اُردو زبان با عثِ فخر ہے ،شرم نہیں

کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا ۔آپ نے اکثر یہ مُحا ورہ سُنا ہو گا اس کو سُننے کے بعد ایسا محسوس ہو تا ہے جیسے یہ ہماری قوم کے لیے ہی  بنایا گیا ہو ۔ایسا کیوں ؟ وجہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز میں دوسروں کی بالخصوص مغرب کی تقلید کرتے ہو ئے اپنی اقدار کو کہیں بہت پیچھے چھو ڑ دیتے ہیں ۔

عنوانِ تحریر سے آپ بخوبی سمجھ گئے ہو ں گےکہ قومی زبان اُردو کی بات کی جا رہی ہے ۔

ہماری یہ زبان قیام ِ پاکستان سے ہی تنزلی کا شکار ہے ۔جب تک ہم اپنی روز مرہ کی بول چال میں انگریزی زبان کے الفاظ کی ملاوٹ نہ کر لیں اردو بولتے ہو ئے شرم محسوس کرتے ہیں ۔قوموں کی تاریخ ہے کہ جو اقوام اپنی ثقافت ،زبان اور اقدار کو  چھو ڑ دیتی ہیں دُنیا اُنھیں بہت پیچھے چھوڑ دیتی ہے ۔اُن قوموں نے کبھی ترقی نہیں کی جنھوں نے اپنی زبان میں ترقی نہیں کی ۔زبان ہے کیا؟خیالات کے اظہار کا ذریعہ ۔خیالات جب الفاظ کا رُوپ دھارتے ہیں تو زبا ن وجود میں آتی ہے ۔ماہرِ عمرانیات کے مطابق زمانہ قدیم سے ہی انسان کو اپنی فطری ضروریات پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے سے را بطے کی ضرورت محسوس ہو ئی ۔جس کے نتیجے میں اشاروں کی زبان وجود میں آئی ۔جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گیا   الفاظ ایجاد ہوتے گئے ۔ان الفا ظوں نے مل کرایک زبان کا روپ دھار لیا ۔اُردو ہماری قومی زبان ہے اور اتحادکا ذریعہ بھی ۔ایک نظراُردو زبان کے آغاز و  ارتقاء پر ڈالتے ہیں ۔

اُردو کو مُختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ۔

ہندوی،ہندی،ہندوستانی ،ریختہ،اردوئے مُعلےٰ،دکنی ، گجراتی وغیرہ۔

تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ اُردو کا قدیم ترین نام ہندوی تھا  جسے امیر خسرو نے اپنے اشعار میں استعمال کیا تھا ۔ہندوستان کی نسبت سے اس کا نام ہندوستانی پڑا ۔غالب نے اردو کے لیے ریختہ کا لفظ اپنی شاعری میں استعمال کیا۔اُردو زبان میں چو نکہ دیگر کئی زبانوں کے الفاظ شامل ہیں جن میں فارسی ،عربی ،تُرکی ،انگریزی،ہندی،پنجابی ،بلوچی ،پشتو وغیرہ شامل ہیں کی اسی خاصیت کی بناء پر اسے اُردو مُعلے ٰ بھی کہا گیا جس کا مطلب ہے لشکری زبان ۔

ہندوستا ن کی سرزمین ہمیشہ ہی دوسری اقوام کے لیےبا عثِ دلچسپی رہی ہے ۔حضرت عیسی ؑ کی پیدائش سے قبل آریا قوم وسط ایشیا سے اُٹھے اور سرسبز زمینوں اور پا نی کے لیے ہندوستا ن پہنچے پھر یہیں آبا دہو رہے ۔اس زمانے میں برِ صغیر میں اوڑیا،تلگو اور تا مل زبانیں بو لی جا تی تھیں ۔آریاؤں کی اپنی زبان سنسکرت تھی۔ان تمام زبا نوں کے گٹھ جو ڑ سے ایک نئی زبان وجود میں آئی جس میں عربی ،فا رسی  اور تُرکی زبان کے الفاظ بھی شامل ہو ئے ۔یہ زبان اُردو کہلائی ۔اُردو دُنیا کی وہ واحد خو بصورت زبان ہے جس کی یہ خاصیت ہےکہ وہ کسی بھی زبان کے الفاظ کو اپنے دامن میں ایسے سمیٹ لیتی ہے جیسے یہ اُسی کے ہوں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہ زبان آج بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ آج دُنیا کی بو لی جا نے والی تیسری بڑی زبان ہے ۔

قابلِ فکر اور شرم بات یہ ہے کہ ہماری قومی زبان ہو نے کے باجود یہاں یہ زبان تنزلی کی طرف گامزن ہے ۔اُس کی بڑی وجہ شاید انگریزوں کی غلامی ہے جو اُن سے آزادی حاصل کرنے کے باجود ہمارے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں پنپ رہی ہے ۔یہ غلامی ہمیں  انگریزی سیکھنے اور بو لنے کی طرف مجبور کرتی ہے ۔آج قیامِ پاکستان کے 70 سال بعد بھی ہماری دفتری زبان انگریزی ہی ہے جو شرم کی بات ہے ۔ سپریم کو رٹ کے فیصلے کے با جود کچھ قوتیں ایسی ہیں جو اُردو کے نفا ذ میں رکاوٹ ہیں ۔

پو ری دُنیا میں نظامِ تعلیم اُن کی اپنی قومی زبان میں ہو تا ہے سوائے اس ارضِ پاک کے۔

اعلیٰ تعلیمی اداروں سے لے کر عام سطح کے تعلیمی اداروں تک میں اُردو کو کو ئی اہمیت حاصل نہیں ۔ہماری نو جو ان نسل نہ تو اس زبان میں تعلیم  حاصل کرنا چاہتی ہے  نہ اس میں اپنا کو ئی مستقبل  دیکھتی ہے ۔پو ری قوم ایک بھپرے ہو ئے ہجوم کی طرح انگریزی تعلیم کے حصول کی طرف دیوا نہ وار دوڑی چلی   جا رہی ہے ۔جس کا نتیجہ ایک عجیب سی کھچڑی کی صورت میں نکل رہا ہے ۔  نو جو ان نسل کی ایک ایسی کھچڑی جس کا نہ تو کو ئی ذائقہ ہے نہ رنگ۔اس ملغوبے سے صرف پیٹ ہی بھر اجا سکتا ہے ۔ انگریزی زبان ہماری نہ ہونے کی وجہ سے ہم صحیح سے سیکھ نہیں پاتے جبکہ اُردو نہ سیکھنے کی وجہ سے خراب کر دیتے ہیں ۔اس بیچاری نو جوان نسل کی تشبیہ کچھ اس طرح دی جا سکتی ہے کہ “نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے ۔۔۔ نہ خدا ملا نہ وصالِ صنم”۔ان کی اس تباہی کے ذمہ دار ہم سب ہیں ۔

ہم سب اپنی مادری زبان میں بات کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں چا ہے وہ پنجابی،سرایئکی ہو یا سندھی،بلوچی ،پشتو،ہندکو  ہو لیکن اُردو کے لیے ہمارے اندر یہ احساس نہیں ہے ۔حالانکہ یہ وہ واحد زبان ہے جو پوری قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہے

جو ہمارے درمیاں اتحاد و اتفا ق کا ذریعہ ہے ۔یہ وہ واحد زبان ہے جو اس ملک کے تمام باسیوں اور مُختلف زبانیں بو لنے والوں کے درمیان را بطے کا ذریعہ ہے ۔پھر اسے لکھنے ،پڑھنے اور بو لنے میں شرم کیسی؟

زبان کسی بھی مُلک کا سرمایہ ہو تی ہے ۔ہمیں اس ضائع ہو تے سرمائے کو بچانا ہے ۔اس مقصد کے لیے ہم نو جوانوں کو آگے آنا ہو گا ۔اس مُلک میں خو ش قسمتی سے 65 فی صد آبادی نو جوا نوں کی ہے جو کچھ بھی کر سکتے جو نظا م کو بدل سکتے ہیں ۔ یاد رہے قوموں کی تاریخ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کی اپنی زبان میں کی ہے ۔

اسکولوں میں اساتذہ کو اس بات پر دھیان دینا چاہیے کہ بچوں میں اُردو سے مُحبت اور اس کی اہمیت کا احساس اُجاگر ہو ۔ اپنی قومی زبان سے پیار پیدا ہو ۔اسے حقیر نہ جانیں ۔آج کل کے بچے بہت تیز اور سمجھدار ہیں آج آپ اُن کی جیسی تربیت کریں کل کو وہی کچھ یہ آپکو اور اس قوم کو لوٹائیں گے ۔ یہ مستقبل کے معمار ہیں اور ترقی کا ذریعہ اپنی زبان ہے ۔ہمیں ان بچوں ،نوجوانوں کو سمجھانا ہو گا   کہ” اُردو زبان با عثِ فخر ہے شرم نہیں……

حصہ

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں