اقبال کا نظریہ حیات

برصغیر پاک و ہند کی نابغۂ روزگار شخصیت، عظیم مفکر، فلسفی و دانشور، حکیم الامت، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی شخصیت کسی تعارف کی احتیاج سے بے نیاز ہے۔ ایسی دیدہ ور شخصیات معاشرے میں خال خال ہی سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کی صحبت سے فیض یاب ہونا یقینا باعث افتخار و انبساط ہے۔ اور ان کے اقوال زریں جو ان کے اشعار اور خطبات سے ہم تک پہنچتے ہیں قلب و نظر کو بلند پروازی بخشتے ہیں۔ اور ژرف تخیل سے مسحور کرتے ہیں۔ ان کا کلام ان گنت کمالات کا مرقع ہے اور دل و جگر کو تیرگی سے نکالتا اور تحریک سے روشناس کرتا ہے۔

اقبال کی شاعری متنوع اور ہمہ جہت پہلو لیے ہر عمر اور طبقہ کے افراد کو محظوظ کرتی ہے۔

اقبال مشرق و مغرب کے نظام ہائے معاشرت و سیاست سے بخوبی آشنا تھے۔ ہر دو نظام جانچ لینے کے بعد اپنی فراست سے نوجوان مسلم کو اقبال نے مشرقی روایات کی پاسداری کا درس دیا۔ اپنے بیٹے جاوید کے لندن بھیجے گئے خط میں اقبال بیش قیمت نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں

اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں

 سفالِ ہند سے مِینا و جام پیدا کر

 مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے

 خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

اقبال کی شاعری کا ایک بڑا پہلو خودی کی ترویج ہے۔ آپ کی شاعری میں جا بجا خودی کا درس ملتا ہے اور آپ نے اسے زندگی اور زندگی کی رنگینی سے تعبیر کیا۔ خودی کے خاتمہ کے حوالہ سے آپ کی نظم

‘مرگ خودی’ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

 خودی کی موت سے مغرب کا اندرُوں بے نور

 خودی کی موت سے مشرق ہے مُبتلائے جُذام

 خودی کی موت سے رُوحِ عرب ہے بے تب و تاب

 بدن عراق و عَجم کا ہے بے عروق و عظام

 خودی کی موت سے ہِندی شکستہ بالوں پر

 قفَس ہُوا ہے حلال اور آشیانہ حرام!

 خودی کی موت سے پیرِ حرم ہُوا مجبور

 کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامٔہ احرام!

غیرتِ قومی و ملی حمایت کے ساتھ ساتھ آپ جہاد کے بھی پر زور حمایتی رہے۔ آپ مسلمانوں پر ہونے والے جور و ستم پر نالاں تھے اور مسلمانوں کی بد عملی کو اس کا سبب گردانتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں

جہاد

 فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے

 دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

 لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں؟

 مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سُود و بے اثر

 تیغ و تُفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں

 ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذّت سے بے خبر

 کافر کی موت سے بھی لَرزتا ہو جس کا دل

 کہتا ہے کون اُسے کہ مسلماں کی موت مر

 تعلیم اُس کو چاہیے ترکِ جہاد کی

 دُنیا کو جس کے پنجۂ خُونیں سے ہو خطر

 باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے

 یورپ زِرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

 ہم پُوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے

 مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

 حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات

 اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر!

اقبال نے مادی وسائل پر زور دینے کی بجائے روح اور دل کی ایمانی کیفیات کی ترقی پر زور دیا۔ آپ نے مرد قلندر کے اوصاف بیان کیے ہیں اور ہمیں ایسے ہی اوصاف و عادات کی تلقین کی ہے۔

 نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے

 خراج کی جو گدا ہو، وہ قیصری کیا ہے!

 بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نومیدی

 مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!

 فلَک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں

 خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے

 فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

 نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

 اِسی خطا سے عتابِ مُلُوک ہے مجھ پر

 کہ جانتا ہُوں مآلِ سکندری کیا ہے

 کسے نہیں ہے تمنّائے سَروری، لیکن

 خودی کی موت ہو جس میں وہ سَروری کیا ہے!

 خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری

 وگرنہ شعر مرا کیا ہے، شاعری کیا ہے!

زمانہ کی روش کو دیکھتے ہوئے آپ دست بدعا ہیں

الہی میرا نور بصیرت عام کر دے

حصہ

جواب چھوڑ دیں