حرمت رسول ؐ پہ جان بھی قربان

ماسی کا کچھ پتہ نہیں ہے، کب سے انتظار کر رہی ہوں مسز اصغر نے بڑی بے چینی سے اپنے شوہر نامدار سے کہا جو کہ اخبار  پڑھنے میں مگن تھے۔

شادی والا گھر ہے اتنے سارے کام پڑے ہیں ذرا آپ دروازے پر دیکھیں ماسی آ گئی ہو گی، مسز اصغر جلدی جلدی روٹی پکاتے ہوئے بولی۔

ممامما! آپ کہاں ہیں ،آج تو مزا ہی آ گیا ہماری جلدی چھٹی ہو گئی ہیں حالات خراب ہوگئے ہیں نا اور ہنگامے بھی شروع ہوگئے ہیں ابوذر نے گھر میں قدم رکھتے ہیں ساری باتیں ایک ہی سانس میں کہہ ڈالی۔

لو بھئی اسی ہنگامے کی کمی رہ گئی تھی، ہمارے گھر میں کم ہنگامہ مچا ہوا ہے جو باہر بھی شروع ہوگئے عائشہ کی شادی سر پر کھڑی ہے ،ان لوگوں کو تو بس  موقع بے موقع لوگوں کو بے سکون کرنا ہوتا ہے ۔اب کیا ہو گیا مسز اصغر نے بڑے طنزیہ لہجے میں اصغر صاحب سے ساری تفصیل پوچھ ڈالی۔

وہی ختم نبوت والا قصہ دوبارہ اٹھا ہے،تمام لوگوں نے دھرنے دینے شروع کردیے ہیں، احتجاجی مظاہرے جگہ جگہ ہو رہے ہیں۔ اصغر صاحب نے نیوز چینل بدل بدل کر اپنی بیگم کو تمام حالات کا بتاتے ہوئے کہا۔

اف توبہ ہے، گھر میں شادی ھے آج تو مجھے مارکیٹ کا لازمی چکر لگانا تھا جیولرز کے پاس عائشہ کا سیٹ تیار رکھا ہے، ٹیلر نے آج ہی وعدہ کیا تھا کہ سارے کپڑے تیار ملیں گے آپ کو مگر ان لوگوں کو تو بس موقع چاہیے میری ساری آج کی پلاننگ برباد کر دی۔

اچھا بھئی پریشان نہ ہوں آپ ،میں ابھی نماز پڑھنے جا رہا ہوں اور ساتھ ہی قاضی صاحب کو نکاح کا بھی بولتا آئوں گا ،ابوذر بیٹا آپ آ کر دروازہ بند کر لو۔

نماز سے فارغ ہونے کے بعد امام صاحب نے تمام لوگوں کو اکھٹا ہو کر بیٹھنے کو بولا آج کے  ہونے والے حساس واقعہ ناموس رسالت کے سلسلے میں بتانا شروع کیا،امام صاحب کی باتیں مکمل ہوئیں، تو میں نے فوراً ہی ان سے سوال کر دیا کہ ہمارے عوام تو بہت زیادہ جذباتی ہو جاتے ہیں یہ تو حکومت اور قانون کا فیصلہ ہے ،پھر یہ مولوی حضرات خواہ مخواہ اپنا فتویٰ جاری کر دیتے ہیں اور لوگوں کو اشتعال میں لے آتے ہیں جس سے پورے ملک میں بدنظمی اور ملک کے املاک کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے۔

امام صاحب نے اصغرصاحب کی بات بڑی تحمل سے سنی اور فرمایا کہ آپ جو سوچ رہے ہیں کہ یہ معمولی بات ہے ایک فیصلے پر لوگ کیوں ابل پڑے ہیں، آپ کو معلوم ہے گستاخ ِرسول کا معاملہ کوئی عام بات نہیں ہے بلکہ یہ تو 21 کروڑ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا فیصلہ ہے یہ بہت حساس اور نازک معاملہ ہے اسلام اور کفر کے درمیان امتیاز کرنے والا معاملہ۔

رسول اللہ ؐکی شان میں اگر کوئی گستاخی کرے تو اللہ اس کے بارے میں بیان کرتا ہے سورہ لہب میں ہے تبت یدا ابی لہب وتب کا حاصل یہ ہے کہ اس کی موت بھی بری ہوئی اور اس کی بیوی کی موت بھی بری ہوئی اور آخرت میں بھی ان کا بڑا بھیانک انجام ہوگا۔اور یہ بد ترین جوڑا ہے تاریخ انسانی کا ،جس کے بارے میں یہ الفاظ تاقیامت ادا کیے جاتے رہیں گے۔

مگر لوگوں کے ذہن میں یہ تاثر پھیلا ہوا ہے کہ امام الانبیاءؐ کا اپنے دور میں  بھی واقعہ طائف میں معافی کا اعلان واقعہ فتح مکہ میں اللہ کے رسولؐ نے عام معافی کا اعلان فرمایا تھا۔اصغر صاحب نے اپنی بات کی وضاحت طلب کی۔

امام صاحب نے بات کی وضاحت فرمائی،کہ خیبر کا ابو رافع ایک یہودی سردار  تھااس کو قتل کرنے کا حکم خود اللہ کے رسولؐ نے دیا تھا۔

کعب بن اشرف کا واقعہ بخاری کی روایت ہے تمام احادیث کی کتب میں ہے حضورؐ نے بیان فرمایا ہے کہ کون مجھے اس کی شرارتوں سے نجات دلائے گا ۔صحابہ کرام کی جماعت گئی اورکعب بن اشرف جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اس کو بلایا گیا اور پوری پلاننگ کے ساتھ اس کو قتل کیا گیا اور حضور کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی گی۔

بالکل اسی طرح فتح مکہ میں عام معافی کا اعلان بھی ہوا وہاں کم و بیش16,17  افراد کا نام لے کر آپ صلی  اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ یہ لوگ کہیں بھی ملیں تو ان کو قتل کردو اگر کعبہ کے غلاف میں لپٹیے بھی ہو تو ان کو قتل کر دو۔

امام صاحب بتاتے ہوئے بے انتہا غمگین ہوگئے اور کہا کہ میری آپ سے التجا ہے کہ آپ اس ناموس رسالت والی بات کو اپنی حد تک نہ سمجھیں یہ ناصرف  دیوبندیوں، اہلحدیث ،شیعیوں کا معاملہ بلکہ یہ پوری امت کا معاملہ ہے۔ اللہ کے نبیؐ کی ذاتِ وہ واحد ذات ہے جس پر پوری امت متفق ہے۔

امام صاحب ہمارے چاروں اماموں کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے۔ اصغر صاحب نے امام صاحب سے بڑی بےچینی سے پوچھا۔امام صاحب نے کہا جزئیات میں فقہ کے درمیان خواہ کتنا ہی اختلاف ہو مگر رسول کی عظمت میں حنفی ،مالکی، حنبلی شافعی سب کا اتفاق ہے کہ آپ کو گالی دینے والا واجب القتل ہے۔ اللہ نے فرمایا جو میرے ولی کی  شان میں گستاخی کرتا ہے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

پھر تو حکومت  جس طرح تعلیمی پالیسی میں علماء کو شامل کرنا چاہتی ہے اسی طرح اس کو چاہیے کہ یہ بڑا دینی و شرعی معاملہ ہے تمام جید علماء دین کو جمع کرکے ان سے معاملہ طے کریں۔ اصغرصاحب نے بڑے پرجوش انداز میں امام صاحب سے کہا۔

ماشاءاللہ یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے ۔ہم سب کو حکومت سے ضرور رابطہ کرنا چاہیے۔ اللہ ہمارا حامی وناصر مددگار

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں