ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے

موجودہ حکومت کو آئے چند ماہ ہی گزرے ہیں کہ مخالفت اس عروج پر پہنچ گئی ہے جس کی ماضی قریب اور ماضی بعید میں مثال نہیں ملتی ،جہاں تحریک انصاف نے انصاف کی دھجیاں بکھیر دی ہیں وہیں ہر مکتبہِ فکر کے انسان کو شدید ذہنی دباؤ میں مبتلاکردیااور اس پر ہمارے ایک اَن پڑھ وزیر بھی ہیں جنھیں معاشرے کے ہر فرد سے شکوہ ہے خواہ وہ ریڑھی والا ہو یاصحافی ،وکیل ہو یا ڈاکٹر ،جج ہو یا سیاستدان ۔۔معاشرے کو ٹھیک کرنے کا ذمہ اگر ہم ذات سے شروع کریں تو لوگ اس کو تسلیم بھی کریں گے اور ہوسکتا ہے اپنائیں بھی مگر جناب کی منظق نرالی ہے کبھی ناموس رسالت مارچ کرنے والوں کو جیل بھیجنے کی دھمکی دیتے ہیں ،کبھی کراچی پریس کلب پر اپنے کچھ نمائندگان کو بھیج کر 60سالہ تاریخ کو مسخ کرتے ہیں ،کبھی وکلا کو تڑی لگاتے ہیں تو کبھی ریڑھی والے بچے کو پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) اٹھا لاتے ہیں ،کبھی پارلیمنٹ میں سیاستدانوں سے الجھتے ہیں اور پھر رسوا ہو کر باہر نکال دیئے جاتے ہیں ،کبھی مشہور زمانہ “یو ٹرن “نامی اپنے وزیراعظم کو ڈیفنڈ کرتے نظر آتے ہیں اور سب سے بڑھ کر انصاف کی ترجمان پارٹی میں ایک ایسے انوکھے وزیر ہیں جو مشرف دور اور دیگر دسیاسی جماعتوں کے بھی مزے لوٹ چکے ہیں۔
میں یہاں وزیر ڈس انفارمیشن کی بات کررہا ہوں جو پیشے سے تو وکیل ہیں مگر زیادہ تر آپ کووزیر اور ملکی صورتحال پر ڈرامہ کرتے نظر آئیں گے صحافیوں پر غیر اعلانیہ کریک ڈاؤن ہویا میڈیا انڈسٹری میں بحران، اس میں موجودہ حکومت کا صرف ہاتھ نہیں بلکہ جسم بھی شامل ہے جب دیکھا جاتا ہے کہ صحافی کارکردگی پر سوال کر رہے ہیں تو جناب راہ فرار اختیار کرجاتے ہیں ۔گزشتہ دنوں ہمارے استاد اورایک اخبار کے سب ایڈیٹر نصر اللہ چوہدری کو گرفتار کیا گیاجس سے شہر میں ایک خوف کی فضاء قائم ہوگئی تا ہم الیکشن سے مسلسل دیکھتے آرہے ہیں کہ الیکشن کا پہلامرحلہ مکمل ہوچکا تھااب باری تھی گنتی کی مگر پھرنادرا کا سسٹم اچانک خراب ہوگیا اور جو ہونا تھا وہ پاکستان کی تاریخ میں بار ہا ہوچکاہے جس تبدیلی کا انتظار تھا وہ 2دن بعد نمودار ہوچکی تھی اب خود حکومت کو نہیں سمجھ آرہا تھا کہ ہم جیت گئے ہیں کیونکہ معجزہ کیا گیاتھا جس میں کچھ اندرونی لوگ بھی شامل تھے جس کو بتانے یا دہرانے کی ضرورت نہیں ۔
تحریک انصاف جس نے خوداپنی انتخابی کمپین میں اربوں روپے لٹائے اور میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر جس طرح تشہیری مہم چلائی گئی وہ یہ بخوبی بتاتی ہے کہ انتخابات سے قبل یہی میڈیا تھا جس نے تحریک انصاف کی ہوا چلادی تھی اور لوگوں کی جانب سے ووٹ بھی دیئے گئے مگر کراچی کا پریس کلب صرف صحافیوں کا مسکن نہیں رہا ہے خود عمران خان اس کلب کے ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ اس گھر کا حصہ ہیں شاید اب بھی یہ بات وزیراعظم کو نہیں پتہ کہ ان کے گھر پر حملہ کیا گیا ہے مگر ایک بات بلکل واضحہے ماضی سمیت موجودہ حکومت کا صحافیوں سے رویہ انتہائی تضحیک آمیز رہا ہے ہر دور میں آزادی صحافت کو کچلنے کی کوشش کی گئی کبھی خبروں پر بندش کی صورت ،کبھی خوف کی صورت تو کبھی گرفتاریوں کی صورت اگر ایسے ہتھکنڈوں کے استعمال سے اگر صحافی ڈر گئے ہوتے تو شاید ایوب خان اور ضیاء میں زندانوں میں نہیں ہوتے ولی خان بابر کی صورت اپنا خون نہ دیتے ۔
پاکستان کا شمار بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ترین تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ ماضی میں درجنوں صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھاتے ہوئے قتل کیے جا چکے یا لاپتہ کردیئے گئے،کراچی پریس کلب پر مخصوص ادارے کی یلغار اور نصراللہ چودھری کا اغوا اور پھر بھرپور احتجاج کے بعد پراسرار انداز میں عدالت میں من گھڑت الزامات لگاکر گرفتاری ظاہر کرنا ایک شرمناک عمل ہے جس پر عالمی دنیا میں پاکستان کی جَگ ہنسائی ہورہی ہے کراچی پریس کلب میں جمعرات 8 نومبر 2018ء کی رات ساڑھے دس بجے خفیہ ایجنسی اور سی ٹی ڈی کے 10 سے 15 مسلح اہلکار وں کا داخل ہونا بظاہر ایک عام سی غلطی لگتی ہے مگر جب اگلے ہی روز صحافی کو اس گھر کے باہر سے اغواکرنا معمولی عمل نہیں تھااس بات سے قطعی انکار نہیں کہ جو ملکی مفاد میں نہیں اس کو چھوڑا جائے لیکن اس طرح گھروں سے اغوا کرنا انتہائی قابلِ افسوس ناک عمل ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے کراچی پریس کلب ریاستی اداروں کے دباؤکا شکار ہے۔ کچھ ادارے کراچی پریس کلب کے جمہوری کردار سے خوش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی پریس کلب کی زمین کی لیز اورکبھی احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے تناظر میں کلب کے عہدیداروں کو مختلف نوعیت کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب صحافی نصر اللہ چوہدری کے خلاف مقدمہ قائم کرنے سے بھی کچھ معاملات واضح ہوگئے ہیں ،یہی پریس کلب تھا جس نے ایوب خان کے1958ء کے مارشل لاء کے خلاف آواز بغاوت بلند کیا تھا جس کے بعد صحافیوں کو پابند سلاسل ہونا پڑا تھا اوربلآخر ایک دن کی ملک بھر ہڑتال کے بعد 1963ء میں صحافیوں کی اس تحریک نے کامیابی کی منازل طے کیں ۔اس دور میں بھی ایوب خان نے پریس کے تقدس کا احترام کیا۔
کہا جاتا ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹوکی خواہش تھی کہ وہ کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب کریں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کی آزادیء صحافت کے خلاف کارروائیوں کی بناء پر کراچی پریس کلب کے عہدیداروں نے بھٹو صاحب سمیت حکومت کے کسی عہدیدار کو کلب آنے کی اجازت نہیں دی مگر بھٹو حکومت نے کسی قسم کا دباؤ استعمال نہیں کیا۔ کراچی پریس کلب نے اس وقت شاعر عوام حبیب جالب ،ڈاکٹر عبدالسلام، فیض احمد فیض، حبیب جالب اور احمد فراز وغیرہ کو اعزازی رکنیت دی ہوئی ہے ۔

ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں