جمہوریت کا جنازہ اور سنسر شپ 

نئی صدی نیا دور ،نئی حکومت نیا پاکستان مگر کردار وہی پرانا ،راگ وہی جس کی امید شاید ہر ایک کو تھی کیونکہ جس جماعت نے کبھی کونسلر کے الیکشن تک نہ جیتے تھے اس کو اچانک پورے پاکستان کی قیادت مل جانا اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کس نے اور کس طرح مدد کی ہوگی خیر یہ تو اس ملک میں عام سی بات ہے مگر جب بات آتی ہے ضیاء الحق کی تو ناقدین اَن گنت ہوجاتے ہیں خواہ وہ وہی لوگ کیوں نہ ہوں جو مرحوم کے کندھے پر بیٹھ کرسیاست میں آئے اوروفاداری کی ایسی قسمیں کھائیں کہ” الا مان الحفیظ”سوشل میڈیا کا دور ہے اوریہ تمام ویڈیوز آج بھی یو ٹیوب پر آپ کی دسترس میں آجائیں گی۔70سے لیکر90کی دہائی میں جب کبھی سنسر شپ ہوا کرتی تھی تو اخبارات میں اتنا حصہ اس خبر کے حساب سے خالی چھوڑ دیا جاتا تھا جس سے لوگوں کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ کیاسرگرمیاں ایک ملکی مفاد میں کی گئیں ہوں گی۔جوں جوں حکومتیں بدلی زاویے بدلے طریقے بدلے مگر نئے پاکستان نے تو صحافی برادری سے کھانے کا نوالہ تک چھین لیا ہے کوئی آواز اٹھائے تو “اٹھائے”جانے کا ڈر اور خاموش رہے تو بھوکا مر جائے ۔
سوال یہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک خداداد میں صرف کچھ وردی والے ہی آزاد ہیں؟ سنسرشپ کی نوعیت کیا ہے۔ پاکستان میں صحافت کی تاریخ کوئی خاص اچھی نہیں۔ فوجی آمروں کے علاوہ سویلین حکومتوں کے ادوار میں بھی سنسرشپ رہی ہے۔ پھر یہ سنسرشپ کس طرح مختلف ہے؟ بظاہر آپ کو نظر آئے گا کہ میڈیا آزاد ہے کیونکہ ملک میں 100 سے زیادہ ٹی وی چینل ہیں، لگ بھگ 200 ریڈیو چینل ہیں، سیکڑوں اخبارات ہیں۔ ہر قسم کی بولی اور ہر طرح کی رائے سنائی دیتی ہے۔ لیکن وہ عمومی رائے ہوتی ہے۔ اگر آپ حقائق کے ساتھ بات کریں اور نتائج اخذ کریں تو وہ قابل قبول نہیں۔آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہوگی یا ہوئی ہے۔ لیکن جب آپ یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ دھاندلی کہاں ہوئی، کس طریقے سے ہوئی، کیسے ووٹرز کو روکا گیا، نتائج میں کیوں تاخیر ہوئی تو یہ کوئی نہیں چھاپے گا۔ اگر چھاپے گا تو اس کا اخبار آگے پیچھے ہوجائے گا۔
مالکان پر بہت دباؤ ہوتاہے ،وہ ہاتھ جوڑ کر کہتے ہیں کہ براہ مہربانی تنقیدی کالم نہ لکھیں، کچھ خاص الفاظ نہ لکھیں، پروگرام میں کچھ خاص جملے نہ بولیں۔ معروف صحافی کے بقول ایک سال پہلے تک میرا پروگرام براہ راست نشر ہوتا تھا۔ پھر کبھی کبھار لائیو ہونے لگا۔ چھ ماہ ہوگئے ہیں، اسے ریکارڈ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ اگر کبھی لائیو کرنا پڑجائے تو اس کی اجازت نہیں دی جاتی کہ نہ جانے کون کیا بات کہہ دے۔ آپ خود کچھ نہ کہیں، کوئی مہمان کچھ الٹا سیدھا نہ کہہ جائے، وہ بھی آپ کے ذمے ہے۔
دنیا بھرمیں صحافیوں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کیونکہ عوام صحافی کی تحقیق سے سچ جاننا چاہتے ہیں عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صحافی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور دْھوکے بازی سے عام شہریوں کو آگاہ کرنے اور عوامی مسائل اْجاگر کرنے میں اپنا کرِدار ادا کرتا ہے۔عام شہری صحافیوں کے قلم سے لکھی ہوئی اور زبان سے نکلی ہوئی بات کو کافی حدتک اہمیت دیتا ہے لیکن یہ باتشاید کچھ اداروں کو بالکل پسند نہیں اگر آپ تعریفوں کے پل تعمیر کرنا جانتے ہیں اور اس خوبی کے حامل ہیں تو بس آپ کی عیاشی ہے کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں آپ اس فہرست میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
جمہوریت کے کچھ ٹھیکیداروں نے صحافیوں پر پابندی لگانے کا آسان حل یہ تلاش کیا کہ اشتہارات بند کردئیے گئے بس اس اعلان کا ہونا تھا اور چینل مالکان ہوں یا اخباری سب اپنے ملازمین کو نوکری سے ایسے فارغ کرنے لگے جیسے یہ اپنے اداروں پر بوجھ ہوں ۔سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور اِن کے کندھے پر ہاتھ رکھنے والے جب کہاں تھے جب الیکشن کے دنوں میں قوم کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا تھا اشتہاری مہم جوئی کی جارہی تھی گھنٹوں میڈیا پر اپنی جیت کے دعوے اور مختلف اخبارات کو اشتہارات کی ریل پیل میں مبتلا رکھا جارہا تھا ایک خاص گروپ کی حمایت حاصل کی جارہی تھی جبکہ اس کے بالکل برعکس دوسرے کو ٹھینگا دکھا کرراہِ فرار اختیار کرگئے تھے ؟
کہنے والے کہتے ہیں کہ صحافی اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہیں جس کا میں سب سے بڑا معترف ہوں ۔مگر ایک سوال ان صاحب عقل لوگوں سے، کس کے کہنے پر اور کس کی ایما پر صحافیوں کو سرعام قتل کردیا جاتا ہے؟ کیوں کسی ادارے کے خلاف بات کرنے پر پروگرام کو بند کردیا جاتا ہے ؟ اس کاسیدھا جواب حکومت کی جانب سے آتا ہے کہ ملکی مفاد میں نہیں تھا ملکی مفاد میں کیا منظور پشین ،باچا خان کے حواری ،محمود خان اچکزئی اور اس طرح کئی مزید نام آتے ہیں جس کا ذکر آنے والے ادوار میں جاری رہے گا،کیا یہ نام جو غدار وطن ہیں اور اگر ہیں توکیوں کسی میں اتنی جرات و جسارت نہیں کہ ان کو گرفتار کر کے عقوبت خانوں کا راستہ دکھایا جائے تو صداآتی ہے کہ ملک میں فسادات پھوٹ پڑیں گے۔ان فسادات کو روکنا کس کا کام ہے ؟۔
دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی صحافت کی آزادی اور احساسِ ذمہ داری کو قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ سے ہی صحافتی اخلاقیات پر زور دیا جاتا رہا ہے۔بانیِ پاکستان اور عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح نے صحافتی اہمیت کو اْجاگر کرتے ہوئے ایک مقام پر فرمایا کہ “صحافت کو کاروبار نہیں بلکہ قومی خدمت کا موثر وسیلہ سمجھا جائے، یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جسے عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں عدل و انصاف کے لیے استعمال ہونا چاہیے”۔
جب تک حکومتی ادارے صحافیوں کو سوال جواب کا حق نہیں دیں گے ان پر بیجا مظالم کے پہاڑ توڑے جائیں گے تب تک سوال اپنی جگہ ذہنوں میں پلتے رہیں گے لہذا اس حساس موضوع کی طرف پلٹا جائے اور کسی ایسے پڑھے لکھے وزیر کو منتخب کیا جائے جو ڈراموں اور فلموں سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں قدم رکھے اور اس شخص کو علم ہو کہ پاکستان کا امیج دنیا میں کیا ہے ۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں