علم کے بغیر حق و باطل کی تمیز ممکن نہیں  

عمل سمجھ ہے تو جہل ناسمجھی ۔ علم کے بغیر نہ قول کا بھروسہ نہ عمل کا ٹھکانہ ۔بے شک علم کا مقام عمل سے پہلے ہے ۔لیکن ،عمل نہ ہو تو علم بیکار ۔ حضرت علی ؑ   کاقول ہے کہ ’’علم عمل سے وابستہ ہے ،جسے علم ہوگا وہ عمل بھی کرے گا۔اور علم تو عمل کو پکارتا ہے ۔اگر عمل اس پر لبیک کہے تو خیر ،ورنہ علم وہاں سے کوچ کر جاتا ہے ۔‘‘

قرآن قول و عمل سے پہلے علم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے ۔’’جان لیجیے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘ علم باعث فضیلت ہے ۔علم والوں کے درجے بلند ہوتے ہیں ۔’’اللہ تم میں ایمان والوں کے اور اُن لوگوں کے  جن کو علم عطا ہوا ،درجے بلند کرے گااور اللہ کو تمہارے اعمال کی سب خبر ہے ‘‘۔

علم ایک ایسی نعمت ہے جس سے انسان کے اندر حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔اس کی شخصیت میں نکھار آتا ہے اور صاحب علم کو غور و فکر کی نئی راہیں ملتی ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو بھی حکم دیا کہ آپ اپنے علم میں اضافے کی دعا مانگتے رہیں ۔قل رب زدنی علماً ۔۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ نے سب سے پہلے علم کو پیدا کیا ۔آپ ﷺ نے بعض اوقات علم کو عبادت سے  بھی افضل قرار دیا  ہے ۔مدینہ منورہ میں آپ ﷺ نے اشاعت علم کی طرف خاص توجہ فرمائی ۔جنگ بدر میں گرفتار کیے گئے قیدیوں سے زر ِفدیہ لینا طے ہوا تو جو اِس کی طاقت نہیں رکھتے تھے لیکن لکھنا پڑھنا جانتے تھے اُن سے کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں، ،یہی ان کا زرِ فدیہ مان لیا جائے  گا اور جب ایک قیدی کم از کم ایک مسلمان کو لکھنا پڑھنا سکھا دے گا تو اسے رہا کر دیا جائے گا ۔ حالانکہ بعض جنگی ،تزویری اور سیاسی حکمت عملی کے مد نظر یہ اقدام کسی طرح خطروں سے خالی نہ تھا لیکن  آنحضرت ﷺ نے اپنے اس فیصلے سے در اصل یہ بتایاہے  کہ علم ایسی  عظیم نعمت ہے کہ اُس کے حصول کے لیے بڑے سے بڑا خطرہ بھی مول لیا جا سکتا ہے (۱)۔

قرآن کریم علم اور ہدایت کا اصل منبع  اور بنیادی  ذریعہ ہے ۔وہ تمام خرابیاں جو آج ہمارے اندر من حیثُ ا لاُ مت سرایت کیے ہوئے ہیں اُن کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ہم نے  قرآن کو عملاً  ’مہجور‘ بنا رکھا ہے ۔بے سمجھے قرآن کو پڑھنا بھی اُسے مہجور بنا دینا ہی تو ہے ! قرآن کتاب ہدایت ہے ۔’’یہ قرآن تو بس سارے جہان کے لیے نصیحت ہے ‘‘ اور ہدایت ،علمِ با عمل کا دوسرا نام ہے (۲)جو ہدایت حاصل کر لیتے ہیں وہی عالم ِبا عمل کہلاتے ہیں ۔قرآن کے ہدایت کی کتاب ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اُس میں جو علم ہے وہ برائے ہدایت ہے اور یہ علم لازماً  عمل کا مطالبہ کرتا ہے (۳)

قرآن کے تصور علم کی بنیاد وحدانیت ہے یعنی الہٰ تو بس وہی ہے ۔’وہی ‘ یعنی اللہ سبحانہ تعالیٰ جو پوری کائنات کا خالق اور تمام مخلوقات کاپالنے والا ہے  اور سب کو با لآخر اُسی کی طرف پلٹ کے جانا ہے ۔ اُسی کی ذات تمام خوبیوں اور حسن کا سرچشمہ ہے ۔اُس کی مرضی قانونِ فطرت بھی ہے اور قانونِ اَخلاق بھی ۔در حقیقت اُسی کی ذات اور اُسی کی قدرت ہر علم کی اَصل ہے (۴)

 وہ فرماتا ہے کہ ’’اگر ایک اللہ کے علاوہ اور بھی الہٰ ہوتے  تو زمین اور آسمان میں فساد بر پا ہو گیا ہوتا‘‘ وحدانیت کا یہی تصور وحدت ِنظام کی طرف اشارہ کرتا ہے ،یعنی اللہ کے علاوہ اگر اور بھی الہٰ ہوتے تو یہ کائینات اتنی مُنَظَّم نہ ہوتی ۔صرف یہی نہیں کہ اللہ نے ’’ہر شے کو ٹھیک ٹھیک اندازے پر پیدا کیا ہے اور ہر شے کی تخلیق کا ایک خاص مقصد بھی  ہے ۔ہم اگر اس مقصد ِ تخلیق کو پوری طرح نہیں سمجھ پاتے تو صرف اس لیے کہ ہمارے علم کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک لق و دو تاریک جنگل میں کوئی جیبی سائز کی ٹارچ لیے ٹہل رہا ہو ! یہی مقصد کی وحدت ،دین ِ اسلام کو ایک با معنی اور متحرک نظام میں تبدیل  کر دیتی ہے (۵)اورخلقتِ انسان و کائنات میں ذرا بھی  غور و فکر کرنے والاانسان بے اختیارچیخ اُٹھتا ہے کہ ’’پالنے والے تو نے کچھ بھی بیکار خلق نہیں کیا ہے ‘‘ ربنا ما خلقت ھذا باطلا !

دنیا میں رہتے ہوئے انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ اُس ’ سنت الٰہی‘ کا علم حاصل کرے’’جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی‘‘،وہ فطرت کے اصولوں کو سمجھےاور اُن کی بنیاد پرہر نفع بخش  علم کو مزید ترقی دے ،فطرت کے وسائل کوضایع ہونے  اور اس کے  اِسراف دونوں سے بچائے ،اور دنیا کو ہر طرح کے فساد سے محفوظ رکھنے کی امکانی کوشش کرتے ہوئے ،بلا تفریق ساری  انسانیت کے لیے اُسے حسب استطاعت سجائے اور سنوارے  (امن کا گہوارہ بنائے۔ نہ کہ جہنم ارضی جو آج انسان نے دنیا کو بنا رکھا ہے ) (۶)۔

باب مدینۃا لعلم  کا قول ہے کہ ’’علم دو طرح کے ہوتے ہیں مطبوع اور مسموع ۔ مطبوع وہ جو فطرت میں رچ بس کر عمل سے ظاہر ہو اور مسموع  وہ کہ سن تو لیا مگر عمل ندارد ۔ تو مسموع علم جب تک مطبوع نہ ہو ( نہ خود صاحب علم نہ دنیا والوں ،کسی کے لیے) فائدہ مند نہیں ہوتا (۷) ۔

اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی دو کتابوں کو علم کا ذریعہ بنایا ہے ۔ایک ’الکتاب ‘ یعنی قرآن اور دوسرے کتاب فطرت یعنی ’اَنفُس اور آفاق ‘! یعنی تمام مخلوقات سمیت کُل کائینات ۔ آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے  کہ ’’علم اس سے سوا ہے کہ شمار میں آئے ۔ پس تم بہترین عناصر کا انتخاب کرلو (۸) اسی لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی بے پناہ  محبت سے کام لیتے ہوئے پوری کائنات کو انسان کے لیے ’مُسَخَّر‘ کر دیا ہے تاکہ علم کے سفر میں ،ہدایت کی راہ پر ،جبر کا کوئی روڑا،  رکاوٹ نہ بننے پائے ۔ ’’کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور جو کچھ زمین میں ہے سب کچھ اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں (سورہ لقمان آیت ۲۰)۔

حوالے : (۱)قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کے سائنسی کارنامے ۔ڈاکٹر غلام قادر لون ۔مکتبہ اسلامی دہلی ۱۹۹۹ص ۱۴۔۱۵(۲ و ۳) قرآن اور سائنس ایک علمیاتی جائزہ ۔ڈاکٹر محمد ریاض کرمانی ۔مجلہ آیات علیگڑھ ،جلد  ہفتم جنوری اگست۱۹۹۶ص ۲۶۔۲۷(۴و۵اور ۶)علوم اسلامی کی تشکیل جدید ۔اسمٰعیل راجی الفاروقی ۔سنٹر فار اسٹدیذ آن سائنس علی گڑھ ص ۳۳۔۳۶( ۷)نیا تعلیمی تجزیہ ۔علامہ عقیل الغروی ۱۹۸۵ص ۱۴۵ بحوالہ نہج ا لبلاغۃ (۸)طرائف ا لحکم ۔اشتیانی ۔جلد ایک اور بحار ا لا نوار جلد ایک الکنز للکراجسکی ۔

حصہ
mm
لکھنو کے رہنے والے عالم نقوی ہندوستان کے ایک کہنہ مشق صحافی،اور قلم کار ہیں وہ ہندوستان کے مختلف اخبارات و جرائد ور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں