توہینِ رسالت پرآسیہ مسیح کی رہائی؟ 

ہم اہل پاکستان، اپنے بنی ﷺسے اتنی محبت کرتے ہیں کہ اپنے ماں باپ بہن بھائی غرض یہ کہ اپنی سب سے قیمتی متاع اپنے پیغمبر ﷺپر قربان کرنے سے بھی نہیں دریغ نہیں کرتے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ
’’باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا‘‘
نبیِ محترم ﷺ کے شیدائیوں کا کوئی امتحان لینے کی کوشش نہ کرے،ناموسِ رسالتؐ پر ہم اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ایک بھنگن نے بیسویں صدی کے آخری عشرے میں میرے بنیﷺ کی شان میں گستاخی کی تودوعدالتوں نے اس کو گردن زدنی قرار دیدیا تھا ۔مگر مغرب کے دباؤں میں ہمارے حکمرانوں نے اس لعینہ کوبچائے رکھا ۔جس پر سلمان تاثیر جیسا ملامتی ایک مجاہد قادری کے ہاتھوں اسی لعینہ کی وجہ سے جہنم رسید ہوا اور مغرب کے اشاروں پر محترم نواز شریف نے اس فدائی کو تختہِ دار پر چڑھاکر اورشہید کر کے اپنا حشر بھی دیکھ لیا۔
چیف جسٹس کی جانب سے واضح الفاظ میں کہا گیا کہ شک کا فائدہ ملزم کو ملنا چاہئے ۔ملزم بھی وہ ٹھیری جو میرے نبی محترم ﷺ کی توہین کے جرم میں دو عدالتوں سے پھانسی کی مجرم دلائل وبراہین کی بنیاد پر ٹھیرائی جا چکی تھی۔جس پر ہر لحاظ سے پھانسی کا جرم ثابت ہو چکا تھا۔جب عدالتِ عظمیٰ سے آسیہ مسیح کی رہائی کا حکم جاری ہوا تو ناموسِ رسالتؐ کے پروانوں کے تو جیسے جسم سے روح ہی پرواز کیا چاہتی تھی۔مگر چونکہ اس عدالت کا احترام ہر پاکستانی کرتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے فیصلے پربے حد تحمل کا مظاہرہ کیا۔مگر ناموسِ رسالتؐ ایسا عنوان ہے جس پر مسلمان تو کمپرومائز کر ہی نہیں سکتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے ہر حصے سے فیصلے پر تاسف کا اظہار کیا جانے لگا۔ مگر حکمران عوام کو اداروں سے لڑانے پر آمادہ دکھائی دیئے۔ایسی بات جس پر ہر جانب سے خاموشی تھی پاکستان کا وزیرِ اعظم میڈیا پر آکر نہایت جذباتی انداز میں کر گیا تاکہ عوام اداروں سے ٹکرانے میں دیر نہ کریں اور وہ روم کوجلا کر کسی ٹیلے پر چین کی بانسری بجاتے رہیں۔ ہمارامیڈیا جس میں سیکولر مغرب زدہ افراد کا اکثریت میں قبضہ ہے وہ تواس فیصلے پربغلیں بجا رہا تھا مگرپاکستانی مسلمان ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا تھا۔
عمراں نیازی وہی ہیں جنہوں نے 126 دن ریاست کے قانون کو چیلنج کئے رکھااور پاکستان کی معیشت کو کنٹینر پر چڑھ کرتباہ کیااورمسلسل قانون کی حکمرانی کو چیلنج کیا ہوا تھا۔جس پر خوف زدہ حکمران خاموش تھے، ہرجانب سے سناٹاچھایا ہواتھا۔جرم کی حفاظت و حمایت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔پھر کنٹینر پر چڑھ کر یہی شخص وہی باتیں کرنے پر لوگوں کو اکستارہا تھا جن کے خلاف آسیہ مسیح عدالتی فیصلے کے بعد عمران نیازی دھاڑیں مار مار کر کہہ رہے تھے دھمکیاں دینے اوراُکسانے والوں کے خلاف ریاست ذمہ داری پوری کرے گی۔ریاستی اداروں اور سر براہان کے خلاف بیانات ناقابلِ قبول اور افسوس ناک ہیں۔ہم پوچھتے ہیں کہ جب کنٹینر پر کھڑے ہو کر عمران نیازی اور ان کے حواری یہ سب کچھ کر رہے تھے تو جائزتھا؟مزید دھمکی دیتے ہوئے عمران نیازی کہہ رہے تھے کہ حکومت کو قدم اُٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے ۔جھوٹ بول کر لوگوں کو اُکسایا جائے گا تو فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہوگا۔ہم پوچھتے ہیں کہ 126دن جوجھوٹ بول کر آپ نے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کئے وہ کیا تھا؟ اور اب آپ پاکستان کا مزیدخرابہ جو 75 دنوں میں کر چکے ہیں وہ سب کچھ کس کے ایجنڈے پر ہو رہا ہے؟اس کامطلب یہ ہے کہ آپ کو پاکستان کے دشمنوں نے ٹریننگ دے کر پاکستان کی سیاست کے میدان میں اپنے زر خرید وں کے ذریعے کامیاب کر اکے پاکستان کو ہر میدان میں تباہ کرانا ہے۔موصوف مزید فرماتے ہیں کہ یہ لوگ(مذہبی طبقات)اسلام کی خدمت نہیں کر رہے ہیں کیا گذشتہ سال کے دھرنوں میں یہ اور ان کے لوگ اسلام کی خدمت کر رہے تھے؟
نومبر 2017سے نومبر 2018کے دوران صرف ایک سال بعد ہی تاریخ نے اپنا پہیہ اُلٹاگھما کر اہلِ دانش کو حیران کر دیا ہے کہ کل تک بطورِ اپوزیشن رہنمافیض آباد دھرنے کے دوران موصوف خود فرما رہے تھے کہ ’’ میر دل چاہتا ہے کہ میں بھی احتجاج کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ جاؤں ‘‘یہ کیسا تضاد ہے نیازی تیری زبان میں؟جبکہ ٹی وی پر جذباتی خطاب میں انہی خادم حسین رضوی کے گروہ کو ایک چھوٹاساطبقہ قرار دے کر ان سے سوال کر رہے ہو کہ اس میں حکومت کا کیا قصور ہے؟آج لوگوں نے ماضی کا یو ٹرن وزارتِ عظمٰی پر قابض ہونے کے بعد اہل پاکستان نے ایک مرتبہ پھر دیکھ لیاکہ دھرنا دینے والوں کو خبردار کر رہے تھے کہ اگر وہ بازنہ آئے تو ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے گی؟کوئی ٹریفک رکنے نہیں دی جائے گی(مگر پورے پاکستان میں ٹریفک روکی گئی)ریاست سے ٹکرانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔نیازی صاحب ماضیمیں ناموسِ رسالتؐ کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں مگر آپ کے پرکھوں نے احتجاج کرائے ۔مگر آج تو ناموسِ رسالتؐ کا معاملہ حقیقی ہے سو آپ کے پسینے چھوٹ گئے ۔
یکم نومبر کو ناموسِ رسالتؐ پر عوامی احتجاج پر حکومت سیخ پا ہوئی تو وزیرِ اطلاعات نے دھمکی دی ہے کہ کوئی دھوکے میں نہ ر ہے آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا آپ کے ساتھ کیا ہوا؟اور پھر عوام نے دیکھاکہ مولاناسمیع الحق جو ایک ماہ پہلے بھی نیازی کو تنبیہ کر چکے تھے اور شہادت والے دن بھی وہ ناموسِ رسالتؐ پراحتجاج کے دوران آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمتی تقریر کر کے واپس آئے تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حرمتِ رسولؐ پر جان قربان کرنے کا نعرہ ایک الگ بات ہے ۔توہینِ رسالت پر مجرم کو رہا کرنا دوسری بات ہے۔ پورا پاکستان اپنے رسول ﷺ سے محبت میں سراپہ احتجاج ہے۔مگر یہ پاکستان کی بد قسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ مغربی حمایت کے سیکولر لوگ پاکستان میں دینی طبقات کی مسلسل دل آزاری پر مجبور ہیں۔ تو انہیں نماز عصرسے پہلے دو دہشت گردوں کے ہاتھوں اُن کی پنڈی کی رہائش گاہ پرشہید کرا دیا گیا۔ یہ عظیم عالمِ دین جن کی ہر طبقہِ فکر عزت کرتا ہے۔خون میں لت پت اپنے کمرے میں پائے گئے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج حرمتِ رسولؐ پر جان کی قربانی کے نعرے لگانے والے کیوں خاموش بیٹھے ہیں؟یہ بات ہر ظالم کو یاد رکھنا ہوگی کہ شہید مولاناسمیع الحق کا خونِ نا حق رنگ لائے گا۔اللہ کا قانونِ انصاف بھی ایسا ہی ہے کہ ظالموں کو پتہ تک نہیں چلتا ہے۔
مجبور ہوکرتحریکِ لبیک کے رہنما ؤں کو حکومت سے دھرنا ختم کرنے کے معاملے پر کہنا پڑ رہا ہے کہ جن مقد مات کی ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے صرف وہی عدالت میں جائیں گے۔کیونکہ حکومت سے سارے مقدمات کے خاتمے پر بات ہوئی تھی۔ آسیہ مسیح کانام ای سی ایل پر ڈالنے کے وعدے پر وفاقی وزیر مذہبی امور کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ فیصلہ دے گی۔دوسری جانب تحریکِ لبیک کا کہنا ہے کہ حکومت کو 7,6 دن میں معاہدے پر عمل در آمد کرنا ہے۔جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ اس پر جلد از جلد عمل ہوگااس معاملے میں کوئی غلط فہمی پیدانہ کی جائے ۔علامہ فاروق حسن قادری کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ حکومت نے معاہدے میں جو لکھا ہے،اس کی پاسداری کری گی۔ایف آئی آر والے مقدمات عدالت میں جائیں گے ۔معاہدے کے مطابق پولیس تحویل میں موجود لوگوں کو رہا کر دیا جائے گا۔جن لوگوں کی ایف آئی آر درج ہوگئی ہیں ان کے متعلق قانونی طریقہ اختیار کیا جائے گا۔آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کام عدالتوں کا ہے جس پر جلد از جلد عمل ہوگا۔جبکہ تحریکِ لبیک کے رہنما کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں سارے مقدمات ختم کرنے پراتفاق ہوا تھا۔تھانوں میں موجود لوگوں کو رہا کرنے اور جن پر مقدمات قائم کئے گئے ہیں انہیں دو تین دنوں میں چھوڑنے پر اتفاق ہوا تھا حکومت نے اگر سوتیلی ماں کا سلوک کیا تو ان کا حشر اچھا نہیں ہوگا۔اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی تو ہم ادھر ہی ہیں اور سڑکیں بھی ادھر ہی ہیں۔توہیںِعدالت پر آسیہ مسیح کی رہائی کسی قیمت پر منظور نہیں ۔

جواب چھوڑ دیں