وصالِ زندگی

گزشتہ دنوں ایک ادبی محفل میں شرکت کا دعوت نامہ ملا ۔ یہ ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی تھی ۔ چو نکہ کافی عرصے کے بعد کسی کتاب کی تقریبِ اجراء میں شمولیت کا موقع ملا تھا لہذا اپنی تمام مصروفیات کو ایک طرف رکھا اور جا حا ضر ہو ئے۔ آرٹس کو نسل کے منظر اکبر حال میں شام 6 بجے پہنچے تو توقع سے زیادہ لوگ دیکھ کر حیرت ہو ئی کہ اب پاکستان میں بھی لو گ پابندی ِ وقت کا خیال رکھنے لگے ہیں جو کہ خوش آئند بات ہے۔مزید چند لمحوں کے بعد مہمانانِ گرامی کی آمد شروع ہو ئی ۔ جن میں قابلِ ذکر “حسینہ مُعین”،”رفعت سراج”،”مُبین مرزا”،”حمرا خلیق”جبکہ مہمانِ خصوصی “پروفیسر ہارون رشید” تھے۔ان مشہور و معروف شخصیات کی آمد سےاس بات کا اندازہ تو ہو گیا کہ یہ کتاب کو ئی عام کتاب نہ ہو گی ۔”سیدہ نادیہ مُسلم” اس کتاب کی مصنفہ ہیں ۔ یہ ان کی پہلی کاوش ہے ۔ان کی اس تحریر کا نام “وصالِ زندگی ” ہے۔سیدہ نادیہ مسلم صاحبہ راولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔کالج لاہور کینٹ سے بی –اے کرنے کے بعدکراچی یونیورسٹی سے ارُدوادب میں ایم – اے کیا۔ان کی کئی تحاریر  مُختلف میگزین کی زینت بنتی رہی ہیں ۔16 دسمبر کے حوالے سے کراچی آرٹس کونسل میں تھیٹر بھی کروا چُکی  ہیں۔پچھلے 15 سال  بحیثیت ِ مُعلم اپنے فرائض آرمی پبلک اسکول اور بحریہ کالج کراچی و اسلام آباد ادا کر چُکی ہیں۔اُن کی  اس کتاب میں دو ڈرامے اور ایک افسانہ شامل ہے۔  انہوں نے اپنی کتاب میں مُعاشرتی بُرائیوں کو نہایت ہلکے انداز میں پیش کیا ہے ۔ یعنی اُن کی یہ خصوصیت کہ انتہائی سنگین مسائل کو اس انداز سے پیش کرنا کہ کتاب ختم کرنے کے بعد قاری اپنے دل پرکو ئی بو جھ محسوس نہیں کرتا اور بیداری بھی حاصل کر لیتا ہےاُن کی تحریر کو منفرد کرتی ہے  ۔ سید ہ نادیہ کی تحریر کی خاص بات سادگی اور پرکاری ہے ۔ اُن کی تحریر کو ہر خاص و عام باآسانی پڑھ اور سمجھ لے گا ۔مشکل الفاظ سے گریز کیا ہے جو یقیناََ اُن کی کامیابی کی دلیل بنے گی۔کتاب پڑھتے ہوئے یہ بالکل اندازہ نہیں ہو تا کہ یہ تحریر کسی نو آموز کی ہے ایسا ہی معلوم ہو تا ہے کہ جیسے نادیہ اس کھیل کی پُرانی کھلاڑی ہے ۔کتاب کے مواد پر اظہار ِ خیال کرتے ہو ئے حسینہ مُعین نے اس کتاب کو اُردو ادب میں تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا ۔جو یقیناََ نادیہ کے لیے باعثِ فخر ہے ۔مشہور ناول نگار رفعت سراج نے کہا کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد  میں اس میں کو ئی تنقیدی پہلو نہ ڈھونڈ سکی یہ ایک مکمل کتاب ہے جسے سب کو پڑھنا چاہیے۔مہمان ِ خصوصی ہارون رشید نے اس کتاب کی تعریف میں کہا کہ سب سے پہلے تو ہم نادیہ مُسلم کو  ادب کے سمندر میں خوش آمدید کہتے ہیں۔  اپنے خیالات کے اظہار میں مزید کہنے لگے کہ میں نادیہ کو مُبارک باد دیتا ہوں کہ ایسے مُشکل  اور حساس موضو ع   پر قلم اُٹھایا وہ بھی اپنی پہلی کاو ش میں، جو کہ اپنے آپ میں ایک جرات مندانہ قدم کے ساتھ ساتھ  قابلِ تعریف بھی ہے ۔ ان کی جگہ اگر میں ہوتا تو کبھی بھی اپنی پہلی تحریر میں ایسے عنوان کا انتخاب نہ کرتا ۔اس بات کے لیے یہ لائق ِ تحسین ہیں ۔مزید کہتے ہیں کہ جب میں نے کتاب اُٹھائی تو سو چا تھا ایک دو باب پڑھنے کے بعد رکھ دوں گا کہ بے انتہا مصروفیت ہے لیکن یہ ان مُصنفہ کا کما ل ہے کہ میں ایک ہی نشست میں پوری کتاب پڑھنے پر مجبور ہو گیا اور یہ کسی بھی لکھاری کی کامیابی کی کُنجی ہےکہ  قاری اس کی تحریر کو شروع کرے تو ختم کر کے ہی دم لے۔اپنے متن کو سمیٹتے ہو ئے گویا ہو ئے کہ مُستقبل میں بھی ہم ان سے مزید اچھی کتابوں کی اُمید رکھتے ہیں۔اس موقع پرآرٹس کونسل کے صدر محمود احمد شاہ بھی موجود تھے ۔نادیہ مُسلم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ ان موضوعات کا انتخاب کرنا میرے لیے کسی پہاڑ کو سر کرنے سے کم نہ تھا ۔ حالانکہ اس سمندر میں یہ میری پہلی چھلانگ تھی اور تیرنا ابھی مجھے سیکھنا   ہے ۔ یہ کتاب میری  شب و روز کی محنت  کا نتیجہ ہے ۔اس موقع پر انہوں نے خاص طور اپنے والدین اور شوہر کا شُکریہ ادا کیا جنھوں نے ہر قدم پر نہ صرف  اُن کا ساتھ دیا بلکہ حوصلہ بھی بڑھا یا ۔منظر ہال  بھرا ہو اتھا ۔ ادبی اور سماجی شخصیات کے علاوہ کئی دیگر شُعبہ جات کے افراد کو اس ادبی تقریب میں دیکھ کر خوشی ہو ئی ۔ کتاب سے مُحبت باشعور مُعاشرے کی دلیل ہے۔ میرا آپ سب کو یہ مشورہ ہے کہ نہ صرف یہ کتاب خریدیں ،پڑھیں بلکہ دوسروں کی بھی اس کے مُطالعہ کی تلقین و ترغیب دیں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں