ڈرامے ایسے بھی بن سکتے ہیں

شکر ہے اللہ تعالیٰ نے عورت کو طلاق کا حق نہیں دیا، ورنہ تم جیسی عورت دن میں دس بار طلاق دیتی ”  عورت کو طلاق کا حق نہ ملنے  پر شور مچانے والوں کو اس ایک مکالمے میں کافی شافی جواب دیا گیا ہے ڈرامہ سیریل “دل موم کا دیا ” میں ۔سائرہ رضا کا تحریر کردہ یہ کھیل اے آر وائی پہ نشر کیا جا رہا ہے ۔”دل موم کا دیا” کہانی ہے ایک ایسی عورت کی جو اپنی ناشکری کی بناء پر اپنے ساتھ کئی لوگوں کی زندگی کو متاثر کر ڈالتی ہے، اس کھیل میں  الفت کا مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ نیلم منیر کے مطابق یہ کہانی فیصل آباد کی رہائشی کسی خاتون کی حقیقی داستان ہے جسے ڈرامے کی شکل دی گئی ہے، آج جب کہ ہر چینل سے نشر ہونے والے ڈراموں میں سے ننانوے فیصد کا مرکزی خیال  مرد کا ظلم عورت کی مظلومیت ہوتا ہے اور روتی دھوتی “معاشرتی اور اخلاقی اقدار” میں پستی اور شرعی قوانین سے ” مجروح ” ہوتی خواتین کے گرد ہر کھیل گھومتا ہے، اور جب تقریباً ہر ڈرامے میں کوئی نہ کوئی ایسا مکالمہ شامل کیا جاتا ہے جس سے ہمارے معاشرے میں عورت کی حیثیت مشکوک بنائی جائے اور اس کے لیئے اتارے گئے شرعی قوانین کے خلاف ناظرین کے دل میں غیر محسوس طور پر ابہام پیدا کیا جائے،  ایسے میں ایک ایسے ڈرامے کا پیش کیا جانا جس میں مرد کی شرافت اور مظلومیت بھی دکھائی گئی ہو اور انتہائی غیر محسوس انداز میں اسلامی قوانین کے حق میں بھی بات کی گئی ہو، یقیناً ایک خوش آئند عمل ہے، اس ڈرامے کی ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ اس کو خوامخواہ  گلیمرائز نہیں کیا گیا اور نہ ہی  (اب تک) مرد  اور عورت کے غیر اخلاقی تعلقات دکھائے گئے ہیں جو کہ اب ہر دوسرے ڈرامے کا فارمولا ہے ۔ خواتین کے لباس کا انتخاب بھی باقی ڈراموں کے مقابلے میں  مناسب کیا گیا ہے ، خاص کہانی،  عام فہم مگر معیاری جملے اور بہترین ہدایت کاری نے   اس ڈرامے کو مقبولیت بخشنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے، ڈرامہ پکار کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے راقم کا اشارہ اسی جانب تھا کہ  بیس اقساط پہ مشتمل ڈرامے میں ایک دو مکالمے غیر محسوس انداز میں ناظر کے ذہن میں بہت سے سوالات اور ابہام پیدا کر دینے کے لیئے کافی ہو جاتے ہیں ، کیا خوب ہو کہ اسی تیر کو ہم اسلامی اصول و قوانین کے دفاع کے لیئے بالکل اسی انداز میں بیان کریں ، سائرہ رضا نے پوری صورتحال اور الفت کے کرادر کو کھول کے پیش کرنے کے بعد یہی کام نہایت خوبصورتی سے الفت کی ماں کے  صرف ایک مکالمے کے ذریعے سرانجام دیا ہے۔ امید ہے کہ مصنفین ،ہدایتکار اور پیش کار اس پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشرے کی ترقی و بہبود میں اپنا کردار ادا کریں گے، اس ڈرامے کو ملنے والی مقبولیت ان میڈیا مالکان  کے لیئے ایک مثال ہے جن کا ماننا ہے کہ گلیمر اور چٹپٹی کہانی کے بغیر ناظرین انکی پیش کردہ چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ ضرورت اس بات کی ہے  کہ انڈسٹری میں موجود ہر فرد معاشرے کی اصلاح اور اس کا رخ درست رکھنے کو اپنی ذمہ داری سمجھے ، ” دل موم کا دیا ” جیسے گھریلو اور معاشرتی موضوعات  پہ مثبت انداز میں لکھے گئے ڈرامےاور ٹیلی فلمز  وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں