بچوں کی تربیت ،احتیاط لازم

سب کو معلوم ہے کہ بچے معصوم ہو تے ہیں۔پھول کی ما نند ان بچوں کو اپنی پیدائش سے لے کر لڑکپن اور پھر جوانی تک رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے .یہ رہنمائی سب سے پہلے ان کو ان کے والدین سے ملتی ہے پھر وہ اسکول میں اپنے اساتذہ اور بعدمیں معاشرے سے سیکھتے ہیں ۔وہ ماں کی گود میں اشارات کے ذریعے سیکھتے ہیں ،جب ہلکا پھلکا بولنے لگتے ہیں تو اپنی ماں کی گفتگو کو غور سے سننے ہیں اوران کے ٹوٹے پھوٹے جوابات دیتے ہیں ۔اس دور میں وہ ہلکی پھلکی شرارتیں بھی کرتے ہیں ،ان کی مسکراہٹیں والدین کو طما نیت اوران کے قلب کو سکون پہنچاتی ہیں ۔
دنیا بھر میں معاشرہ کوئی بھی ہو وہاں والدین کے نزدیک بچوں کی بہترین تعلیم وتربیت ان کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے ۔والدین اپنے بچوں کی اخلاقی ،سماجی اورمعاشرتی پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر تربیت کرتے ہیں ،جب کہ وہ والدین جن کی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے۔ان کے بچے بھی معاشرے میں محرومیوں اور مصائب سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔مہذب معاشروں میں بچوں کے بہترین مستقبل کیلئے ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور ان کی کاؤنسلنگ کی جاتی ۔ان کے اذہان وقلوب آنے والے وقت اورحالات کیلئے تیار کیے جاتے ہیں ۔انہیں اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں ۔ان کو محنت سے محبت اور سستی سے نفرت کادرس دیا جاتا ہے اور انہیں وقت کے صحیح استعمال اور کامیاب انسان بنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔انہیں بڑوں کے ادب واحترام سکھایا جاتا ہے جبکہ عملی زند گی میں داخل ہونے تک ان کی قدم قدم پررہنما ئی کی جاتی ہے ۔ایسی تربیت کے بعد ہی مہذب معاشرے جنم لیتے ہیں۔ طبقاتی نظام تعلیم نے ہمارے معاشرے میں لوگوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اسی تقسیم کی وجہ سے یہاں کبھی امیر،غریب کا فرق کبھی ختم نہیں ہوسکتا نہ ہی تعلیمی اداروں کا فرق ختم ہوگا۔
امرا کے بچوں کے بڑے اسکول، غریبوں کے بچوں کیلئے چھوٹے اسکول ،امرا کے بچوں کے اسکول میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ ،بچوں سے بات کرنے کا رنگ ڈھنگ مختلف ہو تا ہے ،لیکن چھوٹے اسکولوں میں اساتذہ کا طرز تکلم ہی عجیب وغریب ہو تا ہے ،انہیں اپنی گفتگو سے بچے کی شخصیت پر پڑنے والے اثرات کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ان کا لہجہ ،ان کا بات کرنے کا انداز،ان کا مزاج یہ تمام چیزیں بچے نوٹ کرتے ہیں اور پھر ان پروہ اپنے والدین سے گفتگوکرتے ہیں ۔ایک ٹیچرکا رویہ اورلہجہ اچھا نہ ہوتو اس کے بچے کی شخصیت پر خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسے بچوں سے گفتگو میں کوئی ایسی منفی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے بچے غلط تاثر قائم کریں اوراسے اپنے والدین سے ڈسکس کریں ۔ایک ٹیچر کی کہی ہوئی بات کو بچے بہت اہم سمجھتے ہیں، یہاں تک کے ٹیچر اگر انہیں کسی سوال کا غلط جواب دے تووہ اسے یقین کی حد تک درست تصور کرتے ہیں ،،لہٰذ اٹیچر کو اچھے اخلاق وکردار کا حامل ہونا چاہیے ۔اسکولوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اساتذہ کیلئے تربیتی نشستو ں کا اہتمام کریں اور انہیں تدریس کے بہترین اصول اور طریقے سکھائیں ۔یہ سب کاوشیں بچے کی شخصیت کی تعمیر میں والدین کی معاون ہوں گی۔
بچوں کی تربیت کیلئے کچھ رہنما اصول پیش خدمت ہیں جنہیں نافذ کر کے ہم اپنے بچے کو مثالی انسان بنا سکتے ہیں لیکن اس کیلئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ جب سمجھ بوجھ کی منزل پرقدم رکھے تو ان اصولوں پر تربیت کی جائے ،یعنی وہ3یا4سال کا ہوتو آپ اسے اچھی اورمثبت گفتگو کریں ۔اسے اچھی اوربری چیزوں اور باتوں میں فرق بتائیں ۔ہر غلط بات یا چیز سے روکیں جواس کیلئے نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔یہ سب باتیں عموماً والدین بچے کو بتا رہے ہوتے ہیں اوران کے بچوں پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔بچوں کی مثالی تربیت کیلئے چند اہم نکات پیش خدمت ہیں ۔
بچوں سے ہمیشہ محبت سے پیش آئیں ۔ان سے نرمی برتیں ۔ابتدا سے ہی انہیں دینی تعلیم دیں ۔گھرمیں بھی بچوں کو دینی ماحول دیں ۔کم عمری ہی سے انہیں نمازکی عادی بنائیں۔انہیں اچھی اوربری باتوں کا فرق بتائیں ۔انہیں تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کریں ۔ان کے ساتھ گھر پر زیادہ تروقت گزاریں ۔انہیں تفریحی مقام پر سیر کیلئے لے جائیں ۔کھیل کے دوران ان کے ساتھ تھوڑی دیر کیلئے خود بھی بچے بن جائیں ۔انہیں آداب زندگی سکھا ئیں ۔اٹھنے بیٹھنے کا قرینہ سیکھائیں ،انہیں صحت مند رہنے کیلئے طورطریقے سیکھا ئیں ۔انہیں دینی و اصلاحی کہانیاں سنائیں۔بچے بری باتوں کا اثر بھی بہت جلد لیتے ہیں ،والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے اپنا کوئی کمزورپہلو عیاں نہ کریں ۔انہیں اپنے بزرگوں اور رشتے داروں کی مثبت باتوں سے آگاہ کریں ،ان کی منفی باتوں سے اجتناب کریں ۔انہیں اپنے اباؤ اجداد سے متعلق بتائیں ،ماں باپ کی عظمت سے متعلق بتائیں ۔بڑوں کا ادب اورسلام میں پہل سکھا ئیں ۔ان کے ساتھ دوستانہ سلوک روا رکھیں۔گھر کا ماحول خوش گوار رکھیں ۔اپنا رویہ مثبت رکھیں،تعلیمی معاملات میں ان کی حوصلہ افزائی کریں انہیں اور انہیں وقتاً فوقتاً انعام واکرام سے نوازیں ۔اچھا لباس پہنائیں ،ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پوراکریں ،ان کا دل نہ توڑیں۔
باربارکی ڈانٹ سے گریز کریں ۔بچے کسی مرحلے پر ناکامی کا شکار ہوتو اس کی حوصلہ شکنی نہ کریں بلکہ اسے مزید محنت کی تلقین کریں۔ اپنے ایسے عمل سے گریز کریں جس سے بچہ بدظن ہواورکسی مرحلے پر آپ سے کھنچا کھنچا یا نروس رہے ،انہیں اظہارخیال کا بھرپور موقع دیں اورن کی بات پوری توجہ سے سنیں ۔والدین ان تمام باتوں کا خیال رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم آئیڈیل نتائج حاصل ہوسکتے۔اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی والدین پربچوں کے اخلاق وکردارکی تعمیرکیلئے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔

حصہ
mm
1988 میں زمانہ طالب علمی سے قلم قبیلے کا حصہ بنے۔بچوں کی کہانیوں سے لکھنے کا آغازکیا ۔1997میں میٹرک کے بعد صحافت کے پیشے سے بطور سب ایڈیٹرمنسلک ہوئے۔2000سے 2012 تک روزنامہ جسارت کراچی میں بطور ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر ذمہ داریاں انجام دیں ۔مختلف نیوز چینلزمیں بھی کام کا تجربہ حاصل کیا۔آپ جامعہ اردوسے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں ۔کرنٹ افیئر ،بچے اورمعاشرہ آپ کے تحروں کا مرکزومحور ہیں ۔قلم کو اصلاح اورخدمت کیلئے استعمال کرناان کامقصد حیات ہے۔شاعری سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں ۔آپ اچھے کمپیئر بھی ہیں۔آج بھی ایک قومی سطح کے اخبار سے بطورسینئرسینئرسب ایڈیٹر منسلک ہیں ۔آپ رائٹرزفورم پاکستان کے صدر ہیںاورتقریباًتمام ہی اردو اخبار ات میں کالم کاری کرچکے ہیں،آپ کے سیکڑوں کالم ،مضامین ،فیچرزاوررپورٹس اخبارات وآن لائن ویب سائٹس کی زینت بن چکے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں