاشر‘‘ ہوں کہ تمام انسانوں کا (قیامت کے دن )میرے بعد حشرہوگااور میں عاقب ہوں خاتم النبیین ہوں ،میرے بعد کوئی نیا پیغمبر د نیا میں نہیں آئے گا ۔(بخاری ۳۵۳۵)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ ؐکوشاہد،مبشر،نذیر ،داعی الی اللہ ،سراج ،منیر ،حریص ،رؤف ،رحیم،رحمتہ اللعالمین،خاتم النبیین ،عزیز ،مرسلین،رحیم اور خلق عظیم جیسی عظیم الشان صفات سے نوازا ہے ۔
نبیؐ فصاحت وبلاغت میں ممتاز تھے آپؐ کی طبیعت کی روانی ،لفظ کی نکھار،فقروں کی جزالت،معانی کی صحت ،تکلف سے دوری کے ساتھ ساتھ جوامع القلم سے نوازے گئے تھے ۔آپ ؐکو نادر حکمتوں اورعرب کی تمام زبانوں کا علم عطا ہوا تھا،آپؐ ششتہ الفاظ اور میٹھی زبان سے لوگوں کا دل موہ لیتے ۔اپنے تواپنے اغیار بھی آپ ؐکی صداقت وامانت کے امین تھے ۔اماں جی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اگر آپ ؐکودوکاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ وہی کام اختیار کرتے جو آسان ہوتا۔آپ ؐنے اپنے نفس کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا ۔فتح مکہ کے وقت آپ ؐنے تمام کفارِ مکہ کے لیے لاتثریت علیکم الیوم کا مژدہ سنا یا جس کی تاریخ انسانی دنیا میں نہیں ملتی ۔شجاعت بہادری اوردلیری میں کوئی آپؐ کا ثانی نہ تھا۔آپ ؐ سب سے زیادہ حیادار اورپست نگاہ تھے باالفاظ ابوسعیدالخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔جب کوئی بات ناگوار لگتی تو اس کا اثر آپ ؐ کی پیشانی پر نمایاں نظرآتا آپ ؐ کبھی کسی پر نظر نہ گاڑتے ۔آپ ؐ سب سے زیادہ عادل ،پاک دامن ،صادق اللہجہ اور عظیم الامنتہ تھے ۔آپ ؐمساوات کے حامی ،اخوت کے بانی اورصدق کا منبع تھے ۔آپ ؐ نے تین چیزوں سے خود کو محفوظ رکھا:ریا ،کسی چیز کی کثرت سے ،فضول بات سے اور تین باتوں سے لوگوں کے محفوظ رکھا : کسی کی مذمت نہیں کرتے تھے ،کسی کو عارنہیں دلاتے تھے ،کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے تھے ۔رسالت مآ ب ؐ کی بے نظیر صفات بنی نوع انسانی کے لیے مشعل راہ ہیں ۔فخردوعالم ؐ کی صفات وکمالات کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے بقول شاعر
عقل سے ممکن نہیں اس کے محاسن کا حصر
سربگریباں رہیں لاکھ فقیہ وحکیم
آپؐ کی شا ن ومنقبت میں مولانا جامی رحمہ اللہ کا گلدستہ عقیدت بحضور رسالت مآ ب ؐ پیش خدمت ہے ۔
یا صاحب الجمال ویاسید البشر
من وجھک المنیرلقدنورالقمر
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد ازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں