اک امتحاں ہے زندگی

آٹزم ایک ایسی بیماری ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس مرض سے متاثرہ فرد اپنی ذات میں گم رہتا ہے، حقیقی دنیا سے کٹ جاتا ہے اور خیالات کی دنیا میں کھویا رہتا ہے۔ اس کے شکار بچوں کو چیزوں کو سمجھنے اور انہیں بیان کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔یہ معذوری عمر کے ابتدائی سالوں میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ دماغ کی کیمسٹری میں کچھ خرابی یا ردوبدل اس کی وجہ گردانی جاتی ہے جس کا اثر دماغ کے ان حصّوں پر پڑتا ہے جو رابطے کی صلاحیت اور سماجی تعلقات کے لیے مخصوص ہیں۔ تاہم بعض طبی محققین اسے مرض تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے خود تسکینی کی کیفیت باور کراتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’خود تسکینی کی کیفیت دراصل کوئی مرض نہیں ہے۔ یہ ایک نفسیاتی خرابیوں کا مجموعہ ہے جس میں بچہ اپنے آپ میں گم رہتا ہے اور توجہ مرکوز نہیں کرپاتا۔ اس کی حرکات و سکنات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی‘ان کا کہنا ہے کہ آٹزم پر بہت بار بات چیت کی جاتی ہے مگر اسے کم ہی سمجھا گیا ہے کہ حقیقت میں آٹزم یا خود تسکینی کی کیفیت کسے کہا جاتا ہے؟اِس نفسیاتی خرابی میں مبتلا بچوں کو عموماً اُن کے رویے کی وجہ سے شرارتی، الگ تھلگ رہنے والا، بدمزاج اور خاموش سمجھنے کی غلطی کی جاتی ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ مشہور سائنسدان نیوٹن ،آئن اسٹائن، موسیقار موزرٹ کوبھی آٹزم تھا۔
امریکن سا ئکائٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق مندرجہ ذیل علامات اگر بچے کی عمر کے پہلے تین سالوں میں ظاہر ہوں تو کہا جاتا ہے کہ اسے آٹزم ہے۔
آپس میں تعلقات یعنی سماجی میل جول میں واضح طور پر عام بچوں سے پیچھے ہونا۔
رابطے کی مہارت میں واضح طور پر اپنے ہم عمر بچوں سے کم ہونا۔
ماحول میں دلچسپی نہ لینا اور اردگر کی چیزوں پر توجہ نہ دینا ۔
گزشتہ دنوں ہم نے آٹزم کا شکار18سالہ عمر کے والد سے ملاقات کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اس مرض میں مبتلا افراد کے معمولات اور اس سے جڑے افراد کس طرح مریض کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔عمرکے والد گزشتہ 28سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں،وہ ایک ادیب،شاعر اور کالم نگار ہیں۔ہم جب ان کی رہائش گاہ پہنچے تو انہوں نے انتہائی پرتپاک انداز میں ہمارا خیر مقدم کیااور ساتھ ہی تواضع کا سامان بھی سامنے رکھ دیا۔اپنے فرزند کی بیماری کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہ گویا ہوئے:
میرے چار بچے ہیں،عمر میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اس وقت اس کی عمر 18برس ہے ۔ہمیں عمر کی بیماری کا ابتدائی چار پانچ سال میں بالکل اندازہ نہیں ہو سکا،نہ ہی اس وقت آٹزم جیسی بیماری کا کسی اخبار یاٹی وی میں ذکر ہوتا تھا،یہی سبب ہے کہ اس کے مرض کی تشخیص میں کافی وقت لگا،یہ کارٹون بہت دیکھتا تھا ،کارٹون کی زبان انگریزی تھی تو جب اس نے بولنا شروع کیا تو یہ بھی کارٹون میں سنے ہوئے بامعنی جملے کہتا،ایک دن ہمیں کہیں جانا تھا ہم جب ٹیکسی لینے نکلے تو دور سے ٹیکسی والے کو دیکھ کر یہ کہنے لگا Taxi Wait for me۔ابتداء میں ہم نے انہیں معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر واسع کو دکھایا۔پھر معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ہارون کے پاس گئے،انہوں نے دو ڈھائی سو سوالات پوچھے اور مرض کی تشخیص کرتے ہوئے بتایا کہ اسے بیک وقت آٹزمADHD(Attention Deficit Hyperactivity Disorder)اورHyperactivity Disorderہے۔انہوں نے ادویات دیئے اور علاج شروع کیا۔اسی عرصے میں کچھ لوگوں نے ہمیں روحانی علاج کا مشورہ دیا،ہم روحانی معالج کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں چالیس دن کا کورس بتایا اور ان کی شرط یہ تھی کہ ایک دن بھی ناغہ کیے بغیر ان کے پاس جانا ہے ،یہ یک مشکل مرحلہ تھا کہ کیوں کہ عامل صاحب ہمارے گھر سے کافی دور ایک ایسے مقام پر تھے جہاں بس نہیں جاتی اور ٹیکسی والے بھی کم ہی جاتے تھے مگر ہم نے اللہ کا نام لے کر وہاں جانا شروع کیا،مگر وہاں جانا بھی ہمارے لیے سود مند ثابت نہیں ہوا ،ان کے پاس جانے کا اس کے سوااور کوئی نتیجہ نہیں نکلا کہ عمر نے بھی ان کی طرح نقش بنانا اور بوتلوں میں پھونکنا سیکھ لیا۔ان عامل صاحب کو جب پتا چلا کہ میں ایک صحافی ہوں تو انہوں نے معاوضہ لینے سے انکار کردیا ،ان کے عمل سے اعشاریہ ایک فیصد بھی مرض میں بہتری نہیں آئی۔پھر ایک صاحب نے ہمیں مشورہ دیا کہ سورہ ملک اور سورہ واقعہ 23-23مرتبہ پڑھ کر پھونکا جائے ،ہم نے ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے یہ بھی کیا۔ پہلے دن تلاوت میں پونے دو گھنٹے لگے،پھر اس عمل کو ہم نے معمول بنالیاکہ عشاء کی نماز کے بعد ان سورتوں کی تلاوت کے بعد دم کرتا،ڈھائی پونے تین ماہ ہم نے یہ عمل کیا مگر اس کا بھی اثر نہیں ہوا۔ایک اور صاحب نے ہمیں چند دعائیں بتائیں کہ یہ پڑھ کر کان میں پھونکیں مگر اس کا بھی نتیجہ نہیں نکلا۔اس مرض کے حوالے سے کوئی اسکول بھی نہیں تھا جہاں ہم اسے داخل کراتے ،ایک مرتبہ ہمیں پتا چلا کہ ہل پارک کے قریب ماں عائشہؓ اسکول ہے وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اسکول بن رہا ہے مگر پک اینڈ ڈراپ نہیں ہے،یہ سہولت ہمارے پاس بھی نہیں تھی سو ہم نے گاڑی خریدنے کا فیصلہ کیا ساتھ ایک ڈرائیور بھی رکھا۔عمر پہلی مرتبہ اسکول گیا۔وہاں اسکول والوں کو عمر کی صحیح کیفیت کا اندازہ نہیں تھا ایک دن وہ اسکول سے باہر نکل گیا اور یہ ہوا کہ وہاں کے استاد کا اسکول انتظامیہ سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا اور وہ اسکول چھوڑ کر چلے گئے اس طرح یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔پھر ہم ایک حکیم صاحب کے پاس گئے انہوں نے بتایا کہ اس بچے کے دماغ کا ایک حصہ کام نہیں کر رہا جب یہ سوجائے تو اس کے سر پر جَو کے آٹے کی گرم روٹی لیپ کریں یہ ایک ایسا عمل تھا جس کو عمرکے نیند کی کچی کیفیت کی وجہ سے بروئے کار لانا ممکن نہ تھا سو ہم ایسا نہیں کر سکے۔
ایک اور صاحب نے ہمیں یہ مشورہ دیا کہ کل سورج گرہن ہے اور جب تک سورج گرہن رہے آپ ساحل پر لے جاکر دھڑ تک اسے ریت میں دبادیں،اس کی شعاعوں سے علاج ممکن ہے،یہ ایک مضحکہ خیر عمل محسوس ہوا مگر اپنے بیٹے کی محبت نے ہمیں اس پر بھی مجبور کردیا اور ہم نے ان کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیامگر پھر بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پھر ہم نے کئی ہومیو پیتھک ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ڈاکٹر سیفی نے کیفیت دیکھی اور دوائیں دیں جس سے الحمد للہ تیس چالیس دن کے لیے طبعیت میں بہتری آئی۔اسی عرصے میں ہمیں معلوم ہوا کہ نارتھ ناظم آباد میں ایک اسکول کھلا ہے،ہم وہاں گئے،ان کی فیس زیادہ تھی مگر اس کے باوجود ہم نے اسے وہاں داخل کرا دیا۔عمر وہاں ساڑھے تین سال تک پڑھتا رہا،مگر اس عرصے میں اس نے نہ کچھ سیکھا اور نہ ہی اس کی سیمابی طبعیت میں کچھ بہتری آئی۔
عمر کو نہانے کی بہت عادت تھی۔ایک ایک دن میں کبھی 15اور کبھی20مرتبہ نہاتا اور نہاکر پورے گھر میں گھومتا یہ آب دست بھی خود سے نہیں کر سکتا۔پھر رفتہ رفتہ یہ سونے کی عادت کو بدلتا چلا گیا جب یہ اسکول جاتا اس وقت ساڑھے دس گیارہ بجے سوجاتا تھا میں جب فجر پڑھ کر آتا تھا تو یہ جاگ رہا ہوتا تھا۔
عمر کی اس کیفیت کی وجہ سے میری نیند بری طرح متاثر ہوئی،گزشتہ 10-12سال میں بمشکل دس بارہ دن ایسے ہوں گے کہ میں نے پوری نیند لی ہوگی۔
اس کے بڑے ہونے سے یہ مشکل پیش آئی کہ اس کے اندر تشدد کا عنصر بڑھ رہا ہے۔گھر کا کوئی فرد بھی اس کے تشدد کا نشانہ بن سکتا ہے۔ایک مرتبہ اس نے میری پیشانی پر ہنگر ماردیا جس سے میرے ماتھے پر ٹانکے بھی آئے۔یہ گھر کی سیکڑوں چیزیں توڑ چکا ہے،پچاسوں مرتبہ ٹیلی فون سیٹ ٹوٹ چکا ہے،تکیہ ہاتھ میں لے کر چلتے ہوئے پنکھے پر پھینک دیتا ہے۔پانی میں مٹی یا مرچ ڈال دے گا۔پردہ اس زور سے کھینچے گا کہ پوری ریلنگ ٹوٹ جاتی ہے،کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ عصر کی نماز سے قبل میں نے ریلنگ دوبارہ لگائی اور عصرکی نماز کے بعدپہلی والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔یہ صورتحال جب ناقابل برداشت ہوئی تو ہم نے پھر ڈاکٹر سے رجوع کیا،ڈاکٹر نے دوا دی ،مگر مشکل یہ ہے کہ یہ دوا کی مقدار کو ایک خاص حد تک قبول کرتا ہے پھر دوا بے اثر ہوجاتی ہے،پھر دوا بڑھانی پڑتی ہے۔اس صورتحال کا اثر میرے بچوں پر پڑا ہے،پورے گھر والوں کی نیند متاثر ہے کئی مرتبہ میری بچیوں نے یونیورسٹی میں امتحان اس حال میں دیا ہے کہ رات میں انہوں نے صرف ایک گھنٹے کی نیند لی ہے۔مجھے اب اگر کام کرنا ہے تو اسی صورتحال میں کرنا ہے،لکھنا ہے تو اسی صورتحال میں اور پڑھنا اورسوچناہے تو اسی صورتحال میں۔
یہ محض اللہ رب العزت کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہم سب گھر والوں کے دل میں اس کی محبت دی ہے،کئی لوگ کہتے ہیں کہ کہیں چھوڑ آئیں مگرمجھ سمیت گھر کا کوئی ایک فرد بھی کہیں چھوڑنا تو دور کی بات ہے پانچ منٹ کے لیے بھی عمر کو خود سے دوررکھنا برداشت نہیں کر سکتا،ہمارے خاندان میں عمر کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی ممکن نہیں۔
’’اف !ان کے لیے زندگی کس قدر مشکل ہوگئی ہے؟‘‘یہ سب سننے کے بعد میں اپنے اندر آپ ہی آپ بڑبڑیااور چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ سجاتے ہوئے سوال کیا کہ:کبھی جھنجھلاہٹ تو ہوتی ہوگی؟
کمال درجے کے سکون اور اطمنان کے ساتھ کہنے لگے:
’’نہیں !کبھی نہیں۔۔۔میں نے اسے تقدیرِ ی امراوراللہ رب العزت کا فیصلہ سمجھتے ہوئے قبول کر لیاہے۔مجھ پر اگر یہ خدا کی طرف سے ہے تو مجھے قبول ہے‘‘۔تسلیم و رضا میں ڈوبے ان کے ان فقروں پر شاید مجھے یقین نہ آیا اور یقین نہ آنے کی ٹھوس وجہ بھی تھی وہ یہ کہ ہم جو اپنے گھروں میں دھماچوکڑی مچاتے معصوم بچوں کی شرارت کو قبول نہیں کرپاتے ،پہلے اپنا لہجہ درشت کرتے ہیں پھر اپنے سکون کے لیے انہیں خاموش کرادیتے ہیں اور ایک یہ ہیں جو یہ سب کچھ نہیں ،اس سے سوگنا زیادہ گزشتہ18برسوں سے برداشت کر رہے ہیں۔مجھے یقین نہیں آیااور اسی بے یقینی کی کیفیت میں پوچھا کہ:آپ یہ سب کچھ روایتاً کہہ رہے ہیں یا فی الحقیقت ایسا ہی ہے؟۔سچ بتائیے کیا کبھی اللہ سے شکایت ہوئی؟۔کہنے لگے:’’ نہیں ،ایسا ہوتا ہے کہ کبھی کچھ مسائل کا حل نکل آتا ہے ہم نے حل کے لیے تمام آپشن استعمال کیے نتیجہ نہیں نکلا،اللہ سے پہلے دن سے کوئی شکایت نہیں۔ہاں پر اتنا ضرور ہے کہ میں جو پڑھنا چاہتا تھا پڑھ نہیں سکا،جو لکھنا اور سوچنا چاہتا تھاوہ نہیں کرسکتا‘‘۔ان کے لہجے میں تاسف کہ جھلک نمایاں تھی۔کہنے لگے کہ ایک سال ایسا آیا کہ جس میں مجھے لگا کہ نروس بریک ڈاؤن ہوجائے گاتب میں نے ایک سال تک کچھ نہ پڑھنے ،لکھنے اور سوچنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے میری ذہنی و نفسیاتی حالت بہتر ہوگئی۔
میں جب جانے کے لیے اٹھا تو عمرکے والد نے عمر کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے کہا:عمر دیکھو یہ انکل تم سے ملنے آئیں ہیں ان سے ہاتھ ملاؤ،عمر نے ہاتھ بڑھایاتو میں نے عمر سے ہاتھ ملایااور گھر سے نکل آیا۔ عمر کے والد مجھے چھوڑنے باہر تک آئے۔میں نے بائیک اسٹارٹ کی ۔گھر کے لیے روانہ ہوا۔راستے بھر بچپن میں سنے کسی گانے کے یہ بول گونجتے رہے:
دنیا میں کتنا غم ہے
میرا غم کتنا کم ہے
۔۔۔

حصہ

1 تبصرہ

Leave a Reply to حبیب الرحمن