پارکوں کی حالتِ زار

آج چھٹی کا دن تھا بچوں سے ہم نے رات میں ہی یہ وعدہ کیا تھا کے صبح فجر کی نماز کے بعد انھیں پارک لے کرجائیں گے۔

خیر صبح بچے پارک کا سن کر ایک ھی آواز میں اٹھ گئے اب تیاری کے بعد ایک پارک پہنچے تو وہاں بھاری بھرکم تالے نے ہمارا استقبال کیا۔

بچوں سے وعدہ کیا تھا پورا تو کرنا تھا۔

اپنی سواری کا رخ دوسرے پارک کی جانب موڑ دیا وہاں پہنچے تو دور سے ہی ویرانیاں نظر آئيں

ایسا لگا آسیب  زدہ پارک ہو جیسےپھر بچوں کا مسلسل اسرار کے پارک چلیں پھر الخدمت ناظم آ باد پارک پہنچے جہاں لوگوں کی چہل پہل نظر آئیاپنا بچپن یاد آگیا جب نعمت اللہ خان نے اس پارک کا افتتاح کیا تھا جب کتنا اچھا لگا تھا صاف ستھرا بچوں کے لیے جھولے فوارے کے قریب لگی بنچوں پر لوگ بیٹھ کر فوارے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے لیکن آج کا منظر بالکل الگ ۔۔۔فوارے سوکھے پڑے تھے جھولے اجڑے پڑے تھے بچوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ان ٹوٹے پھوٹے جھولوں سے ہی لطف اندوز کروایا۔

بچوں کے اسکول کے داخلے کے لیے جائو تو والدین سے انٹرویو میں یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آپ بچوں کو پارک لے کر جاتے ہیں ؟اب بھلا کن پارکوں میں لے کر جائیں کچھ پارکس میں ملبا پڑا ہے  ۔ حکومت نے پارکوں میں بنے آفس گراۓ تھے تو اس ملبے کو بیچ کر ان پارکس میں قوم کے شاہینوں کے لیے جھولے ہی لگوادیتی۔اس دکھ بھری آپ بیتی کے بعد ارباب اختیار سے گزارش ہے کے کراچی شھر کے پارکس کی  حالت زار کی طرف نظر عنایت کیجیے

حصہ

جواب چھوڑ دیں