”کسی صورت قبول نہیں“ 

ملعونہ آسیہ دنیا کی عدالت سے بچ نکلی لیکن یہ کہنا کہ آسیہ بے گناہ تھی، اس کا جرم عدالت میں ثابت نہ ہوسکا کسی صورت قابل قبول نہیں۔۔۔یہ کہنا کہ تینوں جج صاحبان دھرنا دینے والوں سے بڑھ کر عاشق ِرسول ہیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔۔ یہ کہنا کہ احتجاج اوردھرنا نہیں دینےچاہیے اس سے ملکی املاک کو نقصان ہوگا کسی صورت قابل قبول نہیں ۔۔۔۔یہ کہنا کہ لوگوں  کو عدالت کا فیصلہ تسلیم کر لینا چاہیے کسی صورت  قابل قبول نہیں۔۔ یہ کہنا کہ فیصلہ  عدالت نے دیا ہے حکومت کا اس میں کیا قصور ؟کسی صورت  قابل  قبول  نہیں ۔۔۔۔ یہ کہنا کہ لوگوں کو پرامن رہنا چاہیے کسی صورت  قابل قبول  نہیں۔۔۔۔یہ کہنا کہ دل کی بستی میں عقل کااستعمال ہونا چاہیے کسی صورت  قابل قبول نہیں۔۔۔یہ کہنا کہ ملعون آسیہ کو راہ فرار دینے والے سچے عاشق رسول ہیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔۔۔یہ کہنا کہ یہ فیصلہ عالمی دباؤ کے تحت نہیں ہوا کسی صورت قابل قبول نہیں۔۔۔یہ کہنا کہ اس فیصلے کے بدلے سودے بازی نہیں ہوئی  کسی صورت قابل قبول نہیں۔۔۔یہ کہنا کہ آسیہ کی رہائی سے توہین رسالت کی راہ ہموار نہیں ہوگی کسی صورت  قابل  قبول  نہیں۔۔۔یہ کہنا کہ یہ فیصلہ غیر  مسلموں کی خوشی کا سامان نہیں  بنا کسی صورت  قبول  نہیں ۔۔۔یہ کہنا کہ لوگوں  کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چائیے کسی صورت قبول نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ  عقل اور عشق کے درمیان مشرق  و مغرب کا بعد ہوتا ہےاور عشق محمدﷺ  میں لوگوں کا جذباتی  ہونا لازم ہے۔ جس ہستی سے محبت دنیا  و آخرت کی فلاح سے مشروط ہو ایسے نازک معاملے میں عوام کے جذبات سے کھیلنا اس طرح کے فیصلے کرتے ہوئے وقت اور حالات کا خیال نہ رکھنا اقلیت  کو اکثریت پر فوقیت دینااور اپنے  ملک میں اغیار کے ایجنڈے پورے کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں ۔۔۔عوام کا شر پسند عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونا ملکی حقیقت ہے لیکن ان حالات میں امن و امان کی تمام صورتحال کا ملبہ عوام پر ڈالنا کسی صورت  قبول نہیں۔۔۔ ریاست مدینہ میں خاتم النبیین رسولﷺ کی اہانت کسی صورت قبول نہیں۔۔۔

 غلامیِ رسول میں موت تو قبول ہے

 مگر مردہ زندگی قبول نہیں۔۔۔۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں