آئینے کے پیچھے

خوبصورت لباس زیب تن کیے۔۔۔ ملکہ حسن بنی وہ خراماں خراماں چلتی، بالوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے، دراز زلفوں کو کندھوں پر بکھیرے ۔۔۔  شیشے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔ہونٹوں پر ہلکی لپ اسٹک۔۔۔آنکھوں کے گردکاجل کا حاشیہ ۔۔۔۔۔لمبی دراز گھنی پلکوں میں سے اس نے اپنی جھیل سی آنکھوں کو دیکھا۔۔۔۔اور پھر اپنے سراپا حسن پر اک نظر ڈال کر وہ زیر لب مسکرائی۔۔۔کھلتی ہوئی سفید رنگت میں نیلے رنگ   کے قمیص میں ملبوس اسکا وجود اور بھی پر کشش دکھ رہا تھا۔۔۔اک ادا سے کمر کو خم دیتے ہوے اک بار پھر اس نے خود کو سراہتی ہوئی نظروں سے آئینے میں دیکھا۔۔۔۔ہاں میں بالکل ویسی ہی لگ رہی ہوں جیسا تیار ہوتے وقت میں نے سوچا تھا۔۔۔آئینہ ہمیں وہی عکس دکھاتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔۔نہا دھو کر آئینے کے سامنے آؤ گے تو وہ صاف ستھرا دکھائے گا۔۔۔سوئے اٹھ کر آؤ گے تو وہ سویا سویا عکس ہی دے گا۔۔۔

ہاں۔۔۔۔! آئینہ ہمیشہ سچ بولتا ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!

مگر جلد ہی چونک کر وہ سوچوں سے باہر نکل آئی۔۔۔بالوں کو اک ادا سے جھٹک کر ماتھے سے پیچھے کیا اور ساتھ ہی ساتھ ذہن میں آنے والے خیالات  بھی جھٹک دیے۔۔۔۔

اور شیشے کے آگے سے ہٹ گئی۔۔۔جلد ھی عائشہ پڑھنے لکھنے کی میز کے سامنے بیٹھی تھی۔۔۔

نازک انگلیوں میں اک نہایت خوبصورت قلم تھام رکھا تھا۔۔۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ نازک انگلیاں تیز رفتاری سے صفحہ قرطاس پر لفظوں کی دھنک بکھیرنے لگیں۔۔۔رنگوں کے جال بننے لگیں۔۔۔خوبصورت لفظوں سے آراستہ موتی چن کر لفظوں کی مالا بنانے لگیں۔۔۔مضبوط لفظوں کے چمکتےموتی سیپ میں بند کرنے لگیں۔۔۔ چہرے کے تاثرات پل پل بدلنے لگے۔۔۔بھنوؤں کا تناؤ۔۔ پتہ دیتا تھا کہ کوئی تلخ حقیقت سیاہی  کی گرفت میں آ کر کاغذ کی  کال کوٹھری میں قید ہو رہی ہے۔۔۔لفظ ملتے گئے جملے بنتے گئے۔۔۔یونہی کئی سطریں مکمل ہوئیں تو کاغذ کا وجود اس حقیقت کو سمیٹنے میں کم پڑنے لگا تو اس نے نئے کاغذ کو آزمائش میں ڈالا۔۔۔۔ اور پھر تو جیسے قلم اور ورق کی دوستی ہو گئی۔۔۔کاغذ بھرتے گئے اور خیالات کو الفاظ کا روپ ملتا رہا۔۔۔آخر پر کچھ لمحے کو وہ سوچنے کے لیے رکی۔۔۔قلم کو ہونٹوں میں دبائے نتیجہ کن انداز میں وہ غورو فکر کرتی رہی۔۔۔ اور پھر چند جملے اور لکھ کر اس نے تحریر کا اختتام کر دیا۔۔۔

اب وہ اوراق،،، جو اس کی تصنیف تھے،،،، ترتیب سے اسکے سامنے رکھے تھے۔۔۔درستگی کے لیے اس نے تحریر کو پڑھنے کا باقاعدہ آغاز کیا۔۔۔

تحریر کا آغاز کچھ یوں تھا۔۔۔ ہم سادہ اور معصوم عوام،  مسائل کا بس وہ پہلو دیکھتے ہیں جو دکھایا جاتا ہے۔۔۔یا جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔۔اسکی مثال بالکل اس طرح ہے جیسے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر جو دیکھو گے وہی دکھے گا۔۔۔ ہم میں سے کسی نے بھی،،،

 کبھی نہ کبھی،،،

 کہیں نہ کہیں۔۔۔۔

کسی جلوت میں۔۔۔۔

 یا کسی خلوت میں۔۔۔

بھیڑ میں۔۔۔

 یا تنہائی میں۔۔۔۔

خوشی میں۔۔۔

 یا غم میں۔۔۔

کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ آئینے کے پیچھے کیا ہے؟؟؟؟ جی ہاں قارئین کرام۔۔۔! میں یہاں بات کر رہی ہوں ان تمام امور کی۔۔۔۔ جو اندرونی ہیں اور جو حکومتی سطح پر ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان کا علم تک نہیں ہوتا۔ ہم تصویر کا صرف اک رخ دیکھ رہے ہوتےہیں۔۔۔۔

مثال سے بات کو واضح کیے دیتی ہوں۔۔۔۔ ہمارے محترم چیف جسٹس نے موبائل فونز کا ٹیکس ختم کیا۔۔۔۔عوام خوش ہو گئی۔ بہت سراہا۔۔۔اور صاحب عوام کیلئے ہر دلعزیز ہو گئے۔۔۔۔کچھ دن مزید گزرے۔۔۔ایک اور خوش کن خبر آئی۔۔۔۔ جس سے عوام میں جوش وجذبے کی لہر دوڑ گئی۔۔۔

اک اہم اور سنگین معاملے پر چیف جسٹس صاحب نے نہایت دانشورانہ فیصلہ دیا۔۔۔ وہ تھا  ڈیم کی منظوری۔۔۔ اور صرف اتنا ہی نہیں عوام کو آسان رستہ دکھایا اور ڈیم فنڈز کی ٹرم متعارف کروائی۔۔۔

بس پھر کیا تھا۔۔۔عوام چیف صاحب کی دلدادہ ہو گئی۔۔۔۔ اور اپنا ہیرو ماننے لگی۔۔۔چیف صاحب کو نہایت عقل مند تصور کرنے لگی۔۔۔اور صاحب عوام میں اتنا مقبول ہو گئے کے ان کے عام سےعام فیصلے کو بھی نہایت سراہا جانے لگا۔۔۔۔کیوں۔۔۔کیونکہ اب تک عوام تصویر کا اک رخ دیکھ رہی تھی۔۔۔حقیقت تو آئینے کے اس طرف، اس پار تھی۔۔۔۔

اور اسی اثناء میں آسیہ بی بی کا مسئلہ بھی ان کے سامنے آیا۔۔۔عوام نہایت عمدہ اور اسلامی قانون کے مطابق فیصلے کی منتظر تھی۔۔۔

مگر۔۔۔۔ فیصلہ توقعات کے بالکل بر عکس سنایا گیا۔۔۔ چیف صاحب کی دانائی اس معاملے میں کم پڑ گئی۔۔۔انکی ذہانت پھیکی پڑ گئی۔۔۔سالوں سے کی ہوئی تمام سابقہ ججز کی محنت ان کو بے کار لگی۔۔۔ سب کے متحد اور یکساں امور کو ناقص کر کے نیا فیصلہ سنادیا کہ آسیہ بے قصور ہے۔۔۔

ارے میں کہتی ہوں کہ اتنا دانا شخص جو پاکستان کے حق میں اتنے بڑے بڑے فیصلے بغیر خوف و خطر لے سکتا ہے۔۔۔وہ اس پہلے سے حل شدہ مسئلے کو اور پہلے سے سزا یافتہ خاتون کو با عزت  بری کیسے کر سکتا ہے۔۔؟؟؟ وہ بھی جب معاملہ ناموس رسالت کا ہو۔۔۔وہ اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کیسے کر سکتا ہے۔۔۔اتنے اہم مسئلے پر اتنا غیر سنجیدہ فیصلہ۔۔۔؟؟؟ اتنی ناقص عقل کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔۔؟؟؟

تو قارئین آئیے میں آپ کو حقیقت کی طرف لیے چلتی ہوں۔۔۔

تاریخ گواہ ہے۔۔۔جب بھی امریکہ جیسے دوست لوگوں نے اپنے مقصد کا کوئی مسئلہ حل کروانا ہو،،،، تو وہ اپنے مطلب کا بندہ چنتے ہیں۔۔۔اور پھر اسے سپورٹ دے کر اختیارات دلواتے ہیں۔۔۔اور پھر پاکستان میں کسی مقرر کردہ خاص کرسی پر اس کا تعینات کر دیا جاتاہے۔۔۔شروع میں تو عوام کی بھلائی اور اچھائی کے کام کروائے جاتے ہیں۔۔۔اور جب اعتماد قائم ہو جاتا ہے۔۔۔ وہی بندہ ملک  کا محسن اور ہیرو تصور کیا جانے لگتا ہے۔۔۔عوام اسے چاہنے لگتے ہیں۔۔اس کے ہر کیے جانے والے کام کو آنکھیں اور دماغ بند کر کے اچھا ہی تصور کیا جاتا ہے۔۔۔ تب دشمن پینترا بدلتا ہے۔۔۔۔اس خمار میں ڈوبے لوگوں کو ایسی چوٹ دیتا ہے۔۔اس طریقے سے اپنا مقصد پورا کرتا ہے کہ،،،، عوام بلک کر۔۔۔ تڑپ کر رہ جاتی ہے۔۔۔

ارے نہیں یقین آتا؟؟؟؟؟؟ تو مطالعہ  کر کے دیکھو تاریخ کا۔۔۔تخت عثمانیہ کس کی۔۔۔اور کس طرح کی سازش سے پلٹا گیا تھا۔۔۔۔؟؟؟؟ ہزاروں سالوں سے تمام مسلم ممالک کا مشترکہ خلیفہ کس کی سازش سے اپنے ہی ملک کے اہم عہدے پر فائز شخص کے ہاتھوں نہ صرف گرفتار ہوا بلکہ پھانسی بھی چڑھایا گیا۔۔۔اور تخت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا۔۔۔

ابھی بھی بات سمجھ نہیں آئی تو مصر کے راجا کی مثال دیکھ لو تاریخ سے۔۔۔کیسے دشمنوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے منتخب کردہ شخص کو حکومت دلوائی اور پھر عوام میں اسےمقبولیت دلوانے کے بعد اسے اپنے مقصد کیلئے استعمال کر کے اپنے مطلب کے فوائد حاصل کئے اور کام کروائے۔۔۔۔نوجوانو۔۔۔جاگو۔۔۔اور دیکھو تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔۔۔۔وقت پلٹ آیا ہے۔۔۔وہی سازش پھر سے روپ بدل کر ہمارے سامنےآ کھڑی ہوئی ہے۔۔۔دشمن کا مقصد واضح ہو چکا ہے۔۔ خود کی، اپنے ملک کی اور سب سے بڑھ کر اپنے نبیؐ کی عزت کی حفاظت کرو۔۔۔۔

میں نہیں مانتی اس اندھے قانون کو۔۔۔

میں نہیں مانتی اس فیصلے کو۔۔۔۔

ارے سوچو۔۔۔! ذرا بات کی نوعیت کو سمجھو۔۔۔!!!

اب جو فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔۔۔ یہ عوام کے اتنے دن احتجاج کے بعد ہی کیوں؟؟؟ پہلے کیوں نہیں؟؟

ارے میں پوچھتی ہوں کہ کیا وہ تمام ججز اور وکیل اندھے اور جاہل تھے جنہوں نے اب سے پہلے آسیہ کو سزا اور پھانسی سنائی تھی؟؟

 کیا انہوں نے یہ فیصلہ بغیر نظر ثانی کے کر دیا تھا۔۔۔؟؟؟؟

چیف صاحب نے کوئی چھوٹا موٹا فیصلہ نہیں لیا۔۔۔۔ بلکہ اچانک سے عمر قید کا بھی نہیں ڈائریکٹ رہائی کا فیصلہ لے لیا۔۔۔

میں پوچھتی ہوں اگر جرم ثابت نہیں ہوا تھا تو چودہ پندرہ سال سے آسیہ کو صرف شک و شبہ کی بناء پر قید میں رکھا گیا تھا؟؟؟؟؟؟ اور پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔۔۔؟؟؟ میں پوچھتی ہوں کہ اگر چیف جسٹس کی اپنی بچی کے متعلق کوئی نازیبا الفاظ استعمال کرے۔۔۔تو کیا چیف صاحب فوراً اسے مارنے کو نہیں دوڑیں گے۔۔؟؟؟ ممکن ہے وہ کسی قانونی کاروائی کا انتظار کیے بغیرخود ہی اسے سزا دے دیں ۔۔۔۔۔یا ہو سکتا ہے بیٹی کی عزت خراب کرنے پر جان سے ہی مار دیں۔۔۔

 تو قارئین کہنا یہ چاہتی ہوں ایک شخص اپنی بیٹی کے لیے اتنا حساس ہو سکتا ہے۔۔۔۔ تو یہاں تو پھر معاملہ پوری امت کے رسول کا ہے جس سے پورا عالم اسلام نہایت محبت کرتا ہے۔۔۔ ان کے خلاف یا ان کی شان کے خلاف کوئی بھی مسلمان ایک لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔

لیکن یاد رکھو۔۔۔ ہم تب تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک گستاخ رسول کو سزا نہ دلوا لیں۔۔۔

مت بھولو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا اگر جا کر غلاف کعبہ بھی پکڑ لے تو تب بھی اس کی معافی نہیں۔۔۔اسکو سزا دینے کا حکم ہے۔۔

گستاخی رسول کا جو بھی ہےمرتکب۔۔۔۔۔

اپنی گردن کٹانا اس پر ہے واجب۔۔۔۔۔۔

ہم آج بھی منتظر ہیں کہ کب نظر ثانی کے بعد نتیجہ سامنے آئے ۔۔۔۔اورہم تب تک منتظر رہیں گے جب تک عدلیہ اسلامی قوانین کے مطابق فیصلہ نہیں دے دیتی۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں