سوشل میڈیا کا جادو

میڈیاریاست کاچوتھا اوراہم ستون ہے  جومعاشرے کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ذہن سازی میں بھی اہم کردارادا کرتا ہے۔ میڈیا کے۔تین ستون الیکٹرانک  ،پرنٹ اور سوشل میڈیا ہیں ۔ جن میں سوشل میڈیا  آج کےدور میں سب سے زیادہ طاقتور ورژن ہے ۔ قومی  مسائل ہوں یابین الاقوامی مسائل ، سیاسی جماعتوں کے درمیان لفظی جنگ ہو ، یہ  سب کچھ چند۔سیکنڈ کی دوری پرہیں۔میرے خیال کےمطابق نیوکلیئر وار۔کےبعد دوسری بڑی وار سوشل میڈیا وار ہے۔ جس  کی۔بہترین مثال نبی ﷺکے گستاخانہ خاکوں کے جواب میں مسلمانوں کا یہودیوں کی دکھتی رگ ہولوکاسٹ کوبطور hashtag# کا استعمال۔تھا۔جس کے بعد یہودی اپنے ناکام عزائم سے باز رہے۔
سوشل میڈیا کےارتقا سے  پہلےمعاشرےکے بہت سے پہلو ہم سے چھپے رہتے تھے
بہت سے جرائم ، حادثات ،ناانصافیاں، طاقت کابےجااور غلط استعمال،  دوراور پسماندہ علاقوں میں ہونے والےظلم غرض ایسےبہت سے اور مسائل ہماری نظروں سے اوجھل رہتے۔تھے ۔
پھر 4فروری 2004 میں ایک aap فیسبک facebook متعارف کروائی گئی جس کے ذریعےآپ ناصرف اپنوں سے بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے لوگوں سے بات چیت اور حلقہ احباب کو باآسانی وسیع کرسکتےہیں ۔آپکی سوچ ، نظریات ، تصاویرچند سکینڈزمیں ہزاروں لوگوں تک باآسانی پہنچ جاتےہیں ۔سوشل میڈیا کادائرہ وقت کے ساتھ ساتھ ،instgram،twitter,linkdin اور اس جیسی بہت سی applications متعارف کروائی اور کی جارہی ہیں ۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ان۔applcations کا استعمال کیاجارہا ہے ۔
اگرچہ بہت سی سوشل ایپلیکیشنز متعارف کروئی گئی ہیں مگر ۔facebook کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے ۔ اس۔app کے ذریعے ہم نہ صرف اپنی سوچ وافکار کو پوری دنیاکےسامنےپیش کرتےہیں بلکہ اپنےاردگرد ہونےوالےحالات و واقعات کےساتھ ساتھ  باصلاحیت لوگوں کی قابلیت کو بھی پوری دنیاکےسامنے لاسکتےہیں جن کوکوئی  بہترین پلیٹ فارم مہیانہ ہواہو ۔ چاہے آپ کی خوب صورت آواز ہو ،آپ میں ایکٹنگ کی صلاحیت ہو خواہ کوئی بھی قابلیت ہو   باآسانی پوری دنیا تک پہنچاسکتے ہیں ۔ اس کی بہترین مثال ”ارشد خان چاۓ والا  جس کی صرف ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اورپھر  مختلف الیکٹرانک میڈیاکے مختلف پروگرامز میں مہمان کی  سیٹ پرنظر آنےلگا اور یوں دیکھتے دیکھتے ہوٹل پر چاۓبنانےوالا  سپر اسٹار بن گیا  ۔ ابھی ارشد خان کا کریز ختم نہیں ہواتھا۔کہ ایک اور رنگسازنے اپنی سریلی آواز کی وجہ سے لاکھوں دلوں کواپنی طرف متوجہ کرلیااوریوں اسےایک نامور گلوکارا کے ساتھ گانے کا موقع مل گیا پھر ایک اور سپر اسٹارپاکستان انڈسٹری کاحصہ بن گیا ۔ بات یہاں تک ہوتی تو ٹھیک تھا مگرکچھ دن پہلےایک ویڈیوfacebook پر وائرل ہوئی جس میں ایک چھوٹا  بچہ اپنی ٹیچر سے غصے سے بات کرتا ہوادکھائی دیا جوکہ اپنی خوبصورتی اور مخصوص پشتو لہجے کی  وجہ سے ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کرتا نظر آیا حیرت اس وقت ہوئی جب ایک نجی چینل پر مہمان خصوصی کی سیٹ پر براجمان دکھائی دیا اور پروگرام کی میزبان اس۔بچے سے غصے اور بدتمیزی کو کیوٹنس کانام دےکر گھر بیٹھیں خواتین کی صبح خوشگوار کرتی نظرآئیں اور بچہ اپنی بدتمیزی پر دادوصول کرتےہوۓمزید جوہر دکھانے لگا ۔ جہاں سب لوگ اس بچے کی بدتمیزی پر خوش ہوکر پرجوش انداز میں تالیاں بجا بجاکے داد دے رہے تھے وہیں میں یہ سوچ رہی تھی کہ نا ہی اس بچے میں کوئی ٹیلینٹ ہے نہ ہی ایساکوئی  کارنامہ سرانجام دیا ہے پھر بھی ؟ کاہے کی اتنی داد؟مانا کہ چینل اور پروگرام کی ریٹنگ کی دوڑمیں ہمارے مارننگ شوز ویسے ہی حدود پار کرچکے ہیں  لیکن اس تمام آگےنکلنےکوششوں میں اس معصوم بچے کاکیا قصور؟ بچے کا مستقبل کیا ہے ؟اس کی اخلاقی تربیت کیاہے؟ باقی تمام بچے اس سے کیا اثرلیں گے؟؟ یہ تمام باتیں ہمیں ، معاشرے اور خصوصاً بچے کے والدین کے لیے سوچنے کی ہیں ۔

ایک طرف سوشل میڈیا اپنا اہم کردار ادا کر رہاہے تودوسری طرف اس کا ایک برا اثر بھی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں