یہ ایک کام کرلیں‎

26 سالہ سموئیل جانسن اور 25 سالہ ایڈم سلوپر چار سال تک دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک گھومتے رہے ۔ ان دونوں نے برٹش بیک پیکر کے نام سے ایک سوسائٹی بنائی اور دنیا کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔ یہ ساتوں براعظموں کے حسین ترین ممالک گھومے ۔ اور باالآخر یکم جنوری 2018 کو انھوں نے دنیا کے 20 خوبصورت ممالک کی فہرست شائع کردی جس میں ان کی سیاحت کے تجربے کے مطابق 2018 میں سیاحت کے لئیے دنیا کا سب سے بہترین ملک ” پاکستان ” تھا۔ جبکہ روس دوسرے اور ہندوستان تیسرے نمبر پر جگہ بناسکا ۔ ان دونوں دوستوں نے ” قراقرم ہائی وے ” کے سفر کو دنیا کے حسین سفر قرار دیا ۔ کاغان ، ناران ، ہنزہ ، اسکردو اور خنجران پاس تک گئے ۔ ایک مہینے تک پاکستان کے طول وعرض میں گھومے ۔ پاکستان کو سب سے زیادہ ” دوستانہ رویہ ” رکھنے والا ملک اور یہاں کی عوام کو حد سے زیادہ ” مہمان نواز ” پایا ۔

محض اٹھارہ مہینوں میں دنیا کے 196 ممالک گھومنے والی کے – سی – ڈی پکول ان 196 ممالک کی سیاحت کے دوران 2015 میں پاکستان آئی اور بالخصوص کراچی آکر ایک یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات سے خطاب بھی کیا ۔ اپنے اٹھارہ مہینے کے دنیا کے مختصر سے دورے کے بعد ٹیلی گراف کو بھیجی گئی رپورٹ میں اس نے پاکستان کو ” پانچواں ” حسین ترین ملک ڈکلئیر کردیا ۔ کمال تو یہ ہوا کہ اس نے کراچی کی عوام کے ساتھ اپنے ٹویٹ میں وسیم اختر صاحب کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا جنکا شکریہ ادا کرنے کے لئیے تاحال کراچی والے منتظر ہیں ۔

کاش کے ہماری  حکومت اپنے ملک کو سموئیل جانسن ، ایڈم سلوپر اور کے سی – ڈی پکول کی نظر سے دیکھ سکے ۔ آپ کمال ملاحظہ کریں جرمنی ، فرانس ، اٹلی اور آسٹریا کے اضافی پہاروں پر مشتمل سوئیٹزر لینڈ دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے ۔ انھوں نے سیاحوں کو سہولیات دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں اٹھا رکھا – پاکستان کے نامور موٹیویشنل اسپیکر قاسم علی شاہ صاحب پچھلے دنوں ازبکستان گئے ۔ واپس آکر انھوں نے ایک نجی ٹیلی ویژن پر  ازبکستان کے حوالے سے اپنے تاثرات ریکارڈ کروائے ۔ جس دن وہ پروگرام آن ائیر ہوا  ازبکستان ایمبسی سے ان کو شکریے کی کال موصول ہوئی ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی ایمبسی نے اس بات کی اجازت بھی چاہی کہ ہم آپ کے ان تاثرات کو اپنی زبان میں مقامی اخبار میں شائع کروانا چاہتے ہیں ۔ چند دنوں کے بعد ان کی سرکاری ائیر لائن سے دوبارہ شکریے کا فون آیا اور تحفتا ً آئندہ کے لئیے ریٹرن ٹکٹ بھی بھیج دیا گیا ۔ یہ ہوتی ہیں قومیں اور یہ ہے ان کی ترقی کا راز۔

ہندوستان میں اسوقت 36 علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ 24 گھنٹوں میں 26 خود کشیاں صرف تعلیمی اداروں میں کی جاتی ہیں ۔ دنیا میں ” ریپ ” کے سب سے زیادہ اور بے باکانہ کیسسز بھارت میں ریکارڈ ہوتے ہیں ۔ اقلیتیں خوف اور دہشت کے ساتھ زندگیاں گذار رہی ہیں ۔ اور وہاں عملاً  انتہا پسندوں کی حکومت ہے ۔اس سب کے باوجود انھوں نے اپنا  ” تاثر ” دنیا کے سامنے ایسا رکھا ہوا ہے جیسے ہندوستان سے زیادہ امن پسند ملک کوئی نہیں ہے ۔ہمارے ملک میں باہر والے آکر تعریفیں کر رہے ہیں لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔ دنیا کے 8 ہزار فٹ سے بلند 14 میں سے 6 پہاڑ پاکستان کے پاس ہیں ۔ سال کے چاروں موسم یہاں پائے جاتے ہیں ۔ ایک ہی وقت میں برف اور شدید گرمی آپ کو اس ملک میں مل جائیگی ۔ صحرا سے لے کر سمند ر ، جھیلیں ، دریا ، پہاڑ   اور ریگستان  تک یہاں موجود ہیں ۔ دنیا کا دوسرا بڑا نہری نظام ہمارے پاس ہے ۔ یہاں روز چودہ گھنٹے سورج چمکتا ہے ۔ ٹیکسلا ، ہڑپہ  اور موئن جو دڑو جیسی ساڑے چار ہزار سال پرانی تہذیبیں اور تاریخیں اس ملک میں موجود ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہم وہ بد قسمت ملک ہیں جسکا پاسپورٹ دنیا کا پانچواں بدترین پاسپورٹ ہے ۔ ہمارے لئیے روانڈا ، موزمبیق اور ایتھوپیا جیسے ملک رہ گئے ہیں جہاں ہمیں ” آن ارآئیول ” ویزے کی سہولت حاصل ہے ۔سنگاپور جیسا ملک صرف دھوپ ، سمندر اور ہوا کی بنیاد پر دنیا میں اپنا مقام بنا چکا ہے ۔

نہ ہم دنیا کو دکھاتے ہیں اور نہ ہی بتاتے ہیں کہ پاکستان کیا ” عجوبہ ” ہے جو خدا نے دنیا میں صرف ہمیں ہی دیا ہے ۔ ہندوستان نے ساری دنیا میں گاندھی کو ایسا ہیرو بنا کر پیش کیا ہے کہ اسٹیفن کووے سے لے کر نپولین ہل تک گاندھی کو ” ہیرو ” قرار دیتے ہیں ۔کس بات کا ہیرو  ؟ اور جس نے اصل میں چالیس فیصد لوگوں کو ٹی – بی کا مریض ہونے  اور دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود آذادی دلوادی ہم اسکا نام اور مقام تک دنیا کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ شکر ہے حکومت کو ” قائداعظم ہاؤس ” کی تزئین و آرائش کا خیال آیا لیکن جس قسم کا بد اخلاق عملہ آپ نے وہاں تعینات کر رکھا ہے وہ لوگوں کو منحرف کرنے کے لئیے کافی ہے ۔

میں موجودہ حکومت سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ خدارا ! سیاحت کے لئیے ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کریں ۔ ہنزہ اور سوات کے ائیر پورٹس کو انٹر نیشنل ایئر پورٹ بنانے کی کوشش کریں ۔ تمام تاریخی مقامات کو وفاق کے اختیار میں لے کر خصوصی ٹاسک فورس کے ذریعے عالمی معیارات کے مطابق نہ صرف ان کو ” رینوویٹ ” کروائیں بلکہ تربیت یافتہ ” گائیڈز ” بھی وہاں متعین کئیے جائیں ۔ میں وزیر اعظم کی ” باتھ روم بناؤ” پالیسی کی بھی حمایت کرتا ہوں ۔ آپ کو سیف الملوک پر پیپسی مل جائیگی لیکن ڈھنگ کا باتھ روم نہیں ملے گا اور اگر مل گیا تو سامنے جھیل ہونے کے باوجود پانی نہیں ملے گا ۔ سوات ، ناران ، گلگت اور کشمیر کے رستوں پر مقامی آبادی کو فعال کر کے شاندار اور صاف ستھرے ” پبلک ٹوائلٹس ” بنوائے جائیں ۔ ایسے تمام سیاحوں کو جو پاکستان کی سیر کر کے جاچکے  ہیں اور اچھا تاثر رکھتے ہیں حکومتی خرچ پر بلا کر خصوصی شکریہ ادا کیا جائے ان کو اعزازی سفیر بنایا جائے اور ساری دنیا میں اپنی ” مارکیٹ ” کو بہتر کیا جائے ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر خان صاحب صرف سیاحت کے شعبے کو بحال کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہمیں ڈیم کے لئیے بھی چندے کی ضرورت نہیں پڑے گی  اور سرمایہ کار بھی ملک میں آسانی سے آسکیں گے ۔ آخری بات یہ کہ   ریحان اللہ والا اور مستنصر حسین تارڑ جیسے  زیرک اور دنیا دیکھے اشخاص کو سیاحت کا مشیر بھی مقرر کیا جاسکتا ہے ۔بس اگر آپ یہ ایک کام بھی کرلیں تو ملک پر احسان ہوگا۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں