رحم کیجیے

ایک صاحب کی گاڑی رات میں چوری ہوگئی ۔ وہ بری طرح پریشان ہوگئے ۔ کبھی ادھر اور کبھی ادھر دیکھیں ۔ ہر آتی جاتی گاڑی انھیں اپنی ہی محسوس ہورہی تھی ۔ پوری رات آنکھوں میں کٹ گئی   گاڑی کو ملنا  تھا نہ وہ ملی ۔ صبح گھر سے باہر آئے تو دیکھا کہ گاڑی سامنے کھڑی ہے ۔ نمبر پلیٹ دیکھی تو یقین آیا کہ یہ تو واقعی میری ہے ۔ جلدی جلدی دروازہ کھول کر گاڑی چیک کی تو بالکل صیح سلامت تھی ۔ ہر چیز جگہ پر موجود تھی بس اندر ایک لفافہ پڑا تھا – لفافہ کھولا تو ایک خط نکلا ۔ خط میں لکھا تھا کہ ” بہت معذرت مجھے چور مت سمجھیے گا ۔ رات اچانک میری بیوی کی طبعیت بگڑ گئی تھی  اور راستے میں ایمبولینس بھی خراب ہوگئی ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ۔ اس لئیے مجبوری میں آپ کی گاڑی لے کر بھاگنا پڑا ۔ مجھے معاف کردیں اور تلافی کے لئیے اندر آپ سمیت آپ کی پوری فیملی کے ٹکٹس رکھے ہوئے ہیں ۔قریبی سینما میں جو نئی فلم لگی ہے اس کے ہیں ۔ فلم اور پاپ کارن انجوائے کریں شکریہ۔” رات کو صاحب اپنی پوری فیملی کے ساتھ فلم دیکھنے چلے گئے ۔ سارے راستے ” چور ” کو بھی دعائیں دیتے رہے ۔ پاپ کارن کھائے اور بوتل بھی پی۔ جب گھر واپس آئے تو پورے گھر کا صفایا ہوچکا تھا ۔ہاں ایک چٹھی ضرور پڑی تھی ، اس پر لکھا تھا ” امید ہے فلم پسند آئی ہوگی”۔

آپ یقین کریں اس وقت پوری پاکستانی قوم کا بھی بالکل یہی حال ہے  لیکن ابھی بدھوؤں کو لوٹ کر گھر آنے میں تھوڑا وقت لگے گا ۔ ابھی ساری قوم فی الحال ” فلم ” دیکھنے میں مشغول ہے ۔ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک وہ جو اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارتے ہیں اور دوسرے وہ جو کلہاڑی پر پاؤں مار دیتے ہیں اور بدقسمتی سے ہماری حکومت اور اس حکومت کا کپتان مل جل کر کلہاڑی پر ہی پاؤں مارے جارہے ہیں ۔قدرت کا ایک سادہ سا کلیہ ہے ۔ قدرت ناتجربہ کاری معاف کردیتی ہے لیکن نااہلی کبھی معاف نہیں کرتی۔آپ ایڈیسن کی طرح 1000 دفعہ بھی ناکام ہوجائیں ۔ آپ ابراہم لنکن کی طرح  8 دفعہ الیکشن ہار جائیں اور آپ جیک ما کی طرح 10   دفعہ ہارورڈ کے ٹیسٹ میں فیل ہوجائیں ۔ قدرت آپ کو معاف کردیگی لیکن نااہلی کی معافی کبھی نہیں ہے ۔خان صاحب کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان  کے ساتھ موجود ٹیم صرف ناتجربہ کار ہی نہیں ہے بلکہ نااہل بھی ہے ۔ اور خان صاحب آنکھیں بند کر کے کچے کانوں سے ان پر اندھا بھروسہ کرنے والے عظیم کپتان ہیں ۔ اگر آپ میں صلاحیت کی کمی ہے لیکن عاجزی ہے تو آپ کے صرف بچنے کے ہی نہیں کامیاب ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہیں  لیکن اگر آپ نااہل بھی ہیں اور متکبر بھی تو آپ وقت سے پہلے اپنی تباہی کی دستاویز پر خود اپنے ہاتھ سے مہر ثبت کر رہے ہیں ۔

آپ پچھلے  75 دنوں کا ریکارڈ اٹھا کردیکھ لیں اور الیکشن سے پہلے کے 75 دنوں میں کی جانے والی خان صاحب سمیت پوری تحریک انصاف کے رہنماؤں کی تقاریر سن لیں آپ کو اپنے کان جھوٹے محسوس ہونے لگیں گے ۔ اس وقت حکومت کے اکثر ارکان نے منہ بند کر رکھے ہیں  اور یہ ان کے لئیے اچھا ہے  لیکن جو بولتا ہے اس کو جلد ہی اپنے بولے ہوئے پر معافی مانگنی پڑ جاتی ہے ۔ریلوے کے سینئیر ترین بیوروکریٹ کے استعفی کے بعد پاکپتن کے پولیس آفیسر کی برطرفی  اور اس پر وزیر اعظم کی لاعلمی ، پھر نئے اور قابل آئی جی پنجاب کی برطرفی اور اس پر آپ کے اپنے لگائے ہوئے مشیر ناصر خان درانی کا استعفی ۔ اسرائیلی طیارے کا 10 گھنٹے تک اسلام آباد میں موجود رہنا اور اس پر پوری حکومت کی مجرمانہ خاموشی ۔ پھر وفاقی وزیر کے ایک میسج پر آئی – جی اسلام آباد کی راتوں رات برطرفی اور وزیر داخلہ کی لاعلمی ۔ وزیر داخلہ پورے ملک میں گھوم گھوم کر بلڈوزرز مکانوں اور دکانوں پر چڑھارہے ہیں۔کوئی ان کو سمجھائے کہ صاحب ! نہ تو آپ اجے دیوگن ہیں اور نہ ہی یہاں سنگھم کی شوٹنگ ہورہی ہے ۔ یہ جو اوپر سے لے کر نیچے تک درجنوں ادارے آپ کے ماتحت ہیں ان کو ٹھیک کریں ہیرو نہ بنیں ۔ آپ کا کام بلڈوزر لے کر سڑک پر کھڑا ہونا نہیں ہے ہاں لیکن یہ علم رکھنا ضروری ہے  کہ آئی – جی اسلام آباد راتوں رات ہٹا دیا گیا اور وہ بھی وزیراعظم کے زبانی احکامات پر-

آپ کمال ملاحظہ کریں ۔ وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں ہنستے ہنستے کہہ دیا کہ سوئس بینکوں میں کوئی دو سو ارب ڈالر نہیں ہیں ۔ یہ افواہ ” غلط فہمی ” کا نتیجہ تھی ۔ واہ صاحب، مطلب اسحاق ڈار سے لے کر ایف – بی – آر کے چیئرمین تک سب کو “غلط فہمی” تھی ۔اور اب آپ کے سامنے اس عظیم سچ کا پردہ فاش ہوا ہے جس کی بنیاد پر آپ کی الیکشن کمپین چل رہی تھی ۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہے ۔1 مہینے میں گیس 200 فیصد مہنگی ہوچکی ہے ۔ ایک رات میں پیٹرول 9 روپے اور ڈالر 12 روپے بڑھ گیا ہے ۔ آئی –ایم –ایف نئی شرائط کے ساتھ آپ کو مقروض کرنے آرہا ہے ۔وزیراعظم پوری کابینہ کے ساتھ دوست ملکوں میں ” بھیک” مانگنے جارہے ہیں ۔پہلے 100 دن ، پھر 6 مہینے ، پھر 2 سال اور اب وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ عوام کو 3 سال تک مہنگائی کی چکی میں پسنا ہوگا۔ دل میں کہا ہوگا اور پھر عادت ہوجائیگی اور اس طرح 5 سال پورے۔

آپ نے تبدیلی کی بنیاد غریبوں کے مکانوں کے ملبوں پر رکھ دی ۔ پورا اسلام آباد اکھاڑ کر رکھ دیا گویا زلزلہ آکر گیا  ہے۔ شیخوپورہ کے غریب گونگے کی گنے کی رس کی مشین بھی تبدیلی کی نظر ہوگئ  لیکن سن 2000 میں پنجاب یونیورسٹی میں بطور لیکچررسرکاری نوکری کرنے والے جہانگیر تریں صاحب 10 سے 15 سالوں میں بزنس ٹائیکون بن گئے۔ مئی 2018 کے ڈان کے مرکزی صفحے کی ہیڈلائن کے مطابق سب سے زیادہ آف شور کمپنیاں رکھنے والے سیف اللہ صاحب آپ کے دوست ہیں ۔ دوسرے نمبر پر جہانگیر ترین اور تیسرے نمبر پر علیم خان ہیں لیکن پتہ نہیں لوٹا ہوا پیسہ کس سے لے کر آئینگے آپ؟

آپ چاروں صوبوں کے  وزرائے اعلی کو دیکھ لیں ۔ پیپلز پارٹی کی ساری نااہلی کے باوجود وزیر اعلی سندھ پڑھے لکھے بھی ہیں ۔ گفتگو کا سلیقہ بھی ہے اور کرپشن کے کسی اسکینڈل میں بھی نہیں ہیں ۔ان کی کابینہ کے وزیر تعلیم نے دکھاوے کے ہی لئیے سہی اپنی اکلوتی بیٹی کو سرکاری اسکول میں داخلہ بھی کروادیا ہے۔ لیکن دوسری طرف آپ نے پنجاب پر ظلم کردیا ۔ ایک ان پڑھ شخص کو جو نہ لکھ سکتا ہے اور نہ پڑھ سکتا ہے اس کو سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی لگادیا۔ انٹر پاس شخص کو جس نے کنوارے راشد منہاس کی بیوہ کو بھی خود ہی پیدا کردیا گورنر سندھ لگادیا جو ” ریڈ کارپٹ” پر 25 گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ تھر آکر اور منرل واٹر پی پی کر ” تھر ڈیولپمنٹ اتھارٹی” کی تعریفوں کے پل باندھ کرچلا گیا۔ خیبر پختونخواہ میں لوگوں کو  اب پرویز خٹک ہی بہتر محسوس ہونے لگے ہیں اور دوسری طرف  آپ کبھی ایک قادیانی کو مشیر خزانہ بناکر لوگوں کے ایمان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں ۔ کبھی لوگوں کے دلوں اور جذبات کو چھلنی کردینے والے فیصلے پر ان کو پیار سے سمجھانے ، ہمدردی کے بول بولنے اور زخموں پر مرہم رکھنے، حکومت کی طرف سے نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے اور کیس کو اپنی نگرانی میں ہینڈل کرنے کے بجائے مشرف صاحب کی طرح دھمکیاں لگارہے ہیں ۔ آپ کے وزیر اطلاعات ابھی تک خود کو کسی ڈکٹیٹر کا ترجمان سمجھ رہے ہیں  ۔ادھر آپ کے  36 وزراء و مشیران کی فوج ظفر موج ہے جو منہ بند کر کے ہاتھ باندھے صرف تماشہ دیکھنے میں مصروف عمل ہے ۔

خود کو ذرا ایک زور کی چٹکی لیں  اور یقین کرلیں کہ اب  آپ وزیراعظم ہیں  اور پورے پانچ سال کے لئیے ہیں ۔کسی دو چار چیزوں پر فوکس کریں ، پلان کریں  اور نتیجہ دیں ۔سب سے بڑھ کر خدارا! اپنا موازنہ پچھلی حکومتوں سے کرنا چھوڑ دیں ۔ ان سے تنگ آکر ہی عوام نے آپ کو منتخب کیا ہے ۔یاد  رکھیں خدا بھی ان  پر ہی رحم کرتا ہے جو  دوسروں پر رحم کرتے ہیں اسلئیے برائے مہربانی رحم کیجئیے۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

  1. بہت خوب مگر مسلئہ یہ ہے کہ قوم کو عقل کب آئے گی ہم غلطی پر غلطی کرتے رہتے ہیں ہر دفعہ ایک نیا پائپ پائپر بانسری بجا کر قوم کو ایک نئے گڑھے میں دھکیل کر چلتا بنتا ہے اور قوم پھر بانسری کی آواز میں کان لگا کر بیٹھ جاتی ہے، ستر سال کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا کسی قوم کو سنبھلنے کے لیے لیکن شومئی قسمت یہ قوم نہ آزادی سے پہلے تاریخ سے کچھ سیکھ سکیں نہ آزادی کے بعد

جواب چھوڑ دیں