کیا یہی “انصاف” ہے؟

میں تو نہ کسی عمران نیازی کو جانتی ہوں نہ کسی کرپٹ زرداری و نواز کو، نہ کسی تبدیلی کو جانتی ہوں نہ پرانے پاکستان کو، نہ ہی یہودی یا لبرل کو اور نہ کسی مذہبی لیڈر یا مولوی مفتی کو، نہ  میں ڈالر کے ریٹ میں اضافے کو جانتی ہوں ،نہ گیس بجلی پیٹرول کے اضافے کو، نہ ہی کسی چندے کو نہ کسی قرض کو، ملکی معیشت کی بہتری کو نہ معاشی بحران کو۔

میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ تجاوزات کے نام پر جب کسی ضعیف بابا کا پتھارا تباہ کیا گیاہوگا تو اس کے دل سے کیا کیا بد دعا نکلی ہوگی، کسی گھر کے واحد جوان کفیل کا ٹھیلہ گرایا ہوگا تو اس کی ماں نے کیا کیا دہائیاں دی ہوںگی۔۔۔ کسی یتیم “چھوٹے” کے کیلے کا ٹھیلہ اٹھا کر پھینکا ہوگا اور اس کی بڑی بہنوں کا کیا حال ہوا ہوگا؟ ان کے دل نے کیسے کرب کے ساتھ اللہ سے شکایت کی ہوگی؟۔  کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے داروں نے دن کی کمائی بھی چھین لی، گھروں کے منصوبے تو دور کی بات ،کئی لوگوں کے سر پر چھت تک نہ رہی اور تجاوزات کے نام پر مساجد تک مسمار کردیں۔ غیر قانونی غیر قانونی کا شور مچانے والے سب سے پہلے بنی گالہ کی تجاوزات کو گرانے کا شور مچاتے اور اگر اتنی ہمت نہیں ہے تو بس خود اس گھر میں اور اس ٹھیلے پر بیٹھا ہی محسوس کرلیں۔ یہی پتھارے اگر احتجاج میں عوام نے گرا دیئے ہوتے تو ایک قیامت برپا ہوتی کہ ہائے کتنا نقصان ہوگیا، دن کی دیہاڑی والوں کا گزارا آج کیسے ہوگا ؟غریبوں نے آج کیا کھایا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔

وہ بھی غلط ہے اور یہ بھی۔۔۔۔ اس اقدام سے تو غریبوں کا مستقل آمدنی کا ذریعہ ہی چھن گیا اب اسکے اثرات ایک الگ بحث ہے کہ اس کے بعد ناجانے ان میں سے کون کون بھوکا مرے، کتنے خودکشی کریں اور کتنے جرائم پیشہ بنیں۔ نوکریاں تو پڑھے لکھے نوجوانوں کو نہیں ملتیں یہ تو پھر غریب ٹھیلے لگاتے تھے۔ ان کو نوکریاں کون دےگا اور کتنے لوگوں کو دےگا؟ بیروزگاری اور غربت کا یہ عالم ہے کہ ہماری ماں بہنیں اور بٹیاں تک اب روڈ پر پتھارے لگا رہیں ہیں، ان حالات میں یہ اقدام۔۔۔ اتنے بڑے آپریشن سے پہلے کم از کم کوئی مناسب متبادل جگہ فراہم کر دی ہوتی تو ناجانے کتنے غریبوں کی دعائیں ملتیں، یہ دعاؤں بد دعاؤں کی کبھی کسی فرعون نے فکر کی ہے؟ افسوس! یہ بد دعائیں جلد اثر کریں گی اور فرعونوں کے مقدر میں تو عبرتناک انجام ہی لکھ دیاگیا ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں