مدینہ کی مٹی میں شفاء ہے

یہ ان دنوں کی بات ہے جب صحنِ مسجد نبوی کچا ہوا کرتا تھا ۔ صحن معطر میں نیند کی آغوش میں حضرت علی ث استراحت فرما رہے ہیں ۔حالتِ نیند میں دائیں بائیں کروٹیں لینے سے حضرت علی ثکے جسم مبارک پر مسجد نبوی ا کی مٹی مانندِ لباس چمٹ کر نازاں وفرحاں ہورہی ہوتی ہے۔ایسے میں ادھر سے آقا دوجہاں ا کا گزر ہوتا ہے ۔اپنے دوست، وصی ،جانثار کو ایسی حالت میں دیکھتے ہیں تو آہستگی سے حضرت علیث کو بیدار کرنے لیے آواز دیتے ہیں۔حضرت علیؓ برگوشِ آوازِ سیدالکونین ا آنکھیں ملتے ملتے بیدار ہوئے ہیں اور جسم کو مٹی سے لت پت دیکھ کر مجسم حیرت ہوتے ہیں کہ اتنے میں لب مبارک وا ہوتے ہیں چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے لب ہائے مبارک سے پھول جھڑتے ہیں آواز کچھ یوں ترتیب پاتے ہیں کہ ’’یاابو تراب ‘‘ ۔ اے ابو تراب ، اور اس دن سے ہی حضرت علی ثکا لقب مبارک ابو تراب پڑ گیا ۔ گویا آپ اکے لفظوں اور جسمِ علی نے مدینہ کی مٹی کو ہمیشہ ہمشہ کے لیے عالمِ اسلام کے ہر مسلمان کے لیے مقدس و محترم کر دیا۔ خاکِ بطحا کی فضلیت وتقدس کے بارے میں آنحضور ا نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔مدینہ منورہ کی خاک میں ہر بیماری کی شفا ہے‘‘
ایک بار حضرت ثابت بن قیس ث بیمار ہوئے توآپ انے دم کیا اور وادی بطحا کی مٹی ایک پیالہ میں ڈالی اور پانی ڈال کر بیمار کو چھینٹے مارے‘‘ گویا یہ بات طے ہوئی کہ خاکِ مدینہ کا ذرہ ذرہ اپنے اندر شفائے کاملہ سے بھرپور ہے گویا دیکھنے میں ایک ذرہ مگر شفائے مکمل کا ایک نخلستان ہے ۔ ایسی ہی ایک بار نبی مکرم ا بنوحارث کے ہاں تشریف لے گئے انہوں نے طبیعت کی ناسازی کی شکایت کی تو آنحضور ا نے فرمایا کہ’’وادی صعیب کی مٹی کیوں استعمال نہیں کی‘‘اس مٹی کو لے کر پانی میں حل کرو وہ پانی اپنے پر چھڑک دو‘‘ حضرت حارث ث نے ایسا ہی کیا تو ان کا بخار جاتا رہا ۔ جس مٹی کے بارے میں آقائے نامدار نے ایسے جملے عطا کیے ہوں تو اس کرہ ارض کے ذروں کو آنکھوں سے لگانا باعثِ عزو شرف خیال نہ کرنا کوئی منکر و کافر ہی ہوسکتا ہے وگرنہ مومنین تو خاکِ بطحا کو آنکھوں کا سرمہ بنانا۔ نورِ عین کا بڑھنا خیال کرتے ہیں ۔ علامہ محمد اقبال جب بغرضِ اعلیٰ تعلیم یورپ گئے اور مغربی تعلیم و تہذیب کو بغور مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو اوروں کی طرح نہ تعلیم کے دام فریب میں آئے اور نہ تہذیب ہی کا ان پر کوئی اثر ہو سکا اور اس وجہ اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کرتے ہیں۔
؂ خیرہ نہ کرسکا مجھے جوہ دانش و افرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
علامہ اقبال کے اس شعر پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ نہ صرف اقبال بلکہ کرہ ارض کا ہر مسلمان خاک بطحا کے ذرات تک کو پیار کرنا اپنا ایمانی حق خیال کرتا ہے اور زینتِ عینین کو کمالِ نازاں پر محسوس کرتا ہے ۔ خاکِ بطحا سے کس کو پیار نہیں ، حضرت عمر ث ایک دعا اکثر کیا کرتے تھے کہ ’’اے اللہ مجھے شہادت کی موت عطا فرما اور اسی شہر میں عطا فرما‘‘اور ان کی یہ دعا قبول ہوئی کہ اسی شہرِ عشق میں جامِ شہادت نوش فرمایا اور خاکِ بطحا بھی نصیب ہوئی بلکہ حبیب کبریا اکا پڑوس بھی نصیب ہوا۔ اسی لیے اہلِ تصوف فرمایا کرتے ہیں کہ مدینہ میں دعائیں سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ ایسے ہی جس نے بھی ایک بار اس ارضِ مقدس کو اپنا مسکن بنایا پھر کسی اور وطن جا کر بسنے کی آرزو دل میں نہ بسا سکا ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ساری عمر مدینہ میں رہے لیکن ارضِ مقدس کی تقدیس ملاحظہ ہو کہ ساری زندگی پاؤں میں جوتا نہیں پہنا ۔ رفع حاجت کے لیے بھی شہر سے باہر جاتے ، جانے اور آنے کا عالم یہ تھا کہ تیز قدموں سے جاتے تھے اور تیزتیز قدموں سے لوٹ آتے تھے اس خوف سے کہ کہیں مدینہ سے باہر جان قفسِ عنصری سے پرواز ہی نہ کر جائے (اور میں شہرِ مدینہ کی مٹی ) سے محروم نہ کر دیا جاؤں ۔ اللہ نے ان کی اس خواہش کا بھی احترام فرمایا اور آج وہ جنت البقیع میں آرام فرما ہیں۔ آپ اجب بھی کبھی مدینہ سے باہر جاتے اور واپسی کرنے میں جلدی فرماتے اورفرماتے اور مدینہ کی طرف واپس لوٹتے تو سواری کو تیز فرما دیتے ۔ چہرہ مبارک کو بلند فرماتے اور فرماتے یہ ہوائیں طیبہ کی ہیں اور جو گردو غبار چہرہ انوار پر پڑ جاتا اسے صاف نہ فرماتے ۔ ایک بار آنحضورا تبوک سے واپس مدینہ تشریف لارہے تھے کہ کسی صحابی (رضی اللہ عنہ ) نے گرد سے بچنے کے لیے چہرہ کو ڈھانپ لیا ۔ صحابی (رضی اللہ عنہ) کو ایسے کرتے دیکھ کر آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ ’’اس ذات مقدس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ، مدینہ کی خاک میں شفاہے‘‘ صرف یہیں بس نہیں کہ خاکِ مدینہ میں شفا ہے بلکہ آپ ا نے مختلف صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمٰعین ) کو مدینہ کی مٹی کے استعمال سے فائدہ پہنچا کر س بات کا عملی ثبوت بھی فراہم کیا۔ حضرت مسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا کہ ’’مدینہ منورہ کا غبار کوڑھ پن کو دور کرتا ہے ‘‘
بحیثیت مسلمان ہم سب کا اس بات پہ کامل ہونا چاہیے کہ مدینہ کی خاک عام مٹی نہیں بلکہ تراب شفا ہے اس لیے کہ وہاں ہم سب کا دلبرودلدارا آرام فرما ہیں اور انہیں کی نسبت سے خاک یثرب کا ذرہ ذرہ مقدس و محترم ہے مگر یہ سب ان کے لیے ہے جنہوں نے اس عشق کو پالیا وگرنہ دنیا میں ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو برلبِ دریا رہتے ہوئے بھی تشنگی کا واویلا مچاتے رہتے ہیں اور جو پالیتے ہیں انہیں مدینہ کے ریگزاراور صحراؤں سے بھی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں بقول علامہ محمد اقبال
؂ خاکِ یثرب از دوعالم خوشتر است
آن فلک شہر کہ آنجا دلبر است
مدینہ کی خاک دوعالم سے بڑھ کر ہے یہ ٹھنڈی ہواؤں کا شہر ہے جہاں ہم سب کے دلبر ا موجود ہیں ۔اللہ ہمیں اس مٹی کی برکتیں نصیب فرمائے ۔آمین۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں