عافیہ صدیقی سے ذیشان اشرف تک ہمارا قومی المیہ 

کراچی سے برادرم محمد ایوب ( گلوبل کوآرڈینیٹر عافیہ موومنٹ) کا گزشتہ روز ایک ٹیکسٹ میسج ملا کہ جمعہ 19اکتوبرکو عظیم بہن عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے خصوصی دعاوں کا اہتمام کیاجائے”۔ پاکستان کی باہمت بیٹی عافیہ صدیقی اب آہستہ آہستہ ہماری تاریخ کا وہ باب بنتی جارہی ہیں جنہیں ہمارے حکمران تو یکسر فراموش کر چکے مگر عوام اس بیٹی کو بھلادینے پہ آمادہ نظر نہیں آتے ہیں۔ہاں بہن فوزیہ صدیقی اور عافیہ موومنٹ کے ذمہ داران اکثر ہمیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ اس ایٹمی قوت کی حامل غیرت مند قوم کی ایک بیٹی عافیہ جس کی بوڑھی ماں اور چھوٹے چھوٹے بچے اس کے لئے تڑپ اور بلک رہے ہیں ، وہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن امریکہ کی قید میں پچھلے ڈیڑھ عشرے سے اذیت اور انتہائی گھناؤنے ظلم وستم سہنے پہ مجبور ہے۔یہ پاکستانی قوم کا اعزاز ہے کہ کراچی سے خیبر تک بسنے والے ہر پاکستانی کا دل مظلوموں کیلئے تڑپتا ہے۔ عافیہ ہماری مجموعی قومی حمیت کے لئے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مشرف ، زرداری ، نوازشریف اور اب عمران خان کسی میں بھی اتنی جرات و غیرت نہیں کہ وقت کے فرعون سے اپنی ایک بے گناہ بیٹی پہ ٹوٹنے والے مظالم کا حساب مانگ سکیں۔یہ کیسا دوغلہ معاشرہ ہے ؟ جو دور حاضر کے سب سے بڑے مجرم امریکہ کو یہ حق دیتا ہے کہ ایک طرف وہ عالم اسلام کی بیٹی کو قید کے اندھیروں میں جھونک کر دنیا کے لئے نشان عبرت بنادے تو دوسری طرف نہتے فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کی کھلی پشت پناہی کرے اور پھر بھی خود کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ گردانے۔اللہ تعالی سے دعا ہے وہ ہمارے حکمرانوں کو غیرت ایمانی بخشے کہ وہ اپنی بیٹیوں کا تحفظ کرسکیں۔
اٹھائیس سالہ خوبصورت نوجوان صحافی نوائے وقت کے رپورٹر (سابق چئرمین پریس کلب سمبڑیال)ذیشان اشرف کے قتل کو سات ماہ بیت گئے ہیں۔(یاد رہے کہ ذیشان اشرف صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے یونین کونسل کے برآمد ے میں قتل کئے گئے تھے) سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کا باوجود قاتل عمران اسلم چیمہ (سابقہ حکمران جماعت کا یوسی چئیرمین )اب تک گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ سپریم کورٹ کے احکامات اوراعلی پولیس افسران کے تمام دعوے انصاف کا منہ چڑا رہے ہیں۔ معروف کالم نگار واینکر حامد میر صاحب نے چند دن قبل اپنے پروگرام اور پھر اپنے کالم میں ذیشان اشرف کے قتل نا حق کا ذکر کر کہ ایک بار پھر اس کیس کو زندہ کیا ہے۔مقتول صحافی کے بڑے بھائی عرفان اشرف انصاف حاصل کرنے کے لئے پرعزم ہیں ، اچھی بات یہ ہے کہ وہ ابھی سسٹم سے مایوس نہیں ہوئے ۔ صحافی برادری مل کر بھی اگر اپنے ایک مقتول ساتھی کے ورثاء کو انصاف دلانے میں ناکام رہتی ہے تو ایسے میں ایک عام آدمی اپنے درد کی دوا کس سے چاہے گا؟۔صحافیوں کے حوالے سے پاکستان خطرناک ترین ملک بنتاجارہاہے ارباب اختیار کو اس جانب بھی توجہ دینی ہوگی۔
عافیہ صدیقی سے ذیشان اشرف تک ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم صرف سسٹم کے خلاف آواز اٹھا دینا کافی سمجھتے ہیں،اس فرسودہ انصاف سے عاری سسٹم کو بدلنے میں ہم کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمیں انصاف ملے لیکن کسی دوسرے کو انصاف دلانے کے لئے ہماری کوششیں ہمیشہ صفر ہوتی ہیں۔ ایک اچھا معاشرہ تشکیل دینے کے لئے ہمیں اپنے اندر نہ صرف ظالم کو ظالم کہنے کی جرات بلکہ حتی المقدورظالم کا ہاتھ پکڑنے کی ہمت بھی پیدا کرنی ہوگی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں