جمال خاشقجی کاقتل ، سعودی عرب اورقیاس آرائیاں

جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد قتل کا معمہ ذرائع ابلاغ میں دلچسپی کا موضو ع بنا ہوا ہے ۔جمال خاشقجی کو مغربی میڈیا ہیرو اور لیجنڈ کے طور پر پیش کررہا ہے ۔مغربی میڈیا کا پے درپے جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے کو اٹھانا کسی بڑی پیش قدمی کی طرف اشارہ ہے۔میں نے مسلسل آٹھ دن سے اس موضوع پر ریسرچ کی ہے تاکہ نتیجہ خیز بامعنی تحریر رقم کرسکوں ۔میں اس معاملے میں خبر،قیاس ،خیال ،امکان کی آمیزش نہیں کرنا چاہتا بلکہ انتہائی معتدل اورغیر جانبدارانہ تجزیا پیش کرنا چاہتا ہوں۔سب سے پہلے جمال خاشقجی کون ہے؟ جمال خاشقجی 1958میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوا ،امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی ،1980کی دہائی میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا ،سویت یونین ،افغانستان ،طالبان کے انٹرویوز کیے اورخلیجی ریاستوں میں اتار چڑھاؤ ،عراق کویت جنگ کی کوریج کی ۔1999میں وہ انگریزی اخبار عرب نیوز کے نائب مدیربن گئے ۔2003میں وہ الوطن اخبار کے مدیر بنے ۔ادارت سنبھالتے ہی انہیں متنازع کہانیاں اورخبریں نشر کرنے پر عرب معاشرے میں تنقید کا سامنارہا بل�آخر انہیں سعودی عرب سے نکال دیا گیا ۔2007میں وہ دوبارہ وطن لوٹے مگرمنفی رپورٹنگ نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا حتی کہ انہوں نے اخبار ہی چھوڑ دیا ۔2011میں بننے والی عرب اسپرنگ تحریک میں انہوں نے اسلام پسندوں کو سپورٹ کیا جنہوں نے کئی ممالک میں اقتدار حاصل کیا ۔2012میں دوبارہ قسمت ان پر مہربان ہوئی اورانہیں سعودی عرب کی پشت پناہی میں چلنے والے العرب نیوز چینل کی سربراہی کے لیے نامزد کیا گیا۔یاد رہے کہ اس چینل کو قطری نیوز چینل الجزیرہ کا حریف سمجھا جاتا ہے۔عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب پر ماہرانہ تجزیہ پیش کرنے کی وجہ سے بین الاقوامی صحافتی دنیا میں ان کو معتبر سمجھا جاتا تھا۔2017میں جمال خاشقجی نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے موصوف نے الزام لگایا کہ سعودی حکومت نے عربی اخبار الحیات میں ان کا کالم بند کروا دیاہے اور انھیں اپنے 18 لاکھ ٹوئٹر فالوورز کے لیے ٹویٹ کرنے سے روک دیا ہے ۔جمال خاشقجی سعودی عرب کی یمن میں مداخلت کے مخالف تھے اوراکثر وبیشتر حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے رہتے ۔
جمال خاشقجی کے قتل کا معمہ حقائق کے منظرعام پر آنے تک ایک لوک داستان جیساہے ۔بغیر شواہد کے اس پر بحث وتمحیص فضولیا ت میں سے ہے ۔البتہ ایک بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ خاشقجی کو بنیاد بنا کر سعودی عرب کی بین الاقوامی ساکھ کو ضرور نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن سعودی عرب کو ایک قتل کے معمہ میں بدنام کرنا ،بین الاقوامی سطح پر پابندیوں کی تجاویز دینا،بغض اسلام توہوسکتا ہے انصاف قطعاً نہیں کیونکہ کہ شواہد آنے ابھی باقی ہیں ۔سعودی عرب ایسی ریاست ہے جوعرب دنیا اور عالم اسلام میں اعتدال کے فروغ کی روشن علامت ہے۔ ایسی ریاست کو کسی ثبوت کے بغیر مورد الزام ٹھہرا دینا اور سیاسی حساب بے باق کرنے کیلئے اس پر الزامات کی بوچھار کردینا کسی طرح درست نہیں ہے ۔اقوام عالم بالخصوص ان نام نہاد دانشوروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب جب سعودی عرب کے خلاف کوئی سازشی مہم لانچ کی گئی تب تب مملکت سعودیہ نے بڑے شریفانہ ،صاف شفاف اور معقولیت پسندانہ موقف اختیار کرکے ہر سازش اور ہر مہم کو احسن طریقے اورسلیقے سے ناکا م بنایا ۔جمال خاشقجی کے مقدمہ میں بھی سابقہ روایات کو مدنظر رکھا جارہا ہے۔اسی لیے تاخیری حربے اختیار کیے بغیر حقائق کو سامنے لانے کی سعی کی جارہی ہے ۔جیسے جیسے حقائق سامنے آئیں ویسے ویسے کارروائی کاعمل آگے بڑھتاجائے گا۔میں قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہودوہنود سعودی عرب کے عدم استحکام کے درپے ہیں ۔جبکہ ان کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہ ہوگا ہمیشہ یہ ناکام ونامراد رہیں گے۔
اقوام عالم میں فرزندان اسلام کابہتا لہو،کشمیرمیں ہندوستان کی سفاکیت اورنوجوانوں کا قتل عام،عراق،لیبیا،شام ،یمن ،افغانستان میں خون آشام جنگ ،بکھرے ہوئے لاشے ،اجڑے شہر،کھنڈرات میں تبدیل عمارات ،بچوں سے محروم اسکول ،ٹوٹے پھوٹے ہسپتال ،لاکھوں بے گھرمہاجرین مغربی میڈیا اس انسانی بحران پر کیوں تشہیری مہم نہیں چلاتا ،کیوں ذمہ داروں کے تعین کے لیے سرگرم نہیں ہوتا ،بھارت کی علاقائی انتہاپسندی کوکیوں نظرانداز کیا جاتاہے ؟میڈیا وار سعودی عرب کے خلاف ہی کیوں ؟ وہ بھی حقائق منظرعام پر آنے سے پہلے ۔دنیا کیوں بھول رہی ہے کہ سعودی عرب کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے ۔جمال خاشقجی کو بہانہ بنا کر سعودی عرب کی ترقی اورخوشحالی پر شب خون نہیں مارا جاسکتا ۔سعودی عرب شاہ سلمان اورمحمدبن سلمان کی قائدانہ قیادت میں ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات استوار کیے ہوئے ہے۔اسے روسی صدر پوٹین کی حمایت حاصل ہے جنہوں نے سعودی ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان کی زیر قیادت نئے سعودی عرب منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے وسیع البنیاد سیاسی اور ابلاغی مہم کے پیچھے چلنے سے انکار کردیا۔اس سے بڑھ کرپاکستانی حکومت اورعوام کی بھرپور حمائت حاصل ہے ،اس سنجیدہ صورتحال کے دوران پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہوکر اقوا م عالم کو واضح پیغام دیا ہے کہ مشکل کی ہرگھڑی میں پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
جمال خاشقجی کولے کر سعودی عرب کی اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ سعودی عرب خطے میں نیا ترقیاتی نمونہ عالمی افق پربنانے جارہا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان اصلاحات اور تجدید کا عظیم الشان منصوبہ نافذ کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ کئی فریق اس منصوبے کو ناکام بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔ ان میں فرقہ وارانہ جھگڑے برپا کرنے والے اور بنیاد پرستی کا علم بلند کرنیوالے شامل ہیں۔کئی بڑے ممالک بھی خطے اور دنیا میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کے ڈر سے جدید سعودی عرب سے خائف ہیں۔بعض بین الاقوامی تنظیمیں بھی جن کی زمام اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو نوکر شاہی کے فلسفے میں یقین رکھتے ہیں سعودی عرب بالخصوص آل سعود کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے ۔پتہ نہیں یہ کج فہم کیوں بھول گئے ہیں کہ ٹرمپ نے اپنے بین الاقوامی ممالک کے دوروں کا آغاز سعودیہ عرب سے کیا یہی نہیں سعودی عرب قلیل مدت میں تین بین الاقوامی کانفرنسز کی نمائندگی کرچکا ہے مشرقی بعید سے لے مغربی بعید تک دنیابھر موجود موثر تنظیموں سے مضبوط روابط قائم کیے ہوئے ہے۔سعودی عرب 39مسلم ممالک کی متحدہ فورس کی سربراہی کررہا ہے ۔دہشت گردی ،انتہاپسندی کی جڑیں اکھاڑنے اوربین الاقوامی دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے شانہ بشانہ کام کررہا ہے ۔
یاد رہے کہ بین الاقوامی پروپیگنڈا فی الوقت سعودی عرب کے خلاف ایک منفی رائے عامہ ہموار کرسکتا ہے۔اس منفی پروپیگنڈے سے سعودی عرب کا علاقائی وبین الاقوامی اثرونفوذ متاثر ہوسکتا ہے معطل ہرگز نہیں ۔اس کی وجہ سعودی عرب پیٹرول پیدا کرنے والا بڑا ملک ہے۔ سعودی پٹرول سے دنیا کا کوئی ملک بے نیاز نہیں ہو سکتا ۔ یہ بین الاقوامی معیشت کیلئے شہ رگ کا درجہ رکھتا ہے ۔ اسی طرح خطے میں سعودی عرب کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت پر حرف تنسیخ نہیں پھیرا جا سکتا ۔سیاست کی دنیا میں جغرافیائی محل و قوع کی اہمیت غیر متزلزل اورحقیقت کے طور پر مسلم ہے۔سعودی عرب کے دینی اثر و نفوذ کو بھی نہیں مٹایا جا سکتا کیونکہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں کا مرکز ہے ۔ مملکت کے علاقائی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔سعودی عرب علاقائی سطح پرمتعدد ممالک کو ہرمشکل وقت میں سپورٹ کرتاہے یہ ممالک کسی بھی صورت میں سعودیہ عرب کے خلاف کسی منفی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنیں گے۔موجود حقائق کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب کو کمزور کرنے کا نتیجہ خطے میں ناکامی اور بے چینی کا حلقہ وسیع کر دے گا۔جس سے مخالفین کو کچھ حاصل نہیں ہوگا البتہ بین الاقوامی دنیا ضرور متاثرہوگی۔دنیا کا امن خراب ہوگا۔لہذا دنیا کو پرامن بنانے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا ضروری ہے۔
بین الاقوامی دنیا کو یقین رکھناچاہیے کہ مملکت سعودیہ عرب انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے گی۔یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت نے انتہائی جرات اور مکمل شفافیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، مکمل حقائق پوری دنیا کے سامنے پیش کردیئے۔ یہ حقائق عدل وانصاف کی طرف پہلا قدم ہے ۔ سعودی حکومت نے اقوام عالم کو یقین دلا دیاہے کہ سعودی عرب عدل و انصاف کا علمبردار ملک ہے۔اس مملکت کے فیصلے اقوام عالم کے لیے بے نظیر ہوتے ہیں ۔سعودیہ عرب اسلام کا مرکز اورڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کی امنگوں کا محور ہے۔
جمال خاشقجی کی صحافتی خدمات کازمانہ معترف ہے ۔2اکتوبر 2018کو خالق حقیقی سے ملنے والے اس عظیم صحافی کی پیشہ وارانہ خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔موصوف نرم خو اورنرم گو تھے ،نہ آتشی مزاج تھے نہ آبی بلکہ میانہ روی آپ کی شخصیت کا طرہ امتیاز تھی۔خاشقجی نے حکومت کے فیصلوں پر کڑی تنقید کی مگر کسی سازشی عناصر کی ٹیم کا حصہ کبھی نہ رہے ۔موصوف کی موت کو حادثہ قرار دیا جاسکتا ہے سازش نہیں ۔بالفرض اگرسازش تصورکربھی لیا جائے تب بھی مملکت اوراس کے ذمہ داران اس میں ملوث نہیں ہوں گے۔سعودی ذمہ داران نے خاشقجی کے خاندان سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے اورجلد قاتلوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ موصوف کی لغزشیں معاف کرکے جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں