اردو کی غلطیاں کیسے دور کریں ؟

کسی بھی تحریر میں ذکر کیا گیا واقعہ جتنا اہم ہوتا ہے، اتنی ہی اہمیت اس میں استعمال کیے گئے الفاظ کی بھی ہوتی ہے۔ یعنی تحریر کی خوب صورتی الفاظ کے انتخاب اور اس کے بعد صحیح اور برمحل استعمال میں ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ تحریر تو بہت شاندار ہوتی ہے لیکن دو چار الفاظ اس کا مزہ کِرکرا کردیتے ہیں۔ نادانی یا نادانستگی میں ہم الفاظ کو صحیح طور ادا نہیں کر پاتے۔ کبھی مذکر و مؤنث کی چھوٹی سی غلطی تحریر کو پھیکا کردیتی ہے تو کبھی ’’کا، کے، کی، ہے، ہیں اور نون غنہ، ہوتا، ہوتی‘‘ وغیرہ کا غلط استعمال تحریر کو اڑان بھرنے سے روک لیتا ہے۔ اب یہ مسئلہ تو زبان کا ہوتا ہے۔ مادری زبان کا اثر اردو پر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ بولیے یا لکھیے، صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اظہارِ خیال فرمانے والے شخص کی مادری زبان اُردو نہیں، کچھ اور ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے دانشور دیکھے جن کے گرد لوگوں کا ایک ہجوم رہتا ہے۔ ان کی تحریر منٹوں میں سینکڑوں لائیکس اور کمنٹس اکٹھا کرلیتی ہے، لیکن جب تحریر پڑھیں تو وہی زبان کا مسئلہ، مذکر مؤنث کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ کون سا لفظ کہاں اور کیسے لکھنا ہے، معلوم ہی نہیں۔ داد و تحسین کے شور و غوغا میں ایسی غلطیوں کی نشان دہی ممکن نہیں رہتی اور یوں قلم کار اپنی غلطیوں میں بھی پختہ سے پختہ تر ہوتا جاتا ہے۔
البتہ ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ اگرچہ ان کی مادری زبان اُردو نہیں ہوتی لیکن مجال ہے کہ ان کی تحریر و تقریر سے شائبہ تک گزرے۔ اس پیارے انداز سے، اصولوں کو مدنظر رکھ کر لکھا ہوتا ہے کہ خبر ہی نہیں ہوتی کہ کب تحریر ختم ہوگئی۔ معمولی سی بات الفاظ کے بناؤ سنگھار سے یوں سامنے آتی ہے کہ قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ سلاست، خو ب صو رتی، حسنِ الفاظ اور ان کا برمحل استعمال، انداز بیاں اس قدر اچھا کہ قاری پڑھتا چلا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا عمل کیا جائے جس سے ہماری تحریر و تقریر میں غلطیوں کا امکان نہ رہے؟ کیسے اس کمزوری سے چھٹکارا پایا جائے؟ مذکر مؤنث، واحد اور جمع کی پہچان کیسے ہو؟ بے شک اردو بہت ہی وسیع زبان ہے۔ اس خوف سے لکھنا نہ چھوڑنا چاہیے، نہ ہی احساس کمتری میں مبتلا ہونا چاہیے کہ میری تحریر میں غلطیاں ہوتی ہیں، یا پھر میں صاحب زبان نہیں۔
آپ کے ساتھ اگر یہ مسئلہ ہے تو چنداں پریشانی کی بات نہیں۔ لکھنے میں غلطیوں پر ہر ممکن اصلاح کیلیے اہل زبان کچھ طریقے بتاتے ہیں۔ ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے اس طریقے پر عمل کیا جائے تو اپنی غلطیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ الفاظ کا انتخاب، مطالعے کی وسعت سے آسان ہو جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ مطالعہ اور دوران مطالعہ معانی و مفاہیم سمجھنا ضروری ہے۔ اسی طرح الفاظ کے قواعد اور تذکیر و تانیث وغیرہ پر بھی خصوصی دھیان دینا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ مسلسل مشق بھی ضروری ہے۔
اردو لکھتے رہیے اور خود اس کا ناقدانہ جائزہ لیتے رہیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ خامیاں دور ہوتی جائیں گی۔ یاد رکھیے کہ لکھتے رہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر تحریر شائع بھی کی جائے۔ ہاں، جس تحریر کے معیار سے مطمئن ہوجائیں اسے شائع ضرور کیجیے، باقی صرف اپنے جائزے کے لیے اپنے پاس ہی رکھ لیجیے۔ مزید یہ کہ ایک مستند اردو لغت ضرور اپنے پاس رکھیے جس میں ہر اس لفظ کا مطلب ضرور دیکھیے جس پر ذرا بھی شک ہو اور یہ بھی ضرور دیکھیے کہ یہ مذکر ہے یا مؤنث۔ اسی حساب سے کا، کی، کے وغیرہ کا استعمال کیجیے۔ پڑھیے اور مشق کیجیے، لکھیے، پھر کسی سے تصحیح کروا لیجیے۔ جن غلطیوں کی نشاندہی کی جائے انہیں نوٹ کرکے دوبارہ، سہ بارہ کوشش کیجیے۔ یوں غلطیاں نکلتی چلی جائیں گی۔
یہاں ایک مسئلہ اور ہے کہ بعض لوگوں کو اردو کے اصولوں کی خبر نہیں۔ اردو لکھنے کے موٹے پتلے قواعد پر دسترس نہیں، نہ دوران مطالعہ ہی وہ نوٹ کر پاتے ہیں۔ ان کے لیے اور خاص کر ان احباب کے لیے جو چاہتے ہیں کہ ان کی تحریروں میں سے، ان کی زبان میں سے غلطیاں دور ہو جائیں اور اردو پر دسترس حاصل ہو 150 خاص مشورہ ہے: چوتھی جماعت کی ’’کتابِ اردو‘‘ اور ساتھ ہی اس جماعت کے ’’قواعد اردو‘‘ خرید لیجیے اور سبقاً سبقاً پڑھیے۔ مشقیں حل کیجیے اور بالترتیب آگے بڑھتے جائیے۔ پانچویں، چھٹی، ساتویں133 بارہویں جماعت تک۔
آپ کی اردو نہ صرف پختہ ہوگی بلکہ قواعد بھی ازبر ہوجائیں گے۔ مذکر و مؤنث کی غلطیوں سمیت الفاظ کی دیگر غلطیاں بھی اڑان بھر کر غائب ہو جائیں گی۔ اب اگر آپ کو قلتِ وقت کا سامنا ہے یا کم وقتی کا بہانہ یا پھر سستی کے گھوڑے پر سوار ہیں تو اطمینان رکھیے، اردو ٹھیک نہیں ہوگی بلکہ غلطیاں مزید پختہ ہوتی جائیں گی۔
سو آج ہی سے شروع کیجیے، بہتری کی امید کے ساتھ۔ چھوٹی کتابوں کو پڑھنا رائی کا پہاڑ نہ بنائیے بلکہ اپنی تحریر کا لوہا منوانے کے لیے اپنی زبان سیکھیے۔ قوی امید ہے کہ جہاں غلطیوں سے نجات حاصل ہوگی وہیں اردو داں بھی شمار ہونے لگیں گے۔

حصہ
mm
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے عبد الباسط ذوالفقارمختلف سماجی موضوعات پر انتہائی دل سوزی سے لکھتے ہیں،جو براہ راست دل میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔مختلف اخبارات و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں